Column

کھرا بجتا نہیں، کھوٹا ہی کھنکتا ہےتحریر : محمد ضرار یوسف

کھرا بجتا نہیں، کھوٹا ہی کھنکتا ہے
تحریر : محمد ضرار یوسف
مسلح افواج اور ہر وہ ادارہ جس نے پاکستان کے دفاع کو ناقابل تسخیر بنانے میں اہم کردار ادا کیا ان کو پاکستان کی پوری قوم خراج تحسین پیش کرتی ہے۔ ماسوائے جو کچھ دل جلے ، کچھ جنگ کے مخالف اور کچھ ایسے افراد جو آج بھی اکھنڈ بھارت کی راگنی الاپتے ہیں اندر سے موشگافیاں کرتے نظر آتے ہیں۔ لیکن کچھ سیاستدان اور ان کے چیلے چماٹے اس جنگ میں پاکستان کی برتری کو اپنے کھاتے میں ڈال کر انتہائی گھٹیا انداز میں اپنے آپ کو پیش کرتے ہیں ۔ ان کی مثال ایک کوئے کی ہے جو شور بہت مچاتا ہے۔ مگر ہمیشہ دوسرے کے کئے شکار کی بچی کھچی آلائشوں پہ پیٹ پالتا ہے یا مردار خوری کرتا ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی (PPP)کی اتحادی حکومت 2008۔ 2013ء تک آصف علی زرداری کی قیادت میں قائم رہی۔ یہ دور پاکستان کی تاریخ کے نازک ترین ادوار میں سے ایک تھا ۔ جب ملک شدید دہشت گردی کا شکار تھا، سوات، باجوڑ، وزیرستان میں خوارج سرگرم تھے ۔ اس چیلنجنگ دور میں عوامی حکومت نے کئی اہم داخلہ اور دفاعی اقدامات کیے تاکہ حکومت کی رٹ قائم ہونے کے ساتھ ساتھ امن سلامتی اور تحفظ کا احساس پیدا ہو ان میں دہشتگردی کے خلاف بھرپور فوجی کارروائیاں اور آپریشن شامل تھے ۔ سب سے بڑا آپریشن سوات یا آپریشن راہِ راست، یہ آپریشن عوامی حکومت کی نگرانی میں پاکستان آرمی نے انجام دیا ۔ وادی سوات میں 2007سے 2009کے درمیان میں خوارج اور مقامی شدت پسند گروپوں، خاص طور پر ملاں فضل اللہ جو ’’ مولوی ریڈیو‘‘ کے نام سے بھی مشہور تھا، نے حکومت کی عمل داری کو چیلنج کرنا شروع کر دیا تھا۔ خوارج نے سوات میں اپنی من مرضی کی شریعت کے نفاذ کا مطالبہ کیا اور اس کی آڑ میں عدالتوں، خاص طور پر لڑکیوں کے سکولوں ، پولیس سٹیشنز اور حکومتی دفاتر پر قبضہ کر لیا۔حکومت نے شدت پسندی ختم کرنے کے لیے مختلف امن معاہدے کیے ( جیسے 2009 کا ’’ نظامِ عدل‘‘ معاہدہ)، لیکن خوارج نے اس معاہدے کو حکومت کی کمزوری سمجھتے ہوئے مزید علاقے پر قبضہ کر لیا، یہاں تک کہ وہ بونیر اور دیر تک پہنچ گئے ۔ جو اسلام آباد سے صرف 100کلومیٹر دور ہیں۔ اور دعوی کرنا شروع کر دیا کہ ایک ہفتے تک اسلام آباد پہ قبضہ کر لیں گے ۔ شدت پسندوں نے عوام پر سخت پابندیاں لگائیں، سرِ عام مردوں اور عورتوں کو کوڑے مارے گئے، سرکاری ملازمین کی گردن زنی کی گئی اور قتل کی ویڈیوز جاری کیں۔ وکلا کے پیشے کو حرام قرار دے کر پابندی لگا دی گءی۔ ان مسائل کو مدنظر رکھ کر جب کوئی متبادل حل نظر نہ آیا تو حکومت کو یہ آپریشن 2009کو شروع کرنا پڑا ۔ جس میں وادی سوات سے شدت پسندوں کا صفایا ہوا ، حکومتی عمل داری بحال ہوئی، آئی ڈی پیز ( متاثرین) کی واپسی اور بحالی بڑے احسن طریقے سے انجام پائی ، اور وادی سوات میں میں امن قائم ہوا ۔ یہ عوامی حکومت اور فوج کے درمیان باہنی اعتماد اور بہترین تعلق کی عکاسی کرتا تھا۔ سوات، بونیر، اور دیر سے خوارج کا خاتمہ کیا۔ جبکہ ملاں فضل اللہ افغانستان فرار ہو گیا۔ غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق وہاں قتل ہو گیا ۔ حکومت نے سوات میں ترقیاتی منصوبے اور اسکول دوبارہ کھولنے ، تعمیر اور بحال کرنے کا کام شروع کیا۔ اسی طرح جنوبی وزیرستان میں آپریشن راہِ نجات جو مکمل طور پر کامیاب نہ ہو سکا، باجوڑ آپریشن شردل جیسے بڑے فوجی آپریشن شروع کئے گئے جن میں حکومت اور فوج کے درمیان ہم آہنگی اور حکومت کی مکمل سیاسی حمایت حاصل تھی ۔ ان آپریشنز نے دہشت گردوں کے مضبوط گڑھ ختم کیے اور ریاستی رٹ بحال کی۔
حکومت نے دفاعی بجٹ میں اضافہ کیا تاکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے اخراجات پورے کیے جا سکیں۔ شہدا کے لواحقین، زخمی فوجیوں اور آئی ڈی پیز ( متاثرہ شہریوں) کے لیے مالی امداد و بحالی کے پروگرام شروع کیے گئے۔ ابھی عوامی حکومت کو سکون کی سانس بھی نہیں آئی تھی کہ امریکہ سے تعلقات کشیدہ ہو گئے تھے کیونکہ امریکہ نے Operation Neptune Spearایبٹ آباد میں کیا جس میں اسامہ بن لادن کی ہلاکت ہوئی ۔ ان حالات میں داخلی و خارجی سیکیورٹی خطرات بڑھ چکے تھے۔2011میں ایبٹ آباد آپریشن ( اسامہ بن لادن کی ہلاکت) نے سول۔ ملٹری تعلقات کو متزلزل کیا، مگر حکومت نے اس واقعے کے بعد ادارہ جاتی احتساب اور پالیسی جائزے کی حمایت جاری رکھی ۔ نیٹو اور امریکی افواج کے ہیلی کاپٹرز اور لڑاکا طیاروں نے رات کے وقت تقریباً دو گھنٹے تک صلالہ چیک پوسٹ کی چوکیوں پر بمباری سے حملہ کیا۔ جس کے نتیجے میں 24پاکستانی فوجی شہید اور کئی زخمی ہو گئے۔نیٹو نے ابتدائی طور پر کہا کہ یہ ایک غلط فہمی تھی اور اُنہیں لگا کہ وہ شدت پسندوں کے ٹھکانوں پر حملہ کر رہے ہیں۔ تاہم، پاکستان نے اس وضاحت کو مسترد کر دیا۔ پاکستان کی عوامی حکومت نے فوراً افغانستان میں موجود نیٹو افواج کے لیے جانے والی زمینی سپلائی بند کر دی۔ امریکی ڈرون آپریشنز کے لیے استعمال ہونے والا شمسی ایئر بیس پاکستان نے بند کروا دیا۔ امریکہ اور نیٹو سے سخت احتجاج کیا گیا، اور پارلیمنٹ نے مکمل جائزہ لینے کے بعد نئی شرائط طے کیں۔ یہ سخت فیصلے پاکستان کی دلیر عوامی حکومت کا کارنامہ تھا ۔ اس واقعہ سے پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں سخت تنائو آیا۔ کئی مہینوں تک نیٹو سپلائی معطل رہی۔ بعد میں امریکہ نے معذرت خواہانہ بیان جاری کیا۔ صلالہ حملے کے بعد امریکہ سے نیٹو سپلائی بند کی گئی، اور پارلیمنٹ نے دفاعی پالیسی کے حوالے سے متفقہ قرارداد منظور کی، جسے PPPحکومت نے نافذ کیا۔ ذوالفقار علی بھٹو قائد عوام کی حکومت کے بعد یہ پہلا موقع تھا کہ نیشنل ڈیفنس پالیسی کی تشکیل میں پارلیمان کی شمولیت ہوئی۔ اور پہلی بار سکیورٹی پالیسی سازی میں پارلیمان کو شامل کیا گیا، اور خارجہ پالیسی پر متفقہ پارلیمانی قراردادیں پاس کی گئیں۔ فوجی اور انٹیلیجنس اداروں کو پارلیمانی نگرانی میں لانے کی کوشش کی گئی، جو ایک اہم جمہوری قدم تھا۔ نیشنل کمانڈ اتھارٹی (NCA)کو فعال رکھا گیا، جو ایٹمی اثاثوں کی نگرانی کرتی ہے۔ صدر آصف زرداری نے کوشش کی کہ سویلین حکومت اور فوجی قیادت کے درمیان ورکنگ ریلیشن قائم رہے۔ لیکن بعض واقعات ( جیسے میموگیٹ سکینڈل) نے کشیدگی پیدا کی، مگر عوامی حکومت نے کھلے تصادم سے گریز کیا گیا۔ عوامی حکومت نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فیصلہ کن فوجی اقدامات کئے۔ اور ایٹمی و میزائل پروگرام میں پیش رفت کی۔ یہ پہلا عوامی دور تھا جب جمہوری حکومت نے فوجی پالیسیوں کو عوامی نمائندوں کے ذریعے اثرانداز کرنے کی عملی کوشش کی۔ حالانکہ مکمل سویلین کنٹرول اب بھی ایک چیلنج ہے۔بھارت نے پاکستان کے اندرونی حالات کا تجزیہ کرتے ہوئے پاکستان کو کمزور اور تقسیم کرنے کی غرض سے ایک کولڈ اسٹارٹ ڈاکٹرائن (Cold Start Doctrine -CSD)پروگرام تشکیل دیا جس کا مقصد یہ تھا کہ بھارت کسی جنگی اعلان کے بغیر فوری، تیز رفتار اور محدود فوجی حملہ کر کے پاکستان کو حیرت میں ڈالے، اور پاکستان کو جوابی ایٹمی حملے کا موقع دئیے بغیر فوجی و سیاسی فائدہ حاصل کرے۔
پاکستان نے اس خطرے کو سنجیدگی سے لیا اور اس کا موثر دفاعی توڑ کیا جس کے اہم اقدامات درج ذیل ہیں:
:1۔ نصر (NASR)میزائل کی تیاری: پاکستان نے 2011میں نصر(Hatf-IX)نامی کم فاصلے تک مار کرنے والا ٹیکٹیکل نیوکلیئر میزائل متعارف کرایا۔ یہ میزائل 60،70کلومیٹر تک مار کر سکتا ہے اور دشمن کی پیش قدمی کرتی بریگیڈز کو جنگی میدان میں ہی نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ نصر کا مقصد بھارت کی تیز رفتار حملہ آور فورسز کو روکنا اور تباہ کرنا تھا، تاکہ وہ کولڈ اسٹارٹ کا فائدہ نہ اٹھا سکیں۔
2۔ فُل سپیکٹرم ڈیٹرنس (Full Spectrum Deterrence): پاکستان نے اپنی دفاعی حکمت عملی کو ’’ فُل سپیکٹرم ڈیٹرنس‘‘ کا نام دیا، جس میں: سٹریٹیجک (Strategic)آپریشنل (Operational)اور ٹیکٹیکل (Tactical)سطح پر ایٹمی صلاحیت کو ترقی دی گئی۔ اس کا مطلب تھا کہ بھارت کسی بھی سطح پر حملہ کرے، پاکستان کے پاس ہر سطح پر جوابی حملے کا موثر نظام موجود ہو۔
3۔ تیز رفتار فوجی ردِعمل (Quick Mobilization Doctrine)پاکستان آرمی نے اپنے کورز اور بریگیڈز کی موومنٹ اور رسپانس ٹائم کم کرنے کے اقدامات کیے تاکہ کسی بھارتی حملے کا فوری جواب دیا جا سکے۔ڈیجیٹل کمانڈ سسٹمز، مشقیں، اور سڑکوں/لازمی تنصیبات کی بہتری شامل تھی۔
عسکری مشقیں ( جیسے Azm-e-Nau، Strike of Thunderوغیرہ) کی گئیں تاکہ بھارتی کولڈ اسٹارٹ کے خلاف تیاری آزمائی جائے۔ ان مشقوں میں نیوکلئیر اور نان۔ نیوکلئیر دونوں سطح پر جوابی حکمت عملیوں کو عملی شکل دی گئی۔ پاکستان نے دنیا کو واضح پیغام دیا کہ اگر بھارت نے کولڈ اسٹارٹ پالیسی پر عمل کیا تو پاکستان ہر حد تک جانے کا حق محفوظ رکھتا ہے۔
جے ایف۔17تھنڈر طیارے کی مشترکہ تیاری کے لئے محترمہ بے نظیر بھٹو کے پہلے دور اقتدار میں جنگی طیاروں کی مقامی سطح پہ تیاری کے لئے ابتدائی اقدامات کئے گئے۔ اور دوسرے دور اقتدار میں 1995ء میں پاکستان اور چین کے درمیان معاہدہ طے ہوا۔ اور مختلف مراحل طے کرتے ہوئے آخر کار صدر آصف علی زرداری کے دور اقتدار میں پاکستان ایروناٹیکل کمپلیکس (PAC)جس کی بنیاد قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو نے 1973ء میں رکھی تھی ۔ اس میں JF17تھنڈر کی تیاری کا آغاز صدر آصف علی زرداری دور اقتدار میں 2009میں ہوا۔
آج پاکستان نے جس سرعت اور تیز رفتاری سے بھارتی جارحیت کا منہ توڑ جواب دیا ہے اس میں پاکستان پیپلز پارٹی کی عوامی حکومتوں کا بے مثال واضح کردار ہے۔ باقی خالی برتن بناتے رہیں حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی۔

جواب دیں

Back to top button