Column

پاکستانی بلاول اور بھارتی ششی تھرور

پاکستانی بلاول اور بھارتی ششی تھرور
تحریر : روشن لعل

پانچ روزہ ، پاک بھارت جنگ ،بھارت کے پاکستان کو تباہ و برباد کرنے کے دعووں کے ملیا میٹ ہونے پر ختم ہوئی لیکن اس جنگ سے پہلے دونوں ملکوں کے درمیان پہلگام واقعہ پر ایک دوسرے کا موقف غلط ثابت کرنے کا جو مقابلہ شروع ہوا، وہ جنگ کے بعد میڈیا کی سرحدوںسے آگے بڑھ کر سفارتی محاذ تک جا پہنچا ہے۔بیرونی دنیا کو اپنے موقف کی تائید پر مائل کرنے کے لیے بھارت نے اگر سابقہ ڈپلومیٹ اور موجودہ سیاست دان ششی تھرور کی قیادت میں سفارتی کمیٹی بنائی تو پاکستان نے بھارتی موقف کے ارتداد کے لیے بلاول بھٹو زرداری کی سرکردگی میں سفارتی کمیٹی کا اعلان کر دیا۔ پاکستان اور بھارت کی طرف سے جنگ کے حوالے سے پیش کیے گئے اپنے اپنے موقف کی وضاحت کے لیے بنائی گئی سفارتی کمیٹیوں کے اعلان کے بعد دانشوروں کی بحث کا مرکز ،یہ نکتہ ہونا چاہیے تھا کہ پہلگام کا جو واقعہ جنگ کی بنیاد بنا اس پر دونوں ملکوں نے جو کچھ کہا اس میں سے کس کا موقف صائب یا غیر صائب تھا۔ ایسا کچھ کرنے کی بجائے بھارت کے جنگی جنون میں مبتلا میڈیا پرسنزنے یہ کہنا شروع کر دیا کہ اقوام متحدہ میں ڈپلومیٹ رہ چکے، کئی کتابوں کے مصنف، اور عملی سیاست کا وسیع تجربہ رکھنے والے ششی تھرور سے سفارتی محاذ پر بلاول کیا مقابلہ کرے گا ۔بھارت کے جنگی جنونی، ششی تھرو اور بلاول کا موازنہ کرتے ہوئے جو کچھ کہہ رہے ہیں اس کا لب لباب یہ ہے کہ ششی تھرو اپنے تجربے کی بنیاد پر بلاول کو چاروں خانے چت کر دے گا۔ عجیب بات ہے کہ پاکستان کے کچھ فیس بکی دانشوروں نے بھی وہی راگ الاپنا شروع کر دیا ہے جو بھارت کے میڈیا جنونی ششی تھروراور بلاول کا بلاوجہ موازنہ کرتے ہوئے گا رہے ہیں۔ یہ پاکستانی فیس بکی دانشور ،بھارتی جنونیوں کی ہم نوائی کرتے ہوئے بلاول کا کسی سے موازنہ کرنے کا کام پہلے بھی کر چکے ہیں۔ قبل ازیں ایک دوسرے کے ہم نوا پاکستانیوں اور بھارتیوں نے بلاول کا موازنہ بھارت کے وزیر خارجہ جے شنکر سے کرنے کی کوشش کی تھی۔ اپنے امریکی دورے کے دوران بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر نے وہاں موجود اس وقت کے پاکستانی وزیر خارجہ بلاول کو دہشت گردوں کا ترجمان قراردیا تھا۔ جے شنکر کے اس بیان کے جواب میں بلاول نے اسے یہ یاد دلایاتھا کہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کو اس کے اپنے ملک میں گجرات کا قصائی قرار دیا گیا تھا اور گجرات کے قصائی کا خطاب ملنے کے بعد امریکہ نے اس کی اپنے ملک آمد پر پابندی عائد کر دی تھی۔ بلاول کے جے شنکر کو دیئے گئے جواب پر تبصرہ کرتے ہوئے بھارت کے گودی میڈیا نے یہ پراپیگنڈا کیاکہ نوجوان پاکستانی وزیر خارجہ نے اپنی ناتجربہ کاری کی وجہ سے بھارت کے منتخب وزیر اعظم کے متعلق بیان دیتے وقت سفارتی آداب کو بری طرح سے نظر انداز کیا۔ گودی میڈیا کی بلاول کے متعلق کہی گئی مذکورہ باتوں کو پاکستان کے کچھ فیس بکی دانشوروں نے فرض کفایہ سمجھ کر پھیلاتے ہوئے اپنی طرف سے یہ اضافہ کر دیا کہ جذباتی بلاول کا اس بھارتی وزیر خارجہ سے کیا مقابلہ جس کا محکمہ خارجہ کا تجربہ بلاول کی عمر سے سے کہیں زیادہ ہے۔ بلاول کے متعلق یہ فتوے جاری کرتے وقت کسی نے اس بات پر تبصرہ کرنے کا حوصلہ نہ کیا کہ اس نے مودی کے متعلق جو کچھ کہا اسے کسی طرح بھی غلط بیانی قرار نہیں دیا جاسکتا۔
اس کے بعد بلاول کا جے شنکر سے سامنا اس وقت ہوا جب وہ پاکستان کے وزیر خارجہ کی حیثیت سے شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں شرکت کے لیے بھارت کے شہر گوا گئے ۔ یہاں بھی اجلاس کے میزبان جے شنکر کا مہمان بلاول کے ساتھ رویہ ہتک آمیز تھا۔ گوا میں بھی بلاول نے جے شنکر کو اسی زبان میں جواب دیا جو زبان اس نے پاکستان اور بلاول کے لیے استعمال کی۔ حیرت کی بات ہے کہ جن پاکستانیوں نے قبل ازیں بھارتیوں کا ہم زبان بن کر بلاول کے رد عمل کو ہدف تنقید بنایا تھا انہوں نے اس مرتبہ بھی بھارتیوں کا ہم نوا بن کر بلاول کے متعلق یہ فتویٰ جاری کیا کہ وہ وزیر خارجہ جیسے عہدہ کی ذمہ داریاں نبھانے کا اہل نہیں ہی۔ ایسے متعصبانہ فتووں کے برعکس بلاول کی کارکردگی یہ رہی کہ اس نے پاکستان کو فیٹف کی گرے لسٹ سے باہر نکلوانے کے لیے بیرونی دنیا کے سامنے کامیابی سے اپنے ملک کا تبدیل شدہ چہرہ پیش کیا ۔ جب ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے پاکستان میں تباہ کن بارشیں برسیں تو بلاول نے عالمی سطح پر یہ موقف منوایا کہ پاکستان میں تباہی کے ذمہ دار صنعتی طور پر ترقی یافتہ وہ ملک ہیں جو صدیوں سے فضا میں خطرناک گیسوں کا اخراج کر کے ماحول کی تباہی کا باعث بن رہے ہیں۔ بحیثیت وزیر خارجہ ، بلاول کی سفارت کاری کے نتیجہ میں اقوام متحدہ کے تحت ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے تباہی کا شکار ہونے والے پاکستان جیسے ملکوں کی امداد کے لیے خصوصی فنڈ قائم کیا گیا۔ بلاول کے مقابلے میں تجربہ کار جے شنکر کی کارکردگی یہ رہی کہ بھارت میں 2023کے دوران شنگھائی تعاون تنظیم اور جی 20کی جو کانفرنسیں منعقد ہوئیں انہیں ان دونوں تنظیموں کی تاریخ کی ناکام ترین کانفرنسیں قرار دیا گیا کیونکہ جے شنکر کی قیادت میں بھارتی وزارت خارجہ ان کانفرنسوں کو کامیاب بنانے کے لیے ٹھوس منصوبہ بندی نہیں کر سکی تھی۔
قبل ازیں ، جو لوگ بلاول کا جے شنکر کے ساتھ موازنہ کرتے ہوئے اسے ناتجربہ کار قرار دیتے رہے اب ان لوگوں نے ششی تھرور کے ساتھ اس کا مقابلہ کرتے ہوئے بلاول کے لیے اپنا پرانا موقف دہرانا شروع کردیا ہے۔ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ جنگ اور پہلگام واقعہ کے حوالے سے دنیا کے سامنے بھارت کی صفائی پیش کرتے وقت ششی تھرور کی اخلاقی حیثیت بلاول کے مقابلے میں کمزور اور کم تر ہوگی ۔ اپنے ملک کا موقف دنیا کے سامنے پیش کرتے وقت ششی تھرور جوکام کر رہا ہوگا اس کی دعوت، پہلگام واقعہ کے فوراً بعد پاکستان نے بھارت کودی تھی مگر مودی سرکار نے یہ دعوت بری طرح رد کر کے جنگ شروع کرنے کو ترجیح دی ۔پہلگام واقعہ کے دس منٹ بعد بھارت نے اس دہشت گردی کا الزام پاکستان پر عائد کرنے کے ساتھ ہی اسے تباہ و برباد کرنے کا عندیہ بھی د یا تھا۔ پاکستان نے مودی سرکارکا پہلگام دہشت گردی میں ملوث ہونے کا الزام رد کرتے ہوئے یہ جواب دیا تھا کہ جنگ کی بجائے بہتر یہ ہے کہ کچھ ملکوں یا کسی عالمی ادارے کو ثالث مقرر کرکے اس کے سامنے ثبوتوں کے ساتھ اپنا موقف پیش کر کے اسے یہ فیصلہ کرنے کا موقع دیا جائے کہ کون صحیح اور کون غلط ہے ۔ مودی سرکار نے پاکستان کی دعوت رد کرنے کے بعد جنگ شروع کر کے جو سبکی اٹھائی وہ دنیا کے سامنے ہے۔ یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ مودی سرکار کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے بھارت کو جو سبکی ہوئی ششی تھرور اس کا ازالہ کیسے کر سکے گا۔ جو لوگ اس وقت ششی تھرور اور بلاول کاموازنہ کرنے کی فضول کوشش کر رہے ہیں انہیں صرف اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ جنگ کے حوالے سے ششی تھرور دنیا کے سامنی بھارت کا کون سا منہ لے کر جائے گا۔

جواب دیں

Back to top button