Column

نصف ایمان

نصف ایمان
تحریر : صفدر علی حیدری
احادیث مبارکہ میں پاکیزگی کی مدح میں بہت کچھ ملتا ہے ۔ اہم ترین بات یہ کہ صفائی نصف ایمان ہے۔ اس سے مراد صرف جسمانی صفائی تو نہیں ہو سکتی ۔ یقیناَ اس میں روح کی دل کی اور خیالات کی صفائی بھی شامل ہو گی۔ نصف ایمان سے یاد آیا کہ بیوی کو نصف بہتر کہا جاتا ہے۔ اور شادی کر کے انسان کا آدھا دین محفوظ ہو جایا کرتا ہے۔ کہوں کہ اس سے بھی صفائی ( دھلائی ) کا اچھا خاصا موقع ہاتھ آتا ہے۔ اب یہ سوال کہ کس کی دھلائی کس کے ہاتھ ہاتھ ہوتی ہے ، اس کے جواب میں ہاتھ ڈالنے سے حتی الامکان احتیاط بہتر ہے۔ یہ بہر حال طے ہے کہ جس کی صفائی ہوتی ہے اس کا آدھا ایمان مکمل ہو جاتا ہے اور جس کے ہات سے یہ نیک کام سر انجام پاتا ہے اسے بھی صفائی کے کچھ نہ کچھ نمبر ضرور ملتے ہوں گے ۔
اندر کی صفائی ضروری ہے مگر آغاز باہر سے کرنا ہوتا ہے ۔ کوڑا دان کے پاس کھڑے ہو کر یا کوڑے کے ڈھیر کے پاس بیٹھ کر اندر کی صفائی ممکن نہیں۔ جیسا ماحول ویسا اثر ۔ اچھا ماحول اچھے خیالات کو جنم دیتا ہے۔ ہم لوگ بعض دفعہ درست سمت میں قدم نہیں اٹھاتے ۔ ہم پہلے باطن کی اصلاح کی کوشش کرتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ جسم کی صفائی اولیت نہیں رکھتی بلکہ سرے سے اہمیت ہی نہیں رکھتی۔ اصل باطن کی صفائی ہے۔ یہیں پر ہم غلط راہ پر قدم اٹھاتے اور ہر گزرتے لمحے منزل سے دور ہوتے جاتے ہیں۔
وہ جو شاعر نے کہا ہے
بے مراد ہے پائوں گرد راہ سے اٹ کر بھی
مانا ہماری روح ہمارے جسم سے لاکھوں سال پہلے وجود میں آئی تھی۔ اور وہ امر ربی ناقابل فنا ہے مگر جسم کی اہمیت اس سے کم نہیں ہو جاتی۔ جسم روح کی سواری ہے ۔ روح کا اثر جسم پر مسلم ہے تو جسم بھی روح پر اپنا مثبت یا منفی اثر ڈالتا ضرور ہے۔
دنیا میں یہ ترتیب ایک لحاظ سے الٹ بھی جاتی ہے۔ یہاں جسم پہلے پنپتا ہے اور روح اس میں بعد میں داخل ہوتی ہے۔
اگر ہم روح کو آخرت کے بعد کی زندگی تصور کریں اور جسم کو دنیا کی زندگی سے تشبیہ دیں تو زندگی کی اہمیت اس درجہ اور اس وجہ سے ہے کہ اس سے آخرت کا نفع کمایا جائے ۔ اس سے آخرت کی زندگی کو سنوارا جائے ۔ مگر ایسا عموماً ہوتا کم کم ہے۔ ہم میں سے کئی لوگ یہ سوچ کر کہ زندگی ایک بار ملتی ہے ، ہر طرح سے اسے انجوائے کرنے میں خود کو کھپانے لگتے ہیں۔ روح کو بھوکا رکھ کر جسمانی خواہشات کی تکمیل کرنا کسی طور ابدی تسکین کا سبب نہیں بنتا۔
ہم روح اور جسم کا مرکب ہیں۔ نفس نے ان دونوں کو جوڑ رکھا ہے۔ اب کوئی بھی چیز ایسی نہیں ہو گی جو ہمارے جسم کو تو نفع پہنچائے مگر روح پر اس کا کوئی اثر نہ ہو۔ روح اور جسم آپ میں رل مل کر یک جان دو قالب ہو گئے ہیں ۔ ان کی خوشیاں بھی سانجھی ہیں غم بھی ۔ دونوں کے تقاضوں اور مطالبوں میں فرق ہو تو ہو مگر وہ ایک دوسرے سے یکسر لاتعلق رہ نہیں سکتے۔
اب روح بھی آلودہ ہوتی ہے، ذہن بھی ، قلب اور جسم بھی آلودگی کا شکار ہوتے ہیں۔ پاکیزگی کے لیے ان کی تطہیر ضروری ہے ۔ بڑی صفائی کے ساتھ انھیں صفائی کے عمل سے گزارا جاتا ہے۔ جو ان کی دھندلاہٹ ماند پڑ جاتی ہے اور وہ پھر سے جگمگا اٹھتے ہیں۔
ہمارے جسم کے ہر حصے کے اپنے مسائل ہیں اور اپنے اپنے تقاضے ۔ زبان کو لذت کی طلب ہے ( خواہ وہ چسکا اسے اچھے کھانے سے ملنے، مشروب پینے سے ملے یا بے تکان بولنے سے )
پیٹ کو مرغن غذائوں کی پڑی رہتی ہے۔۔ وہ تو برملا کہتا ہے
اللہ نے مجھے اس لیے بنایا ہے کہ مجھے بھرا جا سکے اور پھر خالی اس لیے کیا جائے کہ دوبارہ بھرا جا سکے۔
سو وہ قل خوانی یا جمعرات کے چاول بھی مزے مزے لے لے کھاتا ہے۔
ذہن کی اپنی دلچسپیاں ہیں تو قلب کی اپنی رنگینیاں۔ روح الگ اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنائے بیٹھی ہوتی ہے۔
قلب اگر پاکیزہ ہو گیا ہے ۔ سلیم بن گیا ہے تو اسے ذکر الٰہی سے اطمینان نصیب ہوتا ہے۔ اب وہ جسے اپنا خدا جانتا اور مانتا ہے اسی کی یاد سے اس کو قرار ملتا ہے۔ گویا مقصد سب کا ایک ہے، زیادہ سے زیادہ مسرت کا حصول۔
اس میں کسی شک کی گنجائش نہیں کہ خواہش کوئی بھی ہو کبھی مذموم نہیں ہوتی نہ ہو سکتی ہے۔ انھیں رب نے خلق کیا ہے سو اس کی تخلیق میں کسی قسم کا سقم ہے نہ کوئی کجی
کتاب قدرت نے آواز دی:
’’ اور کہتے ہیں: ہمارے رب! یہ سب کچھ تو نے بے حکمت نہیں بنایا، تیری ذات ( ہر عبث سے) پاک ہے ‘‘
سورہ ملک میں ہے:
’’ تو رحمٰن کی تخلیق میں کوئی بدنظمی نہیں دیکھے گا، ذرا پھر پلٹ کر دیکھو کیا تم کوئی خلل پاتے ہو؟
پھر پلٹ کر دوبارہ دیکھو تمہاری نگاہ ناکام ہو کر تھک کر تمہاری طرف لوٹ آئے گی‘‘۔
سو کوئی خواہش مذموم ہے ۔ اصل میں دیکھنا یہ ہوتا ہے کہ کہیں وہ عشق ممنوع بن کر انسانی اوصاف کو مجروح تو نہیں کر رہی۔ وہ توازن کی حدوں کو توڑ تو نہیں رہی ۔ اس کے حصول کی کوشش میں انسان جادہ حق سے کہیں دور تو نہیں جا پڑا۔ اپنی خواہش کی تسکین کی چاہ میں اس نے کسی کی خواہشوں کو روند تو نہیں ڈالا۔ اپنی ذاتی تسکین کے لیے اس کے کسی دوسری کو خوشیوں سے محروم تو نہیں کر دیا۔ اب اگر اس نے اس سب کا خیال رکھا ہے۔ اس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے لوگ محفوظ ہیں تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس کی تمام خواہشات اب ممنوع کے دائرے سے نکل کر مسنون کے دائرے میں داخل ہو گئی ہیں۔
انسان جب اپنے ظاہر و باطن کی صفائی کرتا ہے تو اس کا اثر ہر جگہ نظر آتا ہے۔
استاد من، ڈاکٹر وحید اظہر یاد آئے
’’ اندر کشادگی نہ ہو تو باہر کشیدگی پھیل جاتی ہے ‘‘
یہ کالم پنجاب حکومت کے ایک اچھے کام کی پذیرائی کے لیے لکھنا چاہا مگر بات تمہید سے ہوتی ہوئی جانے کہاں جا پہنچی۔ ’’ ستھرا پنجاب ‘‘ سچ میں ایک ستھرا منصوبہ ہے۔ اس پر عمل بھی بڑے احسن طریقے سے ہو رہا ہے۔ کم از کم اوچ شریف اور علی پور کے حوالے سے یہ بات میں یقینی طور پر کہہ سکتا ہے۔ سبز رنگ کی ٹرالیاں ، سبز رنگ کے ٹریکٹر ، سبز لوڈر ، سبز کوڑے دان اور سبز وردیاں پہنے ہوئے مستعد عملہ بآسانی یہ ظاہر کرتا ہے کہ کام احسن طریقے سے جاری ہے۔ آج ایک گلی سے گزرتے ہوئے دیکھا کہ صفائی کا عملہ دروازے کھٹکھٹا کر کوڑا مانگ رہا تھا ۔ ان کے ساتھ ایک سبز لوڈر تھا۔ وہیں پر خیال آیا کہ اس احسن قدم کو سراہا جانا چاہیے ۔ یہ ٹھیک ہے راقم الحروف کو ن لیگ کا طرز سیاست پسند ہے نہ طرز حکمرانی مگر ۔۔۔ اچھے کام کی تحسین نہ کرنا بھی تو پرلے درجے کی بدذوقی ہے۔
حکومت کی طرف سے تو کام مکمل ہے اب عوام کو فرض ہے کہ وہ کوڑا ، کوڑے دانوں میں پھینکیں یا کم از کم پلاسٹک کے تھیلوں میں جمع کر کے رکھیں اور عملے کے آنے پر ان کے حوالے کریں ۔
یہ روش اب ترک ہو جانے چاہیے کہ صفائی کرنے کے بعد سارا گند بڑی صفائی سے کسی دوسرے کے گھر کے آگے ڈال دیا جائے ۔ گھر صاف کیا جائے اور سارا پانی گلی میں بہا دیا جائے۔
اگر عزم ہو تو کوئی کام مشکل نہیں اور اس منصوبے میں شامل افراد نے احسن انداز سے یہ ثابت کیا ہے، ویل ڈن !!!
صفائی سے متعلق شکایات کے اندراج کا طریقہ کار اب آسان
ویب پورٹل پر اکائونٹ بنائیں اور تصویر اپ لوڈ کریں
ٔٔ suthra.punjab.gov.pk
یا
1139پر کال کریں

جواب دیں

Back to top button