اب اگلا نشانہ کیا ہو گا؟؟

اب اگلا نشانہ کیا ہو گا؟؟
تحریر : عقیل انجم اعوان
یہ جنگ صرف چار دن کی تھی لیکن اس نے برصغیر کے ڈیڑھ ارب انسانوں کی نیندیں چھین لیں۔ توپیں خاموش ہو چکی ہیں، میزائل برسنا بند ہو چکے ہیں مگر خوف، غصہ اور غیر یقینی کی گونج اب بھی فضائوں میں باقی ہے۔ یہ جنگ ختم ہو چکی ہے۔۔۔ لیکن امن؟ نہیں صاحب، امن ابھی دور ہے، بہت دور! بھارتی وزیرِاعظم نریندر مودی نے جنگ بندی کے بعد جو اعلان کیا وہ جنگ کے خاتمے سے زیادہ جنگ کے تسلسل کی نوید تھا۔ انہوں نے نئی ’’ ڈاکٹرائن‘‘ متعارف کرائی ہر دہشت گرد حملے کا جواب پاکستان پر فوری حملے کی صورت میں دیا جائے گا تحقیق بعد میں ہو گی۔۔۔ یا شاید کبھی نہیں ہو گی۔ یعنی جو پاکستان نے کیا ہی نہیں، اس کا خمیازہ بھی پاکستان ہی بھگتے گا! یہ پیغام صرف سرحد پار نہیں گیا یہ پوری دنیا میں گونجا خاص طور پر ان کانوں میں جو امن کے نعرے لگاتے ہیں اور پھر اسلحہ بیچتے ہیں۔
اب ذرا لمحہ بھر کو رکیں اور سوچیں۔۔۔
اگر کوئی چاہے کہ بھارت اور پاکستان کی سرزمین پھر سے بارود کا ڈھیر بن جائے تو اُسے کچھ کرنے کی ضرورت ہی نہیں۔ بس بھارت میں ایک دھماکہ ہو اور جنگ شروع! یہ سوچ کر خوف آتا ہے کہ برصغیر کی سیاست اتنی غیر ذمہ دار ہو چکی ہے کہ کسی انتہا پسند کی انگلی اگر کسی ریموٹ پر چل جائے تو لاکھوں قبریں کھد سکتی ہیں۔ مگر سوال یہ ہے۔۔۔ جب پاکستان نے سات مئی کو اعلان کیا کہ وہ ’’ وقت اور جگہ کا تعین خود کرے گا‘‘ تو اُس وقت ہمارے عسکری منصوبہ ساز کن اہداف پر غور کر رہے تھے؟ بھارتی چالاکی یہ تھی کہ انہوں نے شہری علاقوں پر حملے کیے اور انہیں دہشت گردی کے کیمپ ظاہر کر دیا۔ اب پاکستان اگر جواب میں بھارتی شہری آبادی پر حملہ کرتا تو کیا وہ دنیا کی نظروں میں دہشت گرد نہ کہلاتا؟ اگر فوجی تنصیبات پر حملہ کرتا تو بدلے میں توپوں کی گھن گرج بڑھ جاتی اور اگر آبی تنصیبات کو نشانہ بناتا تو نقصان آخرکار خود پاکستان کو بھی ہوتا۔ یعنی دشمن نے چالاکی سے شطرنج کی بساط بچھا دی اور ہر خانہ ہمارے لیے خطرہ بن گیا۔
ایسے میں سوال پھر وہی ہے۔۔۔
پاکستان کیا کرے؟
اب ذرا بھارتی زمین پر نظر ڈالیں۔ وہاں ایک ایسی تنظیم ہے جو 1925ء سے موجود ہے۔ نام ہے راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (RSS)۔ اس کا خواب ہے ایک ایسا بھارت جو صرف ہندو ہو جہاں مسلمان، عیسائی اور دیگر اقلیتیں صرف اسی صورت میں رہ سکیں جب وہ ہندو مذہب و تہذیب کو تسلیم کر لیں ورنہ نہیں۔ آر ایس ایس کے لاکھوں کارکن ہیں ہزاروں کیمپس ہیں جن میں صرف لاٹھیاں نہیں بلکہ ہتھیار بھی چلانا سکھایا جاتا ہے۔ یہ تنظیم صرف نظریاتی نہیں عملی ہے یعنی ’’ حرکی‘‘ اور یہی تنظیم بی جے پی کی ماں ہے۔ جی ہاں وہی بی جے پی جس کے لیڈر نریندر مودی ہیں جنہیں کبھی امریکہ نے گجرات کے قتل عام پر ’’ ناپسندیدہ‘‘ قرار دیا تھا۔
اب ستم ظریفی دیکھیے کہ پاکستان میں جیشِ محمد، لشکرِ طیبہ یا کسی بھی مذہبی جماعت نے کبھی الیکشن نہیں جیتا مگر بھارت میں ایک انتہا پسند جماعت برسرِاقتدار ہے۔ ایک انتہا پسند تنظیم کے تربیت یافتہ کارکن آج بھارت کے وزیر، مشیر اور پالیسی ساز ہیں۔ یہی نہیں بھارت کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوول نے 2014ء میں دھمکی دی ’’ ایک اور ممبئی کر کے دیکھو، ہم تمہیں بلوچستان سے محروم کر دیں گے‘‘۔ اور اس دھمکی کے فوراً بعد بلوچستان میں دہشت گردی کی لہر اُٹھی، جفر ایکسپریس کا المیہ ہوا، فوجی جوان شہید ہوئے۔
کیا یہ سب محض اتفاق تھا؟، کیا کینیڈا اور امریکہ جیسے ممالک جھوٹ بول رہے ہیں جب وہ بھارت پر الزام لگاتے ہیں کہ اُس نے اُن کے شہریوں کو قتل کرانے کی کوشش کی؟، اور اب اگر پاکستان اگلی بار بھارتی جارحیت کا جواب دے تو کیا وہ آر ایس ایس کے کیمپوں کو ہدف نہیں بنا سکتا؟ کیا وہ اُن جگہوں کو نشانہ نہیں بنا سکتا جہاں انتہا پسندی کو تربیت دی جاتی ہے؟ کیا وہ اُن ’’ غیر ریاستی عناصر‘‘ کو بے نقاب نہیں کر سکتا جو ریاستی سرپرستی میں نفرت اور دہشت گردی کو پھیلا رہے ہیں؟۔
آپ نے سنا ہوگا کہ دشمن کی رگ کاٹنے کے لیے دل نہیں دماغ درکار ہوتا ہے۔ شاید وقت آ گیا ہے کہ پاکستان بھی جنگ کے میدان میں دل کے بجائے دماغ کا استعمال کرے اور دشمن کے نظریاتی مراکز کو بے نقاب کرے۔
آج کا بھارت وہ بھارت نہیں جو نہرو کے خوابوں میں بستا تھا۔ یہ مودی کا بھارت ہے آر ایس ایس کا بھارت ایک ایسا بھارت جو اقلیتوں سے نفرت سے بھرا اور جنگ کے دہانے پر کھڑا ہے۔
اور سوال پھر وہی۔۔۔
اگلی بار جب پاکستان کو ’’ جواب دینا‘‘ ہوگا، تو کیا ہم ’’ اصل دشمن‘‘ کو نشانہ بنائیں گے؟
فیصلہ ہمیں کرنا ہے اور وقت ہمارے پاس کم ہے!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔





