گلی

گلی
تحریر : علیشبا بگٹی
کرشن چندر نے لکھا کہ کل میں انسان کی عظمت پر کچھ لکھ رہا تھا۔ کہ اچانک محلے میں بہت شور اور اونچی اونچی آوازیں سنائی دینے لگیں۔ باہر نکل کر دیکھا تو آدمی، آدمی پر بھونک رہا تھا، ساتھ ہی گیلی مٹی پر کچھ کتے میٹھی نیند سوئے ہوئے تھے۔
واقعی جہاں جہالت ہو۔ سوچ چھوٹی ہو۔ بے اتفاقی ہو، تو اس گلی میں یہی ہوتا ہے۔ پہلے لوگ سادہ تھے مگر سفید داڑھی کی قدر کرتے تھے۔ عزیز رشتے دار غریب کمزور پڑوسی کا خیال کرتے تھے۔ مگر اب لوگ سفید داڑھی کو بوڑھا خیال کر کے اُس پر لڑنے کو چڑھ دوڑتے ہیں۔ اب اسکول کالج یونیورسٹی سے اکثریت سند یافتہ جاہل ایسے نکل کے آرہے ہیں جیسے دھکاوا اور منافقت کی ڈگری لے کر آرہے ہیں۔ بات کبھی بھی راستے یا گلی کی نہیں ہوتی۔ بغض ضد انا اور غصہ کی ہوتی ہے، جو کمزور پر 24؍7گھنٹے ہوتی ہے۔ اگر سوچ اور دل بڑے ہوں تو لڑائی کی بجائے گلی بھی 2فٹ بڑے ہو سکتے ہیں۔
اسلام میں پڑوسی، رشتہ داروں ، غریبوں ، اور کمزوروں کے حقوق کو بہت اہمیت دی گئی ہے۔ قرآن و حدیث میں بارہا پڑوسی ، رشتے داروں ، غریبوں ، اور کمزوروں کے ساتھ حسنِ سلوک کا حکم دیا گیا ہے۔
بخاری و مسلم میں درج ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ جبرائیلٌ مجھے مسلسل پڑوسی کے بارے میں نصیحت کرتے رہے، یہاں تک کہ مجھے گمان ہوا کہ وہ اسے وارث قرار دے دیں گے‘‘ ۔
اسلام میں پڑوسی کو کسی بھی قسم کی جسمانی، ذہنی یا معاشرتی تکلیف دینا حرام ہے۔
مسند احمد میں درج حدیث ہے کہ ’’ وہ شخص مومن نہیں جو خود تو سیر ہو اور اس کا پڑوسی بھوکا ہو‘‘۔
پڑوسی کی عزت کا خیال کرنا چاہیے۔ اگر پڑوسی کسی مشکل میں ہو، بیمار ہو یا محتاج ہو تو اُس کی مدد کرنا مسلمان کا فرض ہے۔ پڑوسی سے سلام و دعا رکھنا، خوشی و غمی میں شریک ہونا، اور اگر کچھ کھانے کو بنے تو تھوڑا اس کے ساتھ بھی بانٹنا پسندیدہ عمل ہے۔ اسلام میں لڑائی جھگڑا اور بدسلوکی سے منع کیا گیا ہے، خاص طور پر پڑوسی کے ساتھ۔
اسلام صلہ رحمی کو بہت عظیم نیکی قرار دیتا ہے۔
قرآن پاک کی سورۃ النساء آیت 36میں حکم دیا گیا ہے کہ ’’ اور رشتہ داروں کے ساتھ احسان کرو‘‘۔
صحیح بُخاری میں درج حدیث ہے کہ ’’ جو شخص چاہے کہ اس کا رزق کشادہ کیا جائے اور عمر دراز کی جائے، اسے چاہیے کہ صلہ رحمی کرے‘‘۔
اگر کوئی رشتہ دار مالی طور پر کمزور ہو تو اس کی مدد کرنا فرض کے درجے میں آتا ہے۔ رشتہ داروں کے ساتھ خوش اخلاقی، نرم گفتگو، اور حسنِ سلوک اسلامی تعلیمات کا حصہ ہے۔ رشتہ داروں کے لیے دعا کرنا، ان کی مغفرت کی دعا کرنا، اور ان کے لیے خیر مانگنا بھی ایک اہم حق ہے۔ رشتہ داروں کی خوشیوں میں شریک ہونا، ان کے دکھ درد میں ان کے ساتھ کھڑا ہونا، اور ان کی مدد کرنا مسلمان کے اخلاق کا حصہ ہے۔ اسلام میں رشتہ داروں سے قطع تعلقی سخت گناہ ہے۔
صحیح بخاری میں درج حدیث ہے کہ ’’ رشتہ توڑنے والا جنت میں داخل نہیں ہوگا‘‘۔
اسلام نے غریبوں کی مدد کی بھرپور ترغیب دی ہے۔ اسلام میں غریبوں کے ساتھ نرم مزاجی، عزت و احترام اور مساوات کے ساتھ پیش آنے کا حکم ہے۔
اسلام نے کمزوروں کو حقارت سے دیکھنے سے منع کیا ہے۔
بخاری میں درج حدیث ہے کہ ’’ تمہیں کمزوروں کی بدولت روزی اور مدد دی جاتی ہے‘‘۔
اسلام میں کسی کمزور پر ظلم کرنا یا اس کا حق دبانا سخت گناہ ہے۔
قرآن کی سورۃ ہود آیت 113میں حکم ربانی ہے کہ ’’ ظالموں کی مدد نہ کرو ‘‘۔
کمزور افراد کی مالی مدد، علاج، تعلیم، رہائش اور خوراک کا بندوبست کرنا صدقہ جاریہ ہے۔ اسلامی عدالت یا نظامِ حکومت میں کمزور اور طاقتور کے لیے ایک جیسا انصاف ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ” تم سے پہلی قومیں اس لیے تباہ ہوئیں کہ وہ کمزور پر حد قائم کرتے تھے اور طاقتور کو چھوڑ دیتے تھے۔ اسلام میں کمزور طبقات کو مسجد یا کہیں بھی آنے جانے کے برابر حقوق حاصل ہیں۔ کمزور طبقے کے لیے طاقتور طبقے کا فرض ہے کہ وہ ان کی ضروریات پوری کرے، انکی مدد کرے اور انکو تحفظ فراہم کرے۔
علیشبا بگٹی





