Column

جمشید دستی کا معکوس سمت میں تعلیمی سفر

جمشید دستی کا معکوس سمت میں تعلیمی سفر
تحریر : رفیع صحرائی
تعلیم ہر مسلمان مرد اور عورت پرفرض ہے۔ یہ ایسا فرض ہے جس کی ادائیگی گود سے گور تک جاری رکھنے کا حکم پیارے آقا ٔ نے دیا ہے۔ اگر حالات کی ستم ظریفی کا شکار کوئی شخص اوائل عمری میں زیورِ تعلیم سے آراستہ نہیں ہو سکا تو کیا ہوا۔ وہ جوانی، ادھیڑ عمری یا بڑھاپے میں بھی اس فرض کی ادائیگی کر سکتا ہے۔ ہمارے ہاں کافی عرصہ پہلے تعلیمِ بالغاں اور پھر نئی روشنی کے نام سے بالغوں کو تعلیم یافتہ بنانے کے پراجیکٹ شروع کیے گئے تھے جو اپنے ٹارگٹس کو حاصل کیے بغیر بند کر دیئے گئے۔ غیرملکی فنڈنگ سے چلنے والے ہر پراجیکٹ کا یہی حال ہوا کرتا ہے۔
پرویز مشرف نے جب عام انتخابات میں حصہ لینے کے لیے بی اے کی شرط رکھی تو بہت سے نامی گرامی سیاست دان الیکشن لڑنے کے اہل نہ رہے تھے۔ انہوں نے مجبوراً اپنی اگلی نسل کو یا کسی عزیز رشتے دار کو الیکشن کے اکھاڑے میں اتارا۔ بہت سے سیاست دانوں نے تب جعلی ڈگریاں بنوا کر بھی الیکشن لڑا تھا۔ کچھ سیاست دان ایکسپوز بھی ہو گئے تھے۔ بعد میں ہونے والے عام انتخابات میں اہلیت کا معیار بی اے ختم کر دیا گیا۔
ہمارے مڈل کلاس طبقے سے تعلق رکھنے والے مظفر گڑھ کے مشہور سیاست دان جمشید دستی نے 2013ء کے عام انتخابات میں پیپلز پارٹی کے پلیٹ فارم سے حصہ لیا اور ایم این اے منتخب ہو گئے۔ وہ اپنے دبنگ لہجے اور مزاحمتی سیاست کی وجہ سے پورے ملک میں مشہور ہو گئے۔
جمشید دستی بدقسمتی سے اوائل عمری میں تعلیم مکمل نہیں کر سکے تھے۔ سیاست میں مقام بنا تو انہیں اپنی تعلیمی کم مائیگی کا احساس شدت سے ہونے لگا۔ ان کے ساتھی سیاست دانوں کی اکثریت اعلیٰ تعلیم یافتہ تھی۔ جمشید دستی نے دیر آید درست آید کے مقولے پر عمل کرتے ہوئے تعلیم مکمل کرنے کا سوچا۔ غالباً یہ سال 2017ء کی بات ہے جب انہوں نے اپنی تعلیمی کمی کو دور کرنے کے لیے سنجیدگی سے غور کیا۔ انہیں پتا تھا کہ اگلا سال 2018ء الیکشن کا سال ہے۔ ہو سکتا ہے ان کے دل میں یہ خیال آ گیا ہو کہ کہیں الیکشن کمیشن انتخابات میں حصہ لینے کے لیے ایک مرتبہ پھر بی اے کی شرط عائد نہ کر دے۔ یہ بھی ممکن ہے ان کے کسی بدخواہ نے یہ مشورہ دے دیا ہو کہ پہلے آپ بی اے کر لیں، ایف اے وغیرہ بعد میں ہو جائے گا۔ وجہ کچھ بھی ہو جمشید دستی نے فیصلہ کر لیا کہ ایف اے سے پہلے بی اے پاس کر لیا جائے۔ چنانچہ مبینہ طور پر انہوں نے اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور سے 19اگست 2017ء کو رول نمبر 23966 کے تحت بی اے کا امتحان 800میں سے 455نمبر حاصل کر کے پاس کر لیا۔ الیکشن کمیشن کو مہیا کیے گئے بی اے کے رزلٹ کارڈ کی فوٹو کاپی پر تصویر بھی جمشید دستی ہی کی واضح طور پر پہچانی جا سکتی ہے۔ بی اے کا داخلہ بھیجتے وقت جمشید دستی نے ایف اے کی سند یا رزلٹ کارڈ کی کاپی لگائی تھی یا نہیں، اس کے بارے میں یونیورسٹی کے شعبہ داخلہ کے ریکارڈ سے ہی پتا چل سکتا ہے۔
جمشید دستی نے 2017ء میں بی اے پاس کرنے کے بعد سوچا ہو گا کہ لگے ہاتھوں ایف اے پاس بھی کر لینا چاہیے۔ ممکن ہے سیاسی مصروفیات کی وجہ سے انہیں دیر ہو گئی ہو یا بورڈ کی شرط ہو کہ بی اے پاس کرنے کے بعد ایف اے کا امتحان دینے کے لیے دو تین سال کا وقفہ ضروری ہے۔ بہرحال جمشید دستی نے انٹرمیڈیٹ بورڈ کراچی سے 9نومبر 2020ء کو ایف اے کا امتحان رول نمبر 988607کے تحت 1100میں سے 427نمبر حاصل کر کے بطور پرائیویٹ امیدوار تھرڈ ڈویژن میں پاس کر لیا۔
گزشتہ روز جب الیکشن کمیشن میں ممبر سندھ نثار درانی نے جو تین رکنی بنچ کے سربراہ بھی ہیں جمشید دستی کے وکیل سے اس بابت پوچھا تو انہوں نے تصدیق کی کہ ان کے موکل نے بی اے کا امتحان 2017ء میں اور ایف اے کا امتحان 2020ء میں پاس کیا تھا۔ الیکشن کمیشن نے اب فیصلہ کیا ہے کہ کراچی بورڈ سے جمشید دستی کے میٹرک اور ایف اے کے رزلٹ کارڈ کی تصدیق کرائی جائے گی۔
جمشید دستی کے خلاف الیکشن کمیشن میں درخواست دہندہ امیر اکبر نے یہ الزام بھی عائد کیا ہے کہ ان کی میٹرک کی سند بھی جعلی ہے۔ اور وہ سند ڈی جی خان کی ہے۔ یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ جمشید دستی نے میٹرک کس سال میں پاس کیا تھا۔ کچھ بدخواہ افواہ اڑا رہے ہیں کہ انہوں نے 2022ء یا 2023ء میں میٹرک کیا ہو گا۔ بہرحال جمشید دستی کے خلاف الیکشن کمیشن میں درخواست دے کر تعلیم دشمنی کا ثبوت دیتے ہوئے دستی کی حوصلہ شکنی کی کوشش کی گءی ہے۔ تعلیم حاصل کرنا ان کا بنیادی حق ہے۔ اب یہ ان کی مرضی ہے کہ پرائمری سے مڈل، میٹرک، ایف اے اور پھر بی اے پاس کریں یا معکوس سمت میں سفر شروع کرتے ہوئے بی اے، ایف اے، میٹرک، مڈل اور پرائمری پاس کریں۔ ان کے معکوس تعلیمی سفر کو اس طرح سے روکنا تعلیم دشمنی ہے جس پر میں بھرپور احتجاج کرتا ہوں۔

جواب دیں

Back to top button