جارحیت

جارحیت
تحریر : محمد مبشر انوار(ریاض )
راقم 2000ء میں سعودی عرب بسلسلہ روزگار ،شہر ریاض پہنچا تھا تب اولین ترجیح معاشی ضروریات میں آسانی ہی تھی تاہم یہ خواہش ابھی بہت سے اتارچڑھائو سے گزرنے والی تھی اور یہ حقیقت آج بھی درپیش ہے کہ سعودی عرب میں بدلتے قوانین میں،سادہ تعلیم والوں کے لئے اپنے معاش کو قائم رکھنا،زندہ رہنا انتہائی کاروارد ہے،بہرطور اللہ رب العزت کی نظر کرم سے ہی معاملات چل رہے ہیں۔ ان دنوں سعودی عرب میں پاکستان کے سفیر جنرل ( ر) اسد درانی تھے اور غالبا چودہ اگست کی پرچم کشائی کی تقریب میں،انتہائی عزم،جذبہ حب الوطنی اور جوش و ولولے کے ساتھ ،بطور تارک وطنسفارت خانہ پاکستان میں شریک ہوا،ان دنوں ،اور آج کل بھی، یہی روٹین ہے کہ صبح پرچم کشائی کی تقریب سفارت خانہ پاکستان کی عمارت کے صحن میں ہوتی،سفیر پاکستان پرچم کشائی کرتے اور بعد ازاں تارکین وطن، زعماء کرا م اور سعودی عرب میں مختلف شعبہ جات میںانتہائی اعلی درجہ پر فائز شخصیات،سفیر محترم کے ہمراہ، سفارت خانہ کے چانسری ہال میں پہنچتی،وہاں صدر،وزیر اعظم و وزیرخارجہ کے پیغامات سنائے جاتے،تارکین وطن شخصیات میں سے مقررین کو خطاب کی دعوت دی جاتی،آخر میں سفیر پاکستان کی تقریر اور اس کے بعد بسا اوقات سوال و جواب کا سلسلہ بھی ہوتا ۔ سوال و جواب کے سلسلہ میں سفیران کرام بالعموم ڈپلومیٹک جوابات دیتے لیکن بہرحال تارکین وطن کے لئے ان جوابات میں ،تسلی وامیدکی نمایاں کرن ہمیشہ موجود رہتی کہ درحقیقت یہی وہ فرض منصبی ہے،جس کے لئے کسی بھی ملک کے سفیر کو دیار غیر میں تعینات کیا جاتا ہے کہ ایک طرف وہ دونوں ممالک کے درمیان بہترین تعلقات قائم رکھے اور دوسرا یہ کہ وہاں موجود تارکین وطن کی مشکلات اور ان کو درپیش تحفظات پر مطمئن کرے۔تقریبا تمام سفیران ،اپنی پیشہ ورانہ مہارت سے ان امور کو بخوبی سرانجام دیتے ہیں بالخصوص سعودی عرب جیسے برادر ملک میں ان کی ذمہ داریاں کئی گنا بڑھ جاتی ہیں کہ ایک طرف اس ملک کے ساتھ ہمیں برادرانہ تعلقات کی بنیادی وجہ کلمہ توحید ہے تو دوسری طرف تارکین وطن کی اکثریت مشرق وسطی اور سعودی عرب میں بالخصوص دیگر ممالک سے کہیں زیادہ ہے،لہذا یہاں کے معاملات بھی اسی تناسب سے کہیں زیادہ ہیںاور سفارت خانہ ہمہ وقت ان معاملات کے لئے بروئے کار نظر آتا ہے۔یہ کہنا کہ کیا سفارت خانہ سو فیصد بروئے کار آتا ہے،ایک مشکل مرحلہ ہے لیکن درون خانہ حقائق کو کچھ حد تک جانتے ہوئے،راقم پوری ذمہ داری سے اعتراف کرتا ہوں کہ سفارت خانہ کے ذمہ داران نہ صرف نیک نیتی بلکہ اپنی بھرپور کوششوں کو بروئے کار لاتے ہوئے تارکین وطن کے مسائل حل کرنے کی کوششیں کرتے ہیں تاہم تارکین وطن کی ایسی خواہشات جو سفارت خانہ اپنے محدود وسائل و اختیارات کے باعث پوری نہیں کرپاتا،اس پر افواہوں کا بازار گرم کرنے والوں سے گزارش ہے کہ بیرون ملک رہتے ہوئے،اس ملک کے قوانین کا احترام بھی کیا کریںتا کہ بوجھ سفارت خانہ پر نہ آئے۔بہرکیف یہ برسبیل تذکرہ ہی سہی مگر برمحل ہے ،اصل حقیقت یہ ہے کہ انہی دنوں جنرل اسد درانی نے جب چودہ اگست کی صبح پرچم کشائی کے بعد چانسری ہال میں محفل سجائی ، اعلیٰ شخصیات کے پیغامات پڑھ کر سنائے جا چکے،معززین ریاض کی تقاریر ہو چکی،سفیر پاکستان نے بھی اپنی تقریر کے بعد سوال و جواب کا سلسلہ شروع کیا تواس وقت بھی پاکستانیوں کی زبان پر جو سوال اور اذہان میں جو پریشانی تھی، وہ بھارت کی جانب سے کشن گنگا ڈیم کی تعمیر تھی،راقم نے بھی اس پر سوال کیاتو جنرل صاحب نے انتہائی پراعتماد طریقے سے جواب دیتے ہوئے کہا کہ بھارت کچھ بھی کر لے،وہ پاکستان کا پانی نہیں روک سکتا تاہم تب جنرل اسد درانی نے بھارت کے ایک ایسے ہی غیر قانونی ڈیم کی تباہی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ بھارت کے لئے یہ ممکن نہیں ہوگا۔
تاہم اس حقیقت کو دو دہائیاں گزر چکی،پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکااور بھارت نہ صرف کشن گنگا بلکہ اس جیسے کئی اور آبی ذخائر تعمیر کر کے ،پاکستانیوں کو کربلا یاد کرانے ،پیاسا مارنے اور پاکستان کو بنجر بنانے کے لئے تیار ہو چکا ہے۔ عالمی قوانین اس حوالے سے کیا کہتے ہیں اور کیا ہونا چاہئے،بھارت کو اس کی چنداں کوئی فکر نہیں کہ جس طرح بھارت نے اپنی جھوٹی طاقت کے زعم اور عالمی طاقتوں کی پشت پناہی پر ،اپنے ملک میں فالس فلیگ آپریشن کرکے،پاکستان کو دبانے بلکہ نیست و نابود کرنے کی ناپاک خواہش میں،جارحیت کی ،ویسے ہی بھارت ،پاکستان کو اس کے آبی حق سے محروم کرنے کے لئے بروئے کارآ رہا ہے۔ پاکستانی دریائوں پر،آبی ذخائر تعمیر کرنے کے بعد،گو کہ اس میں پاکستان کی مختلف حکومتوں،افسر شاہی وہ دیگر متعلقہ افراد کی مجرمانہ غفلت رہی ہے لیکن اس کے باوجود بہرکیف بھارت کے پاس یہ اختیار پھر بھی موجود نہیں کہ وہ پاکستان کا پانی روک سکے۔ بھارت کی یہ حرکت عالمی قوانین کے صریحا خلاف ورزی ہے اور پاکستان کے پاس یقینی طور پر اس خلاف ورزی کو ختم کرانے کے چند آپشن ضرور موجود ہیں،ان میں سرفہرست تو یہی ہے کہ دوطرفہ طور پر اس معاملے کو اٹھایا جائے اور بھارت کو اس خلاف ورزی پرقائل کرکے ،یہ خلاف ورزی ختم کرائی جائے،جس کا امکان بہرطور نہ ہونے کے برابر ہے کہ اگر بھارت میں اتنی عقل اور قوانین کی پاسداری ہوتی،تو بھارت ،پاکستان کاپانی کم کرنے کی حماقت ہی نہ کرتا۔ لہذا میری دانست میں اتمام حجت کے لئے یہ آپشن استعمال کیا جائے گا لیکن اس ایک طریقہ کار سے یہ توقع رکھنا کہ بھارت اپنی ہٹ دھرمی، حماقت یا بیوقوفی سے باز آ جائے گا تو یہ پاکستان کی غلط فہمی ہو گی۔ دوسری صورت یہ ہے کہ پاکستان ،سندھ طاس معاہدے کے ضامن،عالمی بنک کے پاس یہ مقدمہ لے جائے،تا کہ بھارت کو اس خلاف ورزی سے روکا جائے اور پاکستان کے پانی پر بھارتی غیر قانونی تسلط کو ختم کرایا جائے،چونکہ یہ فورم بھی ایک غیر سیاسی فورم ہے جس کے پاس اپنے احکامات کی بجاآوری یا عملدرآمد کا اختیار محدود اور طاقت نہ ہونے کے برابر ہے،لہذا اس فورم کا جو بھی نتیجہ آئے گا ( پاکستان کے حق میں)،اس پر عملدرآمد کا امکان بھی تقریبا نہ ہونے کے برابر ہے۔ اسی طرح تیسرا آپشن ،اقوام متحدہ کا ہے کہ پاکستان اپنے موقف کو اقوام متحدہ کے سامنے رکھے اور اس سے داد رسی کا طلبگار ہو،یہ جانتے ہوئے بھی کہ اقوام متحدہ کا اختیار کس حد تک ہے اور وہ اپنی قراردادوں یا اپنے احکامات کی بجا آوری کے لئے ،عالمی طاقت کا مرہون ہے،اور عالمی طاقت کی مرضی و منشاہے کہ وہ ایسی کسی قرارداد پر عمل درآمد کرائے یا نہ کرائے۔ کشمیر پر اقوام متحدہ کی قرارادادیں آج تک عمل درآمد کی منتظر ہیں جبکہ حالیہ دور میں،اسرائیل کے خلاف پاس کی گئی قراردادوں پر نہ صرف اقوام متحدہ بلکہ عالمی طاقت کی تنبیہات و دھمکیوں اور سخت اقدامات( جو صرف زبانی کلامی حد تک رہے ہیں) اسرائیل ،غزہ کی نسل کشی سے باز نہیں آیا بلکہ اس کے حملوں میں مزید شدت آتی جارہی ہے۔ حد تو یہ ہے کہ ایک طرف امریکہ جو ساری دنیا کا ٹھیکیدار اور حقوق انسانی کا علمبردار بنا بیٹھا ہے،یکسر غزہ میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر لب سئے ہوئے ہے تو دوسری طرف اپنے احکامات کے ٹھکرائے جانے پر بھی دانستہ خاموشی اختیار کئے ہوئے، اسرائیلی درندگی کو شہ دے رہا ہے، ایسے میں پاکستان کے ساتھ ہونے والے ناروا سلوک و ناانصافی پر ان اداروں کی کیا ردعمل ہو سکتا ہے یا ان سے پاکستان کے دکھ کا مداوا کیسے ہوسکتا ہے،یہ ایک ملین ڈالر سوال ہے؟؟
آخری آپشن کے طور پر جو بچتا ہے، اس کا مظاہرہ چند دن پہلے ہی بھارت کو دکھایا جا چکا ہے،اس ایک آپشن کو ہی تحریر کے ابتداء میں جنرل اسد درانی کے حوالے سے اشارہ بھی کیا ہے اور ڈی جی آئی ایس پی آر کی جانب سے پریس کانفرنس میں اس امر کا اظہار بھی کیا جا چکا ہے کہ بھارت کی ایسی کسی کوشش کے جواب میں بھارت دہائیوں اس جواب کو یاد رکھے گا،سے واضح ہوتا ہے کہ پاکستان کس آپشن کی بدولت، بھارتی ہٹ دھرمی او قوانین کی خلاف ورزی پر نہ صرف بھارت کو سبق سکھا سکتا ہے بلکہ پاکستان کا حق بھی واپس لے سکتا ہے۔ تاہم یہاں ایک حقیقت واضح ہے کہ پاکستان جو طریقہ کار آج استعمال کرنے جا رہا ہے یا مستقبل قریب میں کرے گا، اس سے صرف اسی صورت بچا جاسکتا تھا اگر پاکستان بروقت صحیح اقدامات کرتا، بہرحال اس کا وقت اب نہیں رہا لیکن کیا پاکستان اس سے سبق سیکھے گا، اس کا امکان بھی بہرحال کم ہی دکھائی دیتا ہے۔ بھارت کی حالت اس وقت ’’ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے ‘‘ والی ہے، نائب وزیراعظم کے بیان کے مطابق اگر پاکستان کا پانی روکا گیا تو پاکستان اسے جارحیت تصور کرے گا، اسے اعلان جنگ سمجھے گا، تو نائب وزیراعظم صاحب، بھارت ’’ جارحیت ‘‘ کرکے ’’ اعلان جنگ‘‘ کر چکا، کیا پاکستانی پہلے تین آپشنز کے نتائج کا انتظار کرتے ہوئے، پانی کی کمیابی کے ساتھ کس کس کو دعائیں دیں یا اس کے جواب میں جلد بھارت کو دہائیوں تک یاد رکھنے والے سبق کا عملی مظاہرہ دیکھنے کو ملے گا؟؟؟





