Column

فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کا باوقار سفر

فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کا باوقار سفر
تحریر: یاسر دانیا ل صابری
وہ ایک خاموش، پرعزم اور باوقار نوجوان تھا، جو منگلا کے آفیسرز ٹریننگ سکول میں وردی پہن کر آیا تو اس کی آنکھوں میں دنیا فتح کرنے کا خواب نہیں، بلکہ اپنے وطن کی مٹی کے قرض اتارنے کی جستجو تھی۔ وہ دوسروں کی طرح نعرے لگا کر اپنی محبت کا ثبوت نہیں دیتا تھا، وہ خاموشی سے اپنا فرض نبھانے پر یقین رکھتا تھا۔ تربیت مکمل ہونے پر جب اسے اعزازی شمشیر دی گئی، تو یہ اعزاز اس کے ہاتھ میں نہیں، اس کے کردار کی گواہی بن کر اس کے ماتھے پر لکھ دیا گیا۔
آج وہی خاموش نوجوان پاکستان کی تاریخ میں ایک نئے باب کے طور پر رقم ہو چکا ہے۔ فیلڈ مارشل سید عاصم منیر۔ یہ محض ایک نام نہیں، بلکہ ایک کردار کی گواہی ہے، ایک راستے کی علامت ہے، اور ایک ایسے نظام کی امید ہے جو اہلیت، دیانت، اور خاموش وفا کو پہچانتا ہے۔
سید عاصم منیر کی فوجی زندگی کا سفر وہ کہانی ہے جسے آج کے نوجوانوں کو سنانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے فرنٹیئر فورس رجمنٹ سے کمیشن حاصل کیا، لیکن وہ رجمنٹ سے زیادہ نظریہ تھے۔ حافظ قرآن ہونے کی روحانی طاقت، سادہ مزاجی کی جاذبیت، اور نظم و ضبط کی فطری ساخت نے انہیں ایک غیر معمولی شخصیت بنایا۔ 2014ء میں انہوں نے شمالی علاقہ جات میں فورس کمانڈ کی، جہاں وہ صرف ایک کمانڈر نہیں، بلکہ ایک خاموش سپاہی بن کر اپنے جوانوں کے ساتھ کھڑے نظر آئے۔
2017ء میں جب انہیں ڈی جی ایم آئی کا منصب دیا گیا، تو ان کے فیصلوں میں شفافیت، اور خاموشی میں حکمت بولتی رہی۔ اکتوبر 2018ء میں لیفٹیننٹ جنرل بننے کے بعد جب وہ ڈی جی آئی ایس آئی بنے، تو قوم کو پہلی بار ایک ایسا سربراہ ملا جس نے بغیر کسی میڈیا مہم یا سیاسی بیانیے کے اپنی ساکھ بنائی۔ وہ کردار کا وہ سفیر تھا جسے وقت نے آزمائشوں کی بھٹی میں تپایا اور وفا کا نشان بنایا۔
جون 2019ء میں کور کمانڈر گوجرانوالہ کی حیثیت سے انہوں نے وہ فیصلہ کن وقت گزارا، جب ملکی حالات حساس موڑ پر تھے۔ لیکن انہوں نے جذبات سے نہیں، ادارے کی روشنی میں فیصلے کیے۔ اکتوبر 2021ء سے کوارٹر ماسٹر جنرل کے طور پر ان کی خدمات نے ظاہر کیا کہ وہ صرف محاذ کا سپاہی نہیں بلکہ نظام کا معمار بھی ہے۔
اور پھر 29نومبر 2022ء ۔ ایک ایسا دن جب سادگی، دیانت اور اہلیت کو پہچان لیا گیا۔ وزیراعظم کی جانب سے آرمی چیف کی تقرری، صدر کی توثیق، اور قوم کی دعا کے ساتھ جب جنرل قمر جاوید باجوہ سے کمانڈ لی تو ان کی آنکھوں میں کوئی فخر یا غرور نہ تھا، صرف فرض کا شعور تھا۔ انہوں نے کمان لی، لیکن دعویٰ نہ کیا۔ وہ قدم آگے بڑھا، لیکن نعرہ نہ لگایا۔ کیونکہ اصل لیڈر وہی ہوتا ہے جو خاموشی سے قافلے کی راہ بناتا ہے۔
اور 20مئی 2025ء کو جب وفاقی کابینہ نے انہیں فیلڈ مارشل کے عہدے پر ترقی دی، تو یہ ترقی محض رینک کی نہیں، کردار کی تھی۔ پاکستان کی تاریخ میں بہت کم لوگ ایسے ہیں جنہیں یہ اعزاز ملا ہو۔ اور ان میں بھی شاید ہی کوئی ایسا ہو جس نے یہ درجہ اپنے عملی دورِ سروس میں حاصل کیا ہو۔ یہ اعلان تھا کہ پاکستان اب صرف طاقت کے ہاتھ میں نہیں، کردار کے ہاتھ میں ہے۔ اب لیڈرشپ اس کے پاس ہے جو زمین پر رہ کر آسمان سے بات کرتا ہے، جو دنیا سے نہیں، ضمیر سے جیتا ہے۔ فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کی قیادت میں پاکستان کی عسکری حکمت عملی ایک نئی ڈگر پر گامزن ہوئی۔ وہ میڈیا سے دور، مگر قوم کے قریب رہے۔ ان کے اقدامات میں شور نہیں، شعور تھا۔
وہ ادارے کی خودمختاری کے محافظ بنے، سیاست سے ماورا رہ کر صرف آئین، قانون اور ریاست کے استحکام کے لیے سرگرم رہے۔
یہ ترقی ان نوجوانوں کے لیے بھی ایک پیغام ہے جو شارٹ کٹ کی تلاش میں ہیں۔ کہ اصل ترقی وہ ہوتی ہے جو وقت کے ساتھ آتی ہے، جو کردار سے جڑی ہو، اور جو قوم کی دعا سے حاصل ہو۔ فیلڈ مارشل عاصم منیر نے ہمیں یہ سکھایا کہ اگر آپ اللہ پر بھروسہ رکھیں، اپنی نیت صاف رکھیں، اور دل میں وطن کی محبت بسائے رکھیں، تو منزل آپ کے قدم چومتی ہے۔
آج جب ہم انہیں مبارکباد دیتے ہیں تو یہ صرف رسمی جملے نہیں، بلکہ ان ہزاروں سپاہیوں، افسروں اور شہیدوں کی نمائندگی ہے جنہوں نے اپنے خون سے وطن کی مٹی کو سینچا۔ عاصم منیر اس سلسلے کی وہ روشن کڑی ہیں جنہوں نے شہداء کے لہو کو عزت بخشی، اور ادارے کو وقار دیا۔
قوموں کی تاریخ میں کبھی کبھی ایسے لمحے آتے ہیں جب وہ خود اپنی طرف دیکھ کر فخر کرتی ہیں۔ آج پاکستان وہ لمحہ جیت چکا ہے۔ منگلا کا طالب علم، جو سادگی سے وردی پہن کر داخل ہوا تھا، آج فیلڈ مارشل بن کر پوری قوم کے سینے پر تمغہ افتخار بن چکا ہے۔
فیلڈ مارشل صاحب، سلام آپ پر۔ کیونکہ آپ نے ہمیں سکھایا کہ خاموشی بھی بولتی ہے، بشرطیکہ وہ وفا، اصول اور کردار کی زبان ہو۔
یاسر دانیال صابری

جواب دیں

Back to top button