مذاکرات یا تحریک؟

تحریر : امتیاز عاصی
بلاشبہ سیاسی بحرانوں کا حل مذاکرات میں مضمر ہے۔ سیاسی جماعتوں کے قائدین مل بیٹھیں تو سیاسی بحرانوں کا کوئی شافی حل نکل آتا ہے۔ ہم پہلے کئی بار لکھ چکے ہیں بانی پی ٹی آئی سیاسی معاملات کو سنجیدگی سے لینے کی صلاحیت سے عاری ہیں۔ سیاسی امور پر ان کی گرفت ہوتی تو معاملات اس حد تک خراب نہیں ہوتے۔ عمران خان سے ملاقات کرنے والے باہر آکر کر طرح طرح کی بولیاں بولتے ہیں جس کا ملکی سیاست پر کوئی مثبت اثر نہیں پڑتا۔ چند روز قبل عمران خان نے جنید اکبر کو کے پی کے میں حکومت کے خلاف تحریک چلانے کا ٹاسک دیا لیکن ایک روز بعد وہ حکومت سے مذاکرات کے لئے تیار ہو گئے۔ اس مقصد کے لئے انہوں نے وزیراعظم شہباز شریف کی پیش کش قبول کر لی جو اچھا شگون ہے۔ جیسا کہ ایک اردو معاصر نے رپورٹ کیا ہے عمران خان طاقتور حلقوں سے بات چیت کے لئے تیار ہیں۔ سوال ہے عمران خان تو پہلے روز سے طاقتور حلقوں سے بات چیت کے لئے رضامند تھے البتہ فریق ثانی ان سے بات چیت کے لئے رضامند نہیں تھا۔ اس ناچیز کے خیال میں حکومت سے مذاکرات کی صورت میں پہلی بات عمران خان کی رہائی پر ہو سکتی ہے جس کے لئے حکومت کسی صورت رضامند نہیں ہوگی جس کی وجہ حکومت کے پاس عمران خان کو جیل سے نکالنے کا اختیار نہیں ہے۔ عمران خان کو رہائی اسی صورت میں مل سکتی ہے جب وہ سانحہ نو مئی پر معذرت کریں گئے جس کا طاقت ور حلقے کئی بار اظہار کر چکے ہیں۔ حکومت سے پی ٹی آئی کی بات چیت میں دوسرا بڑا مطالبہ نئے انتخابات کا ہو سکتا ہے جن کا آئندہ تین سال تک کوئی امکان نہیں ہے۔ اخبار کے مطابق حکومت سے بات چیت کا اختیار بیرسٹر گوہر کو دیا گیا ہے جس کی تفصیلات انہوں نے بتانے سے گریز کیا ہے۔ عمران خان نے یہ ہدایت بھی کی ہے حکومت سے بات چیت کو مخفی رکھا جائے اور پریس کو کسی صورت مذاکرات کا علم نہیں ہونا چاہیے۔ درحقیقت عمران خان کو اس وقت ماسوائے حکومت سے بات چیت کے کوئی دوسرا راستہ دکھائی نہیں دے رہا ہے۔ طاقتور حلقے اس بات کا کئی بار اظہار کر چکے ہیں عمران خان سے براہ راست چیت نہیں ہو سکتی اگر بانی پی ٹی آئی نے بات کرنی ہے تو حکومت کے ساتھ کرے۔ عمران خان نے اس بات کا اندازہ لگا لیا ہے ماسوائے کے پی کے کسی صوبے کے لوگ پی ٹی آئی کی اپیل پر سڑکوں پر آنے کو تیار نہیں عوام سڑکوں پر آنے کے لئے تیار ہوتے تو اپوزیشن نے تحریک تحفظ آئین کا حشر دیکھ لیا جو ماسوائے بلوچستان کسی صوبی میں جلسہ نہیں کر سکی ہے۔ پی ٹی آئی عوام کو سڑکوں پر اس لئے بھی نہیں لا سکتی ہے پی ٹی آئی میں قیادت کے فقدان اور آپس کی گروہ بندی نے ورکرز کو مایوس کیا ہے۔ پی ٹی آئی ورکرز اسلام آباد میں سانحہ ڈی چوک پر بھی افسردہ ہیں جب علی امین گنڈا پور انہیں اپنے رحم وکرم پر چھوڑ کر چلے گئے تھے۔ سانحہ ڈی چوک میں جن پی ٹی آئی ورکرز کی اموات ہوئی ہیں ان کی تفصیل تو ہمیں معلوم نہیں البتہ ڈی چوک کے سانحہ نے پی ٹی آئی کے ورکرز کے حوصلے پست کر دیئے ہیں۔ یہ ضرور ہے عمران خان جیل سے رہائی کے بعد احتجاج کی کال دے تو عوام کا سمندر آمڈ آئے ورنہ پی ٹی آئی کی موجودہ قیادت ورکرز کو سڑکوں پر لانے کی صلاحیت سے عاری ہے۔ عمران خان کے بیٹوں نے لندن میں پریس کانفرس کرتے ہوئے شکوہ کیا ہے ان کے والد کو دیگر قیدیوں تک رسائی نہیں ہے۔ عمران خان کے بیٹوں اور پی ٹی آئی رہنمائوں کی معلومات کے لئے عرض ہے عمران خان تو پھر سابق وزیراعظم ہیں پولیس کا کوئی تھانیدار جیل آجائے تو اسے دیگر قیدیوں سے بالکل الگ تھلگ رکھا جاتا ہے۔ شاہد خاقان عباسی، یوسف رضا گیلانی، آصف علی زرداری اور نواز شریف کو بھی دیگر قیدیوں سے علیحدہ رکھا گیا تھا۔ البتہ شاہد خاقان عباسی اور عمران خان کو بی کلاس کے قیدیوں کے لئے مختص جگہ سے الگ سیلوں میں رکھا گیا ۔ عمران خان کو دو پہروں کی درمیانی دیوار توڑ کر واک کے لئے جگہ فراہم کی گئی ہے۔ جہاں تک دیگر قیدیوں سے الگ رکھنے کا سوال ہے عمران خان کو قیدیوں تک رسائی دے دی جائے تو کوئی قیدی انہیں نقصان پہنچا دے اس کا ذمہ دار کون ہوگا؟ سیاسی رہنمائوں، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور سرکاری ملازمین کو جیل آنے کی صورت میں عام قیدیوں حوالاتیوں سے اسی لئے الگ رکھا جاتا ہے تاکہ انہیں کوئی نقصان نہ پہنچا سکے۔ پی ٹی آئی رہنمائوں کو جیل مینوئل کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ ایک اہم بات یہ بھی ہے جیل میں انسان کو خواہ کتنی سہولتیں میسر ہوں جیلوں کے منفی اثرات سے قیدی محفوظ نہیں رہ سکتے۔ قیدیوں کی اکثریت عارضہ قلب، ٹی بی اور سکن کی بیماروں میں مبتلا ہو جاتی ہے۔ یوں بھی جب کوئی جیل چلا جائے خواہ وہ ملک کا وزیراعظم رہ چکا ہو قید و بند کے منفی اثرات کا پڑنا قدرتی امر ہے۔ جیلوں میں وہی لوگ پرسکون طریقہ سے رہ سکتے ہیں جو نماز پنچگانہ، قرآن پاک کی تلاوت اور نماز تہجد ادا کرتے ہوں۔ جیلوں کی سہولتوں سے کوئی آسانی سے وقت گزار سکتا تو نواز شریف ملک چھوڑ کر کیوں جاتے انہیں عمران خان سے زیادہ سہولتیں مل سکتی تھیں۔ حضرت یوسف ٌ نے ویسے تو نہیں فرمایا تھا جیل خانہ جنم کا ایک ٹکڑا ہے۔ ہم پی ٹی آئی کے حکومت سے مذاکرات اور حکومت مخالف تحریک کی بات کر رہے تھے عمران خان کو صد ق دل سے حتمی فیصلہ کرنا ہوگا آیا وہ حکومت سے مذاکرات کریں یا حکومت کے خلاف تحریک کا آغاز کرنے کے خواہاں ہیں۔ اس ناچیز کے خیال میں عمران خان کو حکومت سے مذاکرات کرکے پارٹی رہنمائوں اور ورکرز کی رہائی کو فوقیت دینی چاہیے تاکہ مستقبل قریب میں بھی وہ عوام کی حمایت آسانی سے حاصل کر سکیں ۔ عجیب تماشا ہے ایک طرف حکومت پی ٹی آئی سے مذاکرات کی خواہاں ہے دوسری طرف لاہور میں پاکستان زندہ باد ریلی نکالنے پر تھانہ نصیر آباد میں پی ٹی آئی ورکرز کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا ہے جو حکومت کے دوہرے معیار کا عکاس ہے۔





