پاکستان اور محسن پاکستان
پاکستان اور محسن پاکستان
تحریر : صفدر علی حیدری
عظیم مصلح ، محسن پاکستان، نواب آف بہاول پور سر صادق محمد خان عباسی کو کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں ۔ وہ ایک ایسی عظیم ہستی ہیں جن کو بجا ہور پر محسن پاکستان کہا جا سکتا ہے ۔
تین سو میل لمبی اور پچاس میل چوڑی سابقہ ریاست بہاولپور کے درویش صفت نواب الحاج صادق محمد خان عباسی خامس کو اِس دنیا سے رخصت ہوئے 59سال ہو چکے ہیں۔ انہوں نے 24مئی 1966ء کو لندن میں وفات پائی ۔
آپ 29ستمبر 1904ء میں پیدا ہوئے ۔
تین سال کی عمر میں اپنے والد کے ساتھ حج پر تشریف لے گئے واپسی پر آپ کے والد نواب بہاول خان کا اِنتقال ہو گیا اور والد کے انتقال کے بعد آپ کو نئے والی ریاست کے طور پر مسند نشیں کرنے کا اِعلان کیا گیا، لیکن آپ کی کم عمری کے باعث ریاست کے اختیارات آپ کو تفویض نہیں کیے گئے ۔
آپ کے سنِ بلوغت تک ریاست کے تمام معاملات حکومت برطانیہ نے کونسل آف ریجنسی کے سپرد کر دیے اور سر رحیم بخش کو اِس کا سربراہ مقرر کیا گیا ۔ اِسی دوران آپ نے ریاست کے مذہبی اتالیق مولوی غلام حسین قریشی سے قرآنِ مجید کی ناظرہ تعلیم کے ساتھ ساتھ عربی اور فارسی کی تعلیم بھی مکمل کی ۔
اِس کے بعد آپ کو اعلٰی تعلیم کے حصول کے لیے لندن بھیجا گیا اور آپ دو سال تک( 1913ء سے 1915ء ) حصول تعلیم کے لیے لندن میں مقیم رہے ۔ لندن سے واپس آکر آپ ایچی سن کالج لاہور میں ( 1915ء سے 1921ء ) زیرِ تعلیم رہے۔ جب آپ نے تعلیم مکمل کر لی تو آپ کو ریاست کے تمام اختیارات تفویض کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ بیس سال کی عمر میں جب آپ مسند نشیں ہوئے تو نور محل بہاولپور میں ایک عظیم الشان تقریب منعقد کی گئی جس میں اس وقت کے ہندوستان کے وائسرائے لارڈ ریڈنگ نے آپ کی تاج پوشی کی۔ اِس طرح ریاست کے تمام معاملات آپ کے سپرد کر دیے گئے ۔
آپ نے ریاست کا نظم و نسق سنبھالتے ہی بہاولپور کو ایک عظیم فلاحی ریاست بنانے کے عزم کا اِعادہ کیا اور تعمیر و ترقی کا نیا دور شروع کرنے کا اعلان کیا۔ آپ نے درج ذیل شعبوں میں اِصلاحات کا آغاز کر دیا:
زرعی اِصلاحات
آپ نے عنان حکومت سنبھالتے ہی زراعت کو معیشت کا ایک اہم ستون قرار دیتے ہوئے آب پاشی کے نظام کو بہتر کرنے کے لیے ایک اِنقلابی قدم اٹھایا اور آب پاشی کے ایک بڑے منصوبے ستلج ویلی پراجیکٹ کا آغاز کیا۔ اِس منصوبے کے تحت تین نئے ہیڈورکس ہیڈسلیمانکی، ہیڈ اِسلام اور ہیڈ پنجند تعمیر کیے گئے اور پھر اِس کے بعد اِن ہیڈورکس سے بے شمار نہریں نکال کر پوری ریاست میں نہروں کا جال بچھا دیا گیا۔
آپ نے ریاست کی زمینوں کو قابل کاشت بنانے کے لیے مختلف علاقوں سے کاشت کاروں کو بلا کر ریاست میں آباد کیا ، اور جب مختلف ہنرمند آباد کاروں نے ریاست کی زمینوں پر آب پاشی کے بہترین وسائل کے ساتھ کاشت کاری کی تو ہر طرف لہلہاتی فصلیں نظر آنے لگیں اور ریاست کی زرخیز زمینین سونا اُگلنے لگیں۔ اِس طرح آپ کے اِس اِنقلابی اِقدام سے نہ صرف ریاست کی زمینیں آباد ہو گئیں بلکہ روزگار کے ذرائع میں بھی اِضافہ ہوا اور ریاست معاشی طور پر بہت زیادہ خوش حال ہوگئی۔
تعلیمی اِصلاحات
آپ ایک علم دوست اور ادب پرور شخصیت تھے۔ اِس لیے آپ نے ریاست کے اِنتظامی امور سنبھالتے ہی تعلیمی اِصلاحات کا آغاز کر دیا۔ آپ نے سب سے پہلے علامہ شبیر احمد عثمانی کی سربراہی میں ایک تعلیمی کمیشن قائم کیا اور ان کو ریاست کے تمام تعلیمی اِداروں کے لیے وقت کے تقاضوں کے مطابق جدید خطوط پر ایک شان دار نصاب مرتب کرنے کی ذمہ داری سونپی۔ اِس کے بعد 1925ء میں آپ نے جامعہ الازہر کی طرز پر ریاست بہاولپور میں جامعہ عباسیہ کی بنیاد رکھی اور جامعہ عباسیہ کا ایک اور ذیلی اِدارہ طبیہ کالج بہاولپور کے نام سے قائم کیا۔ جامعہ عباسیہ وقت کے ساتھ ساتھ ترقی کی منازل طے کرتے کرتے اِسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں تبدیل ہوگیا، جس کا شمار آج پاکستان کی بہترین یونیورسٹیوں میں ہوتا ہے۔
اِس کے علاوہ آپ نے ایچی سن کالج کی طرز پر بین الاقوامی معیار کا ایک اور تعلیمی اِدارہ صادق پبلک اسکول بہاولپور کے نام سے قائم کیا اور اِس کی جگہ کے لیے اپنی قیمتی زمین سے دو سو پچاس ایکڑ زمین عطیہ کی اور ریاست کے شاہی خزانے سے خطیر رقم اِس اِدارے کی تعمیر پر خرچ کی۔ اِدارے کی تکمیل کے بعد ایچی سن کالج کے پروفیسر جناب انور مسعود خان کو اِس اِدارے کا پرنسپل مقرر کیا۔ اِس کے علاوہ آپ نے طالب علموں کی تعلیم و تحقیق کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ایک بہت بڑی لائبریری قائم کی جسے صادق ریڈنگ لائبریری کا نام دیا گیا۔
اب یہ لائبریری بہاولپور سینٹرل لائبریری کے نام سے مشہور ہے، جہاں سے سالانہ لاکھوں طالب علم اور ریسرچ اسکالرز مستفید ہو رہے ہیں۔ آپ دنیا بھر سے جو کتب منگواتے ان کے تین نسخے منگواتے تھے، ایک سینٹرل لائبریری بہاولپور کے لیے، ایک ایس ای کالج کی لائبریری کے لیے اور ایک صادق گڑھ پیلس لائبریری کے لیے۔ اِس کے علاوہ آپ نے ریاست کی با پردہ خواتین کے لائبریری کی کتب سے مستفید ہو نے کے لیے سفری لائبریری کا اہتمام کیا، جو کہ ایک منفرد کارنامہ ہے آپ نے ایک بس کا اِنتظام کیا جس میں کلرک خواتین بڑی تعداد میں کتابیں رکھ کر گھروں میں جاتی تھیں اور خواتین کو ان کی پسند کی کتابیں ایشو کرکے واپس آجاتی تھیں۔ اِس طرح ریاست کی خواتین گھربیٹھے اپنی پسند کی کتب پڑھ سکتی تھیں اور اپنی علم کی پیاس بجھاتی تھیں۔ اُس دور میں یہ اپنی نوعیت کا منفرد اِقدام تھا۔
صحت کے شعبے میں اِصلاحات
زراعت اور تعلیم کے شعبوں میں اِصلاحات کے ساتھ ساتھ آپ نے صحت کے شعبے کو بھی یکساں اہمیت دی اور صحت کے شعبے میں بھی بے شمار اِصلاحات متعارف کروائیں۔ آپ نے ڈیرہ نواب صاحب میں کیولری اسپتال قائم کیا۔
1930 ء میں بہاول وکٹوریہ اسپتال کے توسیعی منصوبے کا سنگ بنیاد رکھا اور اِس میں کئی نئے وارڈ تعمیر کروائے۔ اِس کے علاوہ آپ نے ریاست بھر میں بے شمار ڈسپنسریوں کا جال بچھادیا، تاکہ غریب لوگوں کو صحت کی بنیادی سہولتیں فراہم کی جا سکیں۔ آپ نے طبیہ کالج بہاولپور کے طلبہ کی بھرپور سرپرستی کرتے ہوئے ان کے لیے ریاست کے سرکاری اسپتالوں میں نوکریوں کا کوٹا مقرر کیا۔ اِس اِقدام سے طب کے شعبے کہ بہت فروغ ملا۔ آپ نے اپنے دورحکومت میں صحت کے شعبے کو فروغ دینے کے لیے ڈاکٹروں، نرسوں اور حکیموں کی تنخواہوں میں بے پناہ اِضافہ کیا تاکہ وہ دل جمعی سے اپنی خدمات انجام دے سکیں۔
مذہبی خدمات
آپ ایک دین دار شخصیت تھے۔ جب آپ حج کی ادائیگی کے لیے تشریف لے گئے تو ریاست بہاولپور سے ایک سو مستحق افراد کو بھی اپنے ساتھ فریضہ حج کے لیے ساتھ لے گئے۔ سب سے پہلے آپ مدینہ منورہ تشریف لے گئے اور روضہ رسول پر حاضری دی۔ آپ نے مدینہ منورہ میں قیام کے دوران امیرمدینہ کی طرف سے دی گئی ضیافت میں بھی شرکت کی اور پھر آپ نے بھی امیر مدینہ کے اعزاز میں ضیافت دی۔ آپ نے مدینہ منورہ میں قیام کے دوران اپنی جانب سے مسجد نبوی میں یاد گار کے طور پر قیمتی فانوس بھی لگوائے۔پھر آپ مکہ مکرمہ تشریف لے گئے اور عمرہ اور حج ادا کیا۔ آپ کو اللہ تعالیٰ نے یہ اعزاز بخشا کہ آپ نے غسل کعبہ کی تقریب میں شریک ہو کر سعودی عرب کے بادشاہ سلطان عبدالعزیز بن سعود کے ساتھ خانہ کعبے کو غسل دیا۔ آپ نے ریاست بہاولپور کی طرف سے جذبۂ خیرسگالی کے طور پر مکہ شریف اور مدینہ شریف میں حاجیوں کے لیے سرائے تعمیر کروائے جہاں ریاست بہاولپور کے حاجیوں کے لیے ہر سال حج کے موقع پر قیام و طعام کا مفت بندوبست کیا جاتا تھا۔
آپ نے 1935ء میں ہی حج سے واپسی پر جامع مسجد دہلی کی طرز پر جامع مسجد الصادق کے نام سے ایک عظیم الشان مسجد کا سنگ بنیاد رکھا جس کا شمار آج بھی پاکستان کی پانچ بڑی مساجد میں ہوتا ہے۔ آپ کے دورحکومت میں بہاولپور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس جناب جسٹس محمد اکبر نے قادیانیوں کو اقلیت قرار دینے کا تاریخی فیصلہ کیا جو آپ کے دور کا ایک سنہری کارنامہ تصور کیا جاتا ہے اور پھر 1951ء میں بہاولپور کی قانون ساز اسمبلی نے قانون شریعت نافذ کیا ۔
آپ بہت بڑے عاشق رسول تھے آپ نے حضور کی سیرت پر ایک کتاب رسول صادق کے عنوان سے بھی لکھی جو آپ کی حضور پاک سے محبت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
قائداعظمؒ سے دوستانہ تعلقات اور پاکستان کے لیے خدمات
1928 ء میں نواب صاحب نے قائد اعظمؒ سے ریاست کے ایک اہم مقدمے میں وکیل مقرر ہونے کی درخواست کی۔ جناح صاحب نے یہ درخواست قبول کر لی اور اِنتہائی جاں فشانی سے ریاست کا مقدمہ لڑا۔ جناح صاحب کی قابلیت اور صلاحیت کی وجہ سے مقدمے کا فیصلہ ریاست کے حق میں ہو گیا۔ اِس طرح نواب صاحب قائداعظمؒ کی صلاحیتوں کے قائل ہوگئے اور قائد اعظم اور نواب صاحب کے درمیان دوستانہ تعلقات قائم ہوگئے۔ پھر یہ دوستی نواب صاحب نے جس عالی شان طریقے سے نبھائی اِس کی دنیا میں مثال نہیں ملتی۔ قائداعظمؒ جب گورنر جنرل کے عہدے کے لیے حلف لینے جانے لگے تو نواب صاحب نے انہیں اپنی قیمتی رولز رائس کار پیش کی اور وہ اِس میں بیٹھ کر با وقار انداز میں حلف برداری کی تقریب میں پہنچے۔
اس کے علاوہ آپ نے کراچی میں واقع اپنے شاہی محلات الشمس محل اور القمر محل بطور تحفہ قائد اعظمؒ اور محترمہ فاطمہ جناح کو پیش کیے۔ اِس سے بڑھ کر یہ کہ آپ نے قائداعظمؒ کے ایک مخلص دوست اور محب وطن پاکستانی ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے حکومت وقت کو سرکاری ملازمین کی تنخواہوں کے لیے سات کروڑ روپے شاہی خزانے سے ادا کیے۔ قیام پاکستان کے وقت جب نہرو نے ریاست بہاولپور کو بھارت میں شامل کرنے کے لیے بہت اِصرار کیا تو نواب صاحب نے اِس کا ایک بہت ہی خوب صورت جواب دیا۔آپ نے فرمایا بھارت میرے گھر کے پیچھے ہے اور پاکستان میرے گھر کے سامنے ہے اور شریف آدمی ہمیشہ سیدھا راستہ اختیار کرتا ہے۔ اِس لیے میں کبھی بھی ہندوستان میں شمولیت کا فیصلہ نہیں کروں گا۔ اس طرح ایک خوش حال مسلمان ریاست کام یابی سے پاکستان کا حصہ بن گئی ، جس پر ہم سب کو فخر ہے۔
مہاجرین کی آباد کاری
آپ نے تخلیق پاکستان کے وقت مہاجرین کی آباد کاری کے لیے بھی گراںقدر خدمات سرانجام دیں اور حکومت پاکستان کا مہاجرین کی آباد کاری کے لیے بہت ساتھ دیا۔ آپ نے ریاست بہاولپور میں وزارت بحالی مہاجرین قائم کی اور ایک بہت ہی خداترس اور غریب پرور شخصیت جناب مخدوم الملک غلام میراں شاہ صاحب کو اس کا وزیر مقرر کیا۔ جناب غلام میراں شاہ صاحب نے وزیر مہاجرین کے طور پر بے پناہ خدمات سرانجام دیں اور مہاجرین کی آباد کاری اور بحالی کے لیے ہر ممکن قدم اٹھایا۔ غلام میراں شاہ صاحب نے اپنی زمینوں سے سیکڑوں من گندم مہاجرین کے لیے عطیہ کی اور نواب صاحب نے 22ہزار من گندم کا عطیہ مہاجرین کے لیے پیش کیا۔ اِس کے علاوہ آپ نے مہاجرین کی اِمداد کے لیے امیربہاولپور فنڈ برائے بحالی مہاجرین بھی قائم کیا جس میں اُس وقت ایک خطیر رقم جمع ہوئی جو مہاجرین کی مرحلہ وار بحالی کے لیے خرچ کی گئی۔
غرض یہ کہ نواب صاحب ایک ایسی عظیم شخصیت تھے جنہوں نے اپنا تخت و تاج پاکستان پر نچھاور کردیا اور اِسلام اور پاکستان سے اپنی بے پناہ محبت کی عظیم مثال قائم کی ۔
پاکستان کا یہ عظیم محسن لندن میں
24 مئی 1966ء کو اپنے خالق حقیقی سے جا ملا ۔ آپ کی میت کو جب چار گھوڑوں کی بگھی میںریلوے اسٹیشن سے صادق گڑھ پیلس بہاولپور لایا گیا تو ہزاروں لوگ بگھی کے ساتھ دھاڑیں مار کر روتے ہوئے پیدل چلتے رہے۔
آپ کی نماز جنازہ قاضی عظیم الدین نے پڑھائی جس میں لاکھوں لوگوں نے شرکت کی۔ ایک اندازے کے مطابق اُس وقت آٹھ لاکھ لوگوں نے آپ کی نماز جنا زہ میں شرکت کی۔ آپ کو پورے فوجی اعزاز کے ساتھ قلعہ ڈیراوڑ احمد پور شرقیہ ڈیرہ نواب صاحب میں نواب خاندان کے شاہی قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا اور تدفین کے بعد آپ کو اِکیس توپوں کی سلامی دی گئی۔ عالم اِسلام کا یہ عظیم سپوت آج وہاں آسودۂ خاک ہے۔
تقسیم ہند کے بعد نوزائیدہ مملکت پاکستان کو بھی اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کے لیے بھرپور مدد کی۔ مختلف روایات کے مطابق پاکستان کے تمام سرکاری ملازمین کی تنخواہیں ابتدائی ایام میں ریاست بہاولپور کے خزانے سے ہی ادا کی جاتی رہیں ۔ ریاست کی فوج کو بھی پاکستانی فوج میں ضم کر دیا گیا۔ ریاست کے سونے کے ذخائر نو قائم شدہ سٹیٹ بینک آف پاکستان کے سپرد کر دئیے گئے کہ کرنسی چھاپی جا سکے۔ پرل کانٹی نینٹل ہوٹل لاہور اور میریٹ اسلام آباد میں کھڑی بیش قیمت کیڈلک اور رولز رائس گاڑیاں بھی ہمیں ان تحفوں کی یاد دلاتی ہیں جو نواب صاحب نے قائد اعظم کو بطور گورنر جنرل ان کے سرکاری استعمال کے لیے دئیے۔ نواب صاحب نے نوزائیدہ مملکت کی ائر لائن کی بنیاد رکھنے کے لیے بھی مالی معاونت فراہم کی۔ اور اس نوعیت کی اور بہت سی نوازشات!
کسی فرد واحد کے قیام کے بعد پاکستان پر اتنے احسانات نہیں جتنے نواب صاحب کے ہیں۔ اس حقیقت کا اعتراف تو خود قائد اعظم نے انہیں محسن پاکستان کا خطاب دے کر کیا۔
اور پھر ہم یہ بھی کس طرح بھول سکتے ہیں کہ ہندوستان کی تمام تر ریشہ دوانیوں اور اس کی دل فریب پیشکشوں کو ٹھکرا کر نواب صاحب نے اپنی ریاست کو پاکستان میں ضم کر دیا تھا کہ جو آج پنجاب کے سب سے بڑے ڈویعن کی صورت میں صوبے کے تقریباً پانچویں حصے پر موجود ہے ۔
تمام ریاستی شہروں کے ساتھ ساتھ کراچی اور لاہور میں بھی بہاولپور بنک کی شاخیں موجود تھیں جو پاکستان سے الحاق کے بعد نیشنل بنک آف پاکستان میں ضم ہو گئیں ۔
اب ریاست بہاول پور کی عوام اگر پاکستانی ہیں تو فقط محسن پاکستان کی وجہ سے ۔
نواب صادق محمد خان عباسی کے عہد حکومت میں مرزا قادیانی نے جب نبوت کا دعویٰ کیا تو جسٹس محمد اکبر خان ڈسٹرکٹ جج ریاست بہاولپور نے 7فروری 1935ء کو اپنے تاریخی فیصلے میں قادیانیوں کو کافر اور خارج اسلام قرار دیا ۔
زندہ قومیں اپنے محسنوں کو کبھی نہیں۔ بھولتیں ۔ محسن پاکستان کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرنے کا ایک احسن طریقہ یہ بھی ہے کہ مطالعہ پاکستان کے نصاب میں ان کا نمایاں پر ذکر کیا جائے ۔
آخر میں ایک افسوس ناک بات کر ذکر ضروری ہے
نواب صاحب کی برسی پر ضلع بہاول پور میں مقامی تعطیل کی جاتی ہے ۔ وہ پورے پاکستان کا فخر ہیں مگر افسوس ان کی پوری ریاست تک میں چھٹی نہیں کی جاتی۔
صفدر علی حیدری







