مودی حکومت کی ناکام داخلہ و خارجہ پالیسی

مودی حکومت کی ناکام داخلہ و خارجہ پالیسی
پیامبر
قادر خان یوسف زئی
مئی 2025ء کا مہینہ جنوبی ایشیا کی تاریخ میں ایک ایسا باب ہے جسے بھلا نہیں جا سکتا۔ 10مئی کو بھارت اور پاکستان کے درمیان ہونے والی جنگ بندی، ایک ایسا موڑ ثابت ہوئی جس نے نہ صرف خطے کی سلامتی کو وقتی طور پر بحال کیا بلکہ بھارت کی مودی سرکار کو سفارتی تنہائی اور سیاسی بحران کی گہرائیوں میں دھکیل دیا۔ پاکستان کی جانب سے شاندار دفاعی حکمت عملی اور متحد سیاسی ردعمل نے بھارت کو شرمندگی کے مقام پر لا کھڑا کیا۔ اس پسپائی کے بعد بھارت کی داخلی سیاست دلچسپ صورت اختیار کر گئی ہے,مودی حکومت مشکلات سے دوچار ہے اور پاکستانی عوام میں یہ جوش و ولولہ مسلسل پروان چڑھ رہا ہے۔
مودی حکومت کی سفارتی تنہائی صرف ایک سفارتی مسئلہ نہیں بلکہ ایک سیاسی کُنجی ہے جس نے بھارت کی اندرونی کمزوریوں کو بھی بے نقاب کیا۔ عالمی برادری نے بھارت کی جارحیت کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور نہ صرف اس کی حکمت عملی کو رد کیا بلکہ سفارتی محاذ پر اسے تنہا کر دیا۔ روس کی غیر جانبداری اور گلوبل ساتھ کے ممالک کی خاموشی نے مودی حکومت کی حمایت کی داستان کو شکست سے دوچار کر دیا۔ مودی کی سیاسی حکمت عملی جہاں دنیا کی نظر میں ناکام رہی، وہاں اس کے اندرونی محاذ پر بھی زبردست بحران کھڑا ہو گیا۔ بھارتی عوام، جو طویل عرصے سے مہنگائی، بے روزگاری، اور معاشرتی تقسیم کا سامنا کر رہے ہیں، اب حکومت کی خارجہ پالیسیوں کی وجہ سے مزید الجھن کا شکار ہیں۔ ملک میں سیاسی فسادات، احتجاج اور ناانصافی کی داستانیں عام ہو گئی ہیں۔ مودی حکومت کی بیرونی ناکامیوں کا اثر بھارت کی داخلی سیاست پر بھی پڑا ہے۔ مئی 2025ء کے تنازع اور اس کی سفارتی پسپائی کے بعد بھارت کی اپوزیشن جماعتوں اور سیاسی رہنماں نے نہایت واضح الفاظ میں مودی سرکار کی پالیسیوں کی سخت مذمت کی ہے۔ یہ وہ آوازیں ہیں جو بھارتی عوام کی بڑھتی ہوئی بے چینی اور ناراضی کی نمائندگی کرتی ہیں۔
کانگریس کے سابق صدر راہول گاندھی نے مئی کے وسط میں ایک پریس کانفرنس میں کہا، ’’ مودی حکومت کی جارحانہ خارجہ پالیسی نے بھارت کو عالمی سطح پر تنہائی میں دھکیل دیا ہے۔ ملک میں مہنگائی اور بے روزگاری کی وجہ سے عام شہری مشکلات کا شکار ہیں، لیکن حکومت اپنی اندرونی ناکامیوں سے توجہ ہٹانے کے لیے جنگی جنون میں مبتلا ہے‘‘۔ ان کے الفاظ میں، ’’ یہ پالیسی بھارت کے مفادات کے خلاف ہے اور ہمیں نقصان پہنچا رہی ہے‘‘۔ اسی طرح مہاراشٹرا کی سیاست کی طاقتور رہنما ممالہ یہالو نے کہا، ’’ مودی سرکار نے علاقائی استحکام کو سیاسی مفادات کے لیے قربان کر دیا ہے۔ ان کی خارجہ پالیسی نے نہ صرف بھارت کے امن کو خطرے میں ڈالا بلکہ سفارتی محاذ پر اسے تنہا کر دیا ہے‘‘۔
کانگریس کی مرکزی رہنما پریانکا گاندھی وڈرا نے مئی کے آخر میں سوشل میڈیا پر مودی حکومت کی کرپشن اور بدعنوانی پر تہلکہ خیز الزامات لگائے۔ انہوں نے رافیل اسکینڈل کو ’’ مودی سرکار کی بدنام ترین کرپشن‘‘ قرار دیا اور کہا، ’’ یہ حکومت نہ صرف قومی خزانے کو لوٹ رہی ہے بلکہ میڈیا کو دبانے کی کوشش کر رہی ہے تاکہ سچائی منظر عام پر نہ آئے‘‘۔ اپوزیشن کی اورنگ آباد سے منتخب رکن مکرجیت کماری نے بھی اپنی ایک تقریر میں کہا، ’’ مودی حکومت کی غیر ذمہ دار خارجہ پالیسی کی وجہ سے بھارت سفارتی تنہائی کا شکار ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ اپنی توجہ ملک کے عوام کی فلاح و بہبود اور بنیادی مسائل پر مرکوز کرے، بجائے اس کے کہ وہ دشمنی اور کشیدگی کے راستے پر چلے‘‘۔ ان کا یہ بیان 18مئی کو سامنے آیا، جس نے حکومت پر عوامی دبا میں مزید اضافہ کیا۔ سابق افسر اور سیاسی تجزیہ کار آلوک ورما نے بھی مودی حکومت کی کرپشن، طاقت کے ناجائز استعمال اور جمہوری اقدار کی پامالی پر شدید تنقید کی۔ انہوں نے 25مئی کو ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا، ’’ مودی سرکار نے اپنی پالیسیوں سے بھارت کی جمہوریت کو کمزور کیا اور ملک کو عالمی تنہائی میں دھکیل دیا ہے‘‘۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارت کو اپنے اندرونی مسائل پر توجہ دینی چاہیے، نہ کہ علاقائی کشیدگی میں اضافہ کرنا چاہیے۔
یہ بیانات نہ صرف مودی حکومت کی سفارتی ناکامیوں کا عکس ہیں بلکہ بھارت کی داخلی سیاسی کشیدگی اور عوامی ناراضی کو بھی نمایاں کرتی ہیں۔ مودی سرکار کے خلاف یہ آوازیں بڑھتی جا رہی ہیں، مودی حکومت کے خلاف سب سے بڑی چوٹ ایک ایسا ایشو ہے جسے عوام ’’ کرپشن کی ماں‘‘ کے طور پر یاد رکھتے ہیں، وہ رافیل اسکینڈل ہے۔ اس معاملے میں کک بیک کے الزامات نے نہ صرف حکومت کی ساکھ کو نقصان بلکہ میڈیا کی جانبداری نے اس کو ایک سیاسی ٹول بنا دیا۔ سچ کو دبانے کے لیے میڈیا نے جھوٹی رپورٹنگ کو فروغ دیا اور ایسے کارکنوں اور صحافیوں کے خلاف کریک ڈائون شروع کیا جو حقائق کو سامنے لانے کی کوشش کرتے تھے۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر ان کے اکانٹس بلاک کرائے گئے۔ یہ وہی بھارت ہے جہاں آزادی اظہار رائے کی آوازیں دبائی جا رہی ہیں، اور جنہوں نے سچ بولنے کی ہمت کی، انہیں خوفزدہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
پاکستانی عوام اس پسپائی اور بھارت کے بحران کو نہایت غور و فکر سے دیکھ رہے ہیں۔ ان کی یکجہتی اور جذبہ ملک کی سلامتی اور خودمختاری کے دفاع میں مزید مضبوط ہو رہا ہے۔ کشمیر کو مذاکرات کے ایجنڈے میں لانا اور پانی کے مسئلے پر پختہ موقف اختیار کرنا پاکستان کی سفارتی کامیابیوں میں شامل ہیں۔ مودی حکومت کی داخلی سیاسی صورتحال میں جو کشمکش بڑھ رہی ہے، وہ اس بات کا عکاس ہے کہ بھارت میں اب صرف عسکری قوت نہیں بلکہ سیاسی استحکام بھی خطرے میں ہے۔ اپوزیشن جماعتیں نہ صرف مودی حکومت کی خارجہ اور داخلی پالیسیوں پر سوال اٹھا رہی ہیں بلکہ عوامی سطح پر بھی مودی مخالف جذبات تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ یہ سیاسی عدم استحکام بھارت کو ایک ایسے دور میں لے آیا ہے جہاں خطے میں امن قائم کرنا ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔
پاکستان کی سفارتی مہم، عالمی شراکت داروں خصوصاً چین اور سعودی عرب کی حمایت، اور عالمی قوتوں کے سامنے میں اپنے حقوق کی بازیابی نے مضبوط موقف عطا کیا ہے۔ یہ تمام عوامل مل کر ایک امید کی کرن ہیں کہ جنوبی ایشیا میں دیرپا امن ممکن ہو سکتا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ 10مئی کی بعد بھارت میں مودی حکومت کی سفارتی تنہائی اور سیاسی بحران واضح ہو چکا ہے، جبکہ پاکستان نے ایک متحد اور مضبوط موقف کے ذریعے نہ صرف دفاع بلکہ عالمی سطح پر اپنی ساکھ کو بھی بڑھایا ہے۔ پاکستانی عوام ایک سیسہ پلائی دیوار کی طرح وطن کی حفاظت کے لئے یک قلب دو جان ہوئے۔





