Column

دبنگ خاتون وزیر

دبنگ خاتون وزیر
تحریر : روہیل اکبر
پاکستان میں مرکز اور صوبائی حکومتوں میں وزیراطلاعات کا کردار بہت اہم ہے اور یہ ہمیشہ فرنٹ فٹ پر کھیلتے ہیں ان کی کمزوری حکومت کو کمزور کر سکتی جبکہ ان کی توانا اور بروقت آواز حکومت کو مستحکم اور مضبوط بناتی ہیں یہی وجہ ہے کہ وفاقی اور صوبائی وزراء اطلاعات کا کردار حکومتی پالیسیوں، اقدامات اور بیانیے کو عوام تک پہنچانے میں انتہائی اہم ہوتا ہے وزرا نہ صرف حکومت اور میڈیا کے درمیان پل کا کردار ادا کرتے ہیں بلکہ عوامی رائے عامہ کو ہموار کرنے اور بحرانی حالات میں صورتحال کو کنٹرول کرنے کی بھی ذمہ داری اٹھاتے ہیں پاکستان کے پیچیدہ سیاسی اور ابلاغی ماحول میں ان وزرائے اطلاعات کو کئی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ ہمارے میڈیا کا منظرنامہ اکثر سیاسی پولرائزیشن کا شکار رہتا ہے جہاں مختلف چینلز اور اخبارات اپنی اپنی سیاسی وابستگیوں کے مطابق خبروں کو پیش کرتے ہیں ایسے ماحول میں حکومتی بیانیے کو غیر جانبدارانہ طریقے سے پیش کرنا ایک مشکل کام ہے جبکہ سوشل میڈیا نے ابلاغ کو انتہائی تیز رفتار بنا دیا ہے جہاں غلط معلومات (fake news)اور پروپیگنڈا تیزی سے پھیلتا ہے ان حالات میں وزرائے اطلاعات کو اس چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے تیزی سے ردعمل دینا اور موثر حکمت عملی اپنانا پڑتی ہے اس کے ساتھ ساتھ عوام میں حکومتی دعوں پر اعتماد کا فقدان ایک اور بڑا چیلنج ہے اور وزرائے اطلاعات کو یہ اعتماد بحال کرنے کے لیے حقائق پر مبنی معلومات فراہم کرنی ہوتی ہے کبھی کبھی سیاسی، اقتصادی یا قدرتی آفات کے دوران بحرانی ابلاغ کی مہارت انتہائی ضروری ہوتی ہے ایسے وقت میں درست اور بروقت معلومات کی فراہمی صورتحال کو قابو میں رکھنے کے لیے کلیدی حیثیت رکھتی ہے صوبائی وزرائے اطلاعات کی کارکردگی پر بات کرنے سے پہلے وفاقی وزیر اطلاعات کا کردار دیکھتے ہیں کہ کیا ہے ملکی سطح پر حکومتی پالیسیوں کی تشہیر، بین الاقوامی میڈیا سے تعلقات اور قومی بیانیے کی تشکیل پر محیط ہوتا ہے موجودہ وفاقی وزیر اطلاعات عطاء اللہ تارڑ کو یہ ذمہ داری سونپی گئی ہے انہوں نے بحرانی معاشی صورتحال اور سیاسی عدم استحکام کے دوران حکومتی موقف کو اجاگر کرنے میں نمایاں کام کیا ہے وزیراعظم کے مختلف اقدامات جیسے آئی ایم ایف سے مذاکرات، سرمایہ کاری کے فروغ اور معاشی اصلاحات کو عوام تک پہنچانے میں فعال کردار ادا کیا ہے ان کی کوشش رہی ہے کہ میڈیا کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کیے جائیں تاکہ حکومتی نقطہ نظر کو زیادہ سے زیادہ کوریج مل سکے پریس کانفرنسز اور ٹاک شوز میں ان کی فعال شرکت اسی حکمت عملی کا حصہ ہے تاہم وفاقی سطح پر ابلاغی چیلنجز بھی کم نہیں ہیں معاشی دبا، سیاسی تنا اور عالمی منظرنامے پر ہونے والی تبدیلیوں کے درمیان مثبت بیانیہ قائم رکھنا ایک مسلسل جدوجہد ہے جس میں وہ بہت حد تک کامیاب رہے ہیں اگر ہم چاروں صوبائی وزرائے اطلاعات کی کارکردگی کا ذکر کریں تو عظمیٰ بخاری نے باقی تمام صوبوں سے ہٹ کر منفرد اور موثر کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے انہوں نے وزیراعلیٰ مریم نواز کے وعن کو عوام تک پہنچانے، حکومتی فلاحی منصوبوں کو اجاگر کرنے اور میڈیا کے ساتھ مثبت تعلقات استوار کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا ہے ان کی حاضر دماغی اور مدلل گفتگو نے انہیں پنجاب کے سیاسی منظرنامے میں ایک مضبوط ابلاغی چہرہ بنادیا ہے یہی وجہ ہے کہ وہ ملک کے باقی صوبوں کے وزرائے اطلاعات میں سے سب سے زیادہ مقبول ہیں کیونکہ سخت کشیدہ سیاسی ماحول میں شدید تنقید اور پروپیگنڈے کا سامنا کرتے ہوئے عظمیٰ بخاری نے ہمت نہیں ہاری عظمیٰ زاہد بخاری 18 اگست 1976ء کو فیصل آباد میں لاہور ہائی کورٹ کے سابق جسٹس سید زاہد حسین بخاری کے ہاں پیدا ہوئیں انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم شیخوپورہ سے حاصل کی اور پنجاب یونیورسٹی سے بیچلر آف آرٹس حاصل کیا 2001ء میں پاکستان کالج آف لاء سے وکالت کی ڈگری لی اور پھر بطور وکیل پریکٹس شروع کردی عظمیٰ بخاری کا سیاسی کیریئر کافی طویل اور تجربات سے بھرپور ہے وہ 2002ء سے پنجاب اسمبلی کی رکن رہی ہیں اور اس دوران مختلف پارلیمانی کمیٹیوں میں بھی فعال کردار ادا کرتی رہی ہیں 2009۔2011ء کے دوران وہ ثقافت و امور نوجوانان کی پارلیمانی سیکرٹری بھی رہیں ان کا تعلق ایک سیاسی گھرانے سے ہے ان کے والد لاہور ہائی کورٹ کے سابق جسٹس سید زاہد حسین بخاری تھے عظمیٰ بخاری وکالت کی ڈگری رکھنے کی وجہ سے وہ معاملات کو قانونی اور منطقی انداز میں پیش کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہیں یہ تجربہ انہیں موجودہ وزارت میں خاص طور پر عوامی بیانیہ تشکیل دینے اور مخالفین کے اعتراضات کا جواب دینے میں معاون ثابت ہو رہا ہے عظمیٰ بخاری کی وزارت اطلاعات پنجاب کا دور ان کی سیاسی ذہانت، حاضر دماغی اور انتظامی صلاحیتوں کا عکاس ہے انہوں نے نہ صرف موثر ابلاغ کے ذریعے حکومتی کارکردگی کو عوام تک پہنچایا ہے بلکہ مشکل سیاسی حالات میں بھی اپنی جماعت اور حکومت کا بھرپور دفاع کیا ہے عظمیٰ بخاری کی وزارت اطلاعات پنجاب کا دور ان کی بہترین سیاسی ذہانت، حاضر دماغی اور انتظامی صلاحیتوں کا عکاس ہے انہوں نے نہ صرف موثر ابلاغ کے ذریعے حکومتی کارکردگی کو عوام تک پہنچایا ہے بلکہ مشکل سیاسی حالات میں بھی اپنی جماعت اور حکومت کا بھرپور دفاع کیا ہے انہوں نے سوشل میڈیا پر چلائی جانے والی منفی مہمات اور ذاتی حملوں کا بھی سامنا کیا اور قانونی چارہ جوئی کا راستہ اختیار کیا یہ ان کی مضبوط شخصیت اور اپنے نظریات پر ثابت قدمی کا ثبوت ہے عظمیٰ بخاری کی وزارت کے دوران انہیں کئی چیلنجز کا سامنا رہا جن میں سیاسی مخالفین کی سخت تنقید اور سوشل میڈیا پر غلط معلومات کا پھیلا شامل ہیں تاہم انہوں نے ان چیلنجز کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور اپنی سیاسی حکمت عملی سے ان پر قابو پایا بطور وزیر اطلاعات ان کا کردار مستقبل میں بھی اہم رہے گا کیونکہ پنجاب میں حکومتی کارکردگی کو عوام تک پہنچانے اور میڈیا کے ساتھ مثبت تعلقات کو برقرار رکھنے میں ان کی صلاحیتیں بے حد کارآمد ثابت ہو سکتی ہیں اگر دیکھا جائے تو پنجاب کی وزارت اطلاعات ایک حساس اور اہم ذمہ داری ہے کیونکہ اسی وزارت کے ذریعے حکومت اپنی کارکردگی عوام تک پہنچاتی ہے اور میڈیا کے ساتھ تعلقات کو برقرار رکھتی ہے عظمیٰ بخاری نے اس چیلنج کونہ صرف قبول بلکہ بخوبی نبھایا بھی اور اپنی بہترین صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا عظمیٰ بخاری نے وزیر اطلاعات بننے کے بعد سب سے پہلے میڈیا کے نمائندوں کے ساتھ اپنے تعلقات کو مضبوط کیا وہ صحافیوں کے لیے اپنے دفتر کے دروازے ہمیشہ کھلے رکھتی ہیں اور ان کے ساتھ دوستانہ ماحول میں گفتگو کرتی ہیں ان کا یہ طرز عمل سابق تمام وزراء کے مقابلے میں ایک خوشگوار تبدیلی سمجھا جاتا ہے جہاں صحافیوں کی رسائی محدود ہوتی تھی اس سے حکومتی بیانیے کو موثر طریقے سے میڈیا کے ذریعے عوام تک پہنچانے میں مدد ملی ہے اور ان کے میڈیا کے ساتھ اچھے تعلقات کی وجہ سے ہی پنجاب کی وزیراعلیٰ مریم نواز کی متحرک قیادت میں عظمیٰ بخاری نے حکومتی اقدامات اور پالیسیوں کا بھرپور دفاع کیا ہے عظمیٰ بخاری نے حکومتی فلاحی اقدامات جیسے رمضان نگہبان پیکیج، کسان کارڈ، اور طلباء کے لیے سکالر شپس اور سکوٹیز کی فراہمی کو بھی میڈیا کے ذریعے نمایاں کیا انہوں نے ان اقدامات کے ذریعے عوام کو ملنے والے ریلیف کو اجاگر کیا اور حکومت کی عوام دوست پالیسیوں کو فروغ دیا ان کے مطابق پنجاب میں خدمت کی سیاست ہو رہی ہے اور ترقی کے منصوبے شروع کیے گئے ہیں جن کی مثال قومی تاریخ میں نہیں ملتی انہوں نے نہ صرف حکومتی کامیابیوں کو اجاگر کیا بلکہ اپوزیشن کی تنقید کا بھی دلائل کے ساتھ جواب دیا اسی لیے تو وہ ’’ دبنگ خاتون سیاستدان ‘‘ کے طور پر جانی جاتی ہیں جو اپنے نقطہ نظر کو بیان کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتیں میں سمجھتا ہوں کہ ان کی ان تمام تر کامیابیوں کے پیچھے انکی اپنی محنت، ہمت، حوصلہ اور جرات تو ہے ہی ساتھ میں طاہر رضاء ہمدانی جیسے ملنسار اور خوش اخلاق سیکرٹری اطلاعات کی معاونت بھی شامل ہے عظمیٰ بخاری کا شمار پاکستان کی ان چند خواتین سیاست دانوں میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنی محنت، لگن اور حاضر دماغی سے سیاست میں اپنا ایک نمایاں مقام بنایا ان کی کامیاب وزارت نے پاکستان کی خواتین سیاست دانوں کے لیے ایک مضبوط مثال قائم کی ہے اور ثابت کیا ہے کہ خواتین بھی سیاسی میدان میں نمایاں کردار ادا کر سکتی ہیں۔

جواب دیں

Back to top button