Column

ہمارے عزائم واضع نہیں

ہمارے عزائم واضع نہیں
تحریر : سیدہ عنبرین
کہتے ہیں کھیل کود کی ایک عمر ہوتی ہے لیکن دیکھا گیا ہے اس عمر میں کھیل کود کا کوئی وقت مقرر نہیں ہوتا، پالنے میں پڑے رہنے والا رات گئے بیدار ہو کر کھیلنا شروع کر دیتا ہے، اس کا جی چاہے اور نیند پوری ہو جائے تو وہ آذان کے ساتھ ہی بیدار ہو جاتا ہے اور کھیلنے لگتا ہے، وہ روتا صرف دو صورتوں میں ہے، اسے بھوک لگی یا اس کی طبیعت خراب ہو، وہ گیلا ہو رہا ہے اور ماں توجہ نہ دے پائے تو بھی وہ رو کر اسے متوجہ کرتا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس کی عادت اور مشاغل بدلتے رہتے ہیں، بلوغت کی عمر آجاتی ہے تو ہر طرف سے ایک آواز سنائی دیتی ہے اور قدم قدم پر اس کا پیچھا کرتی ہے، تم اب بڑے ہو چکے ہو، تمہارے کھیلنے کودنے کے دن نہیں، اپنی ذمہ داریوں کو محسوس کرو، کچھ لوگ ان آوازوں پر کان دھرتے ہیں اور زندگی کے امور کے بارے میں سنجیدہ رویہ اختیار کرتے ہیں، کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو اس طرح کی باتیں ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال باہر کرتے ہیں، انہیں لمحوں کیلئے بھی اپنا مہمان بنانے کی تکلیف گوارا نہیں کرتے، نتیجتاً ایسے لوگ زندگی بھر تکالیف میں مبتلا رہتے ہیں۔
78برس کچھ کم عمر نہیں ہوتی، اس عمر کے شخص کو بوڑھا آدمی کہا جاتا ہے، اتنے برس میں انسان کچھ سیکھتا ہے، اچھی اور مفید باتیں پلے باندھتا ہے، ضرر رساں معاملات سے دوری اختیار کرتا ہے، لیکن اس عمر میں اگر کسی نے کچھ نہیں سیکھا تو وہ 78سالہ پاکستان ہے، اس کے طور طریقے بچگانہ ہیں، لگتا ہے جیسے ابھی اس کے کھیلنے کودنے کے دن ہیں، پس میلے ٹھیلے اور کھیل کود آپ کو ہر طرف نظر آئے گا، ہم نے اپنے تلخ ترین تجربات سے صرف ایک سبق سیکھا ہے کہ ہم نے کوئی سبق نہیں سیکھنا، کھیل کود کا شوق اس حد کو چھو رہا ہے کہ ملک حالت جنگ میں ہو تو جب بھی کھیل کود جاری رہتی ہے۔
بھارت کی طرف سے جنگ کی دھمکی برقرار ہے، وہ ہمیں ہر روز یاد دہانی بھی کراتا رہتا ہے، یہ اس کی مہربانی ہے، ورنہ ہم تو ملک کا دو لخت ہونا بھی بھول بیٹھے ہیں، سانحے تو صدیوں نہیں بھلائے جاتے، ہم نے اسے بھلا دیا ہے تو پہلے یہ سمجھنا ہے کہ یہ سانحہ نہیں تھا۔
اعلیٰ ترین سطح پر ایک سے زائد مرتبہ باور کرایا جا چکا ہے کہ ہم نے 1971ء کا بدلہ لے لیا ہے، گویا ہمارے زخم بھر چکے ہیں، ہمارے دلوں میں اب کوئی کدورت نہیں، ہماری طرف سے دل صاف کیا جائے، اس کا دوسرا مطلب ہے آئیے! مل جل کر بھنگڑے ڈالیں، کھیل کودیں، موج اڑائیں۔ اہم سوال ہے کیا بھارت میں بھی یہی سوچ ہے، کیا بھارتی حکومت اور اس کی افواج بھی یہی سوچ رہی ہیں، تو اس کا جواب سیدھا سادہ ہے، یقیناً ایسا نہیں ہے۔ بھارت میں جنگ کی تیاری ہے، اسے صرف بہار صوبے کا الیکشن جیتنے کا بہانہ کہہ کر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، سوشل میڈیا پر چلنے والے عام بھارتیوں کے انٹرویو، بھارتی صحافیوں اور دانشوروں کی گفتگو، بھارتی وزیر اعظم اور وزراء کے بیانات میں کوئی بات ڈھکی چھپی نہیں ہے، دو ٹوک الفاظ میں اس بات کا اظہار کر رہے ہیں جو ان کے دل میں ہے، ان کے دل کی بات ہے یہ کہ وہ اپنی شرمناک شکست پر تلملا رہے ہیں اور اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھیں گے جب تک کسی نہ کسی انداز میں کچھ کم یا زیادہ حساب برابر نہیں کرتے۔
بھارت کی اس سوچ کے مقابل ہمارا طرز عمل کیا ہونا چاہئے، یہ بات کسی بچے سے بھی پوچھیں تو اس کا جواب ہوگا بھارتی عزائم سے باخبر رہیں، اپنی تیاری پوری رکھیں اور بھارت کو کوئی موقع نہ دیں۔
پاکستان میں پی ایس ایل کرکٹ میلہ ختم ہوا، بھارت میں آئی پی ایل بھی قریب الختم ہے، لیکن ہم نے ایک نئے کرکٹ میلے کی منصوبہ بندی کر لی ہے، اس کا اعلان بھی ہو چکا ہے۔
بنگلہ دیش کی کرکٹ ٹیم بہت جلد پاکستان کے دورے پر آرہی ہے، اس دورے کیلئے وقت موزوں ہے یا نہیں، اس کا اندازہ دو باتوں سے کیا جا سکتا ہے۔ اول ہم نے بھارت سے تعلق رکھنے والی ایئر لائنز کے طیاروں کے پاکستان کی فضائی حدود میں گزرنے پر پابندی لگا رکھی تھی، ہم نے اس میں اضافہ کر دیا ہے، جبکہ بنگلہ دیش کرکٹ ٹیم اور اس کے دورے کے دوران میچوں کی سکیورٹی انتظامات کے حوالے سے صرف پولیس پر انحصار کو ناکافی سمجھتے ہوئے دیگر اداروں کو بھی ذمہ داریاں سونپی گئی ہیں، دونوں اقدامات سے اس بات کی تصدیق ہوئی ہے کہ کھیل کود، کھیل تماشوں کا وقت نہیں ہے، اس کے لیے حالات ابھی ساز گار نہیں ہیں۔
موجودہ حالات میں بنگلہ دیش کی کرکٹ ٹیم کا دورہ اس سے قبل کے دوروں کی نسبت زیادہ حساس معاملہ ہے، سری لنکن ٹیم پر دہشتگردی حملے کو دہائی بیت گئی، ہمارے یہاں سکیورٹی پیٹرن اب بھی وہی ہے، ہم اس طویل عرصہ میں اپنے سٹیڈیم کے ساتھ ایک ایسی فائیو سٹار رہائش، ہوٹل، موٹل تعمیر نہیں کر سکے، جہاں غیر ملکی کھلاڑی اور ان کے آفیشل قیام کر سکیں، وہ ماضی کی طرح فائیو سٹار ہوٹلز میں ٹھہرائے جائینگے، انہیں بذریعہ سٹرک ہی سٹیڈیم لایا جائیگا اور واپس ہوٹل پہنچایا جائیگا، ہم با آسانی اور کم خرچ انداز میں سٹیڈیم کے کمپائونڈ میں ہیلی پیڈ بنا سکتے تھے، ہم نے وہ بھی نہ کیا، کرکٹ ٹیموں کے سٹیڈیم لانے اور لے جانے سے قبل دو، دو گھنٹے ٹریفک بند کرنا ہمیں سہل لگتا ہے، ہزاروں کی نفری اور اس پر اٹھنے والے اخراجات ہمارے من کو بھاتے ہیں، لیکن درپیش خطرات کا احساس نہیں ہوتا۔
بنگلہ دیش میں حسینہ شیخ کی حکومت کا تختہ الٹ گیا، جو بھارت کو ایک آنکھ نہیں بھایا، بھارت میں اس حوالے سے پاکستان پر الزام دیا جاتا ہے، کوئی یہ نہیں دیکھتا حسینہ حکومت نے گزشتہ برسوں کے طویل اقتدار میں بنگلہ دیش کو کس بے دردی سے لوٹا، نئی نسل پر ملازمتوں کے دروازے بند رہے، ایک خاص جماعت کے کرتا دھرتا اور ان کے اہل خاندان کیلئے وسائل اور خزانوں کے منہ ہمیشہ کھلے رہے۔ انقلاب بنگلہ دیش کے بعد نوجوان بنگالی نسل نے اپنے بڑوں کی غلطیوں پر کھل کر تنقید کی، بنگلہ دیش کو بھارت کا بغل بچہ بنانے کے اقدام کی مذمت کی اور پاکستان کی طرف محبت کا ہاتھ بڑھایا، تازہ ترین اطلاعات کے مطابق بنگلہ دیش کے شکست خوردہ عناصر بھارت کے ساتھ مل کر جوابی انقلاب کی تیاریاں کر رہے ہیں۔ بنگلہ دیش کو پاکستان سے دور کرنے کیلئے بنگلہ دیش کرکٹ ٹیم کو ٹارگٹ کیا جاسکتا ہے، دشمن کے عزائم واضع ہیں، ہمارے عزائم واضع نہیں۔ افواج پاکستان نے تو اپنے عزائم واضع کر دئیے ہیں۔

جواب دیں

Back to top button