پاکستان۔ روس نئی اسٹیل ملز کا قیام

پاکستان۔ روس نئی اسٹیل ملز کا قیام
تحریر : ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی
پاکستان اسٹیل ملز کا قیام 1970ء کی دہائی میں سابق سوویت یونین ( روس) کے تعاون سے عمل میں آیا۔ یہ منصوبہ اس وقت پاکستان کی صنعتی خود کفالت اور بنیادی ڈھانچے کی ترقی کی جانب ایک تاریخی پیش قدمی تھا۔ کراچی کے ساحلی علاقے میں قائم کی گئی یہ اسٹیل ملز، پاکستان کا سب سے بڑا صنعتی کمپلیکس بنی، جس کا مقصد مقامی سطح پر اسٹیل کی پیداوار کو یقینی بنانا اور صنعتوں، تعمیرات اور دفاعی شعبے کے لیے درکار بنیادی مواد کی فراہمی کو ممکن بنانا تھا۔
ابتدائی عشروں میں اسٹیل ملز نے ملکی ترقی میں قابلِ ذکر کردار ادا کیا۔ ہزاروں ملازمین، مقامی معیشت کی روانی اور صنعتی ترقی کے سلسلے کو اس ملز نے تقویت دی۔ مگر افسوس کہ جس قومی سرمائے کو قوم کی ترقی کے لیے وقف کیا گیا تھا وہ جلد ہی بدانتظامی، سیاسی مداخلت، کرپشن اور غیر مستقل صنعتی پالیسیوں کی نذر ہوگیا۔
پاکستان اسٹیل ملز کا زوال ایک قومی سانحے سے کم نہیں۔ ایک ایسا منصوبہ جس پر اربوں روپے خرچ کیے گئے، محض بدانتظامی اور بے جا سیاسی بھرتیوں کی نذر ہوکر اپنی افادیت کھو بیٹھا۔ ملازمین کی تنخواہوں کی ادائیگی میں تاخیر، پیداواری عمل میں رکاوٹ اور انتظامی بدحالی نے اس ادارے کو ایک ایسے بوجھ میں بدل دیا جسے ریاست سہنے کے قابل نہ رہی۔
حکومتوں نے بارہا اس ادارے کو بحال کرنے کی کوشش کی، مگر شفافیت اور میرٹ کے فقدان نے ہر کوشش کو ناکام بنایا ۔ نتیجتاً، ملکی ضرورت کا بیشتر اسٹیل اور آئرن بیرون ملک سے منگوایا جانے لگا جو قیمتی زرمبادلہ کے زیاں کا باعث بنا۔
یہ بات خوش آئند ہے کہ حالیہ برسوں میں پاکستان اور روس کے مابین نئی اسٹیل مل کے قیام کے حوالے سے بات چیت کا آغاز ہوا ہے۔ گزشتہ سال صدر پاکستان اور روسی حکام کے درمیان ہونے والی ملاقاتوں اور ستمبر میں روسی نائب وزیر صنعت و تجارت اور پاکستانی وزیر صنعت کے درمیان ورکنگ گروپ کے قیام پر اتفاق اس ضمن میں ایک مثبت پیش رفت ہے۔
اب تازہ ترین اطلاعات کے مطابق، وزیراعظم کے مشیر برائے صنعت و پیداوار اور روسی وفد کے درمیان ملاقات میں کراچی میں نئی اسٹیل مل کے قیام پر اتفاق کیا گیا ہے۔ سب سے اہم پیش رفت یہ ہے کہ حکومت نے پاکستان اسٹیل ملز کی 700ایکڑ اراضی نئی اسٹیل مل کے قیام کے لیے مختص کر دی ہے۔
پاکستان کے پاس آئرن ایسک کے تقریباً 1.887بلین ٹن کے ذخائر موجود ہیں۔ یہ ذخائر ملکی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کافی ہو سکتے ہیں، بشرطیکہ انہیں جدید ٹیکنالوجی کے ساتھ استعمال میں لایا جائے۔ اس وقت پاکستان ہر سال تقریباً 2.7 بلین ڈالر کا آئرن اور اسٹیل درآمد کرتا ہے، جو نہ صرف ملکی معیشت پر بوجھ ہے بلکہ صنعتی خود انحصاری میں ایک رکاوٹ بھی ہے۔
نئی اسٹیل ملز کے قیام سے نہ صرف درآمدات میں کمی آئے گی بلکہ مقامی صنعت، تعمیرات، انفراسٹرکچر اور دفاعی شعبے کو بھی بھرپور فائدہ پہنچے گا۔
گزشتہ تلخ تجربات کی روشنی میں سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ نئی اسٹیل مل کو ہر قسم کی کرپشن، بدانتظامی اور سیاسی اثر و رسوخ سے محفوظ رکھا جائے۔ صرف جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کافی نہیں، جب تک شفافیت، میرٹ، اور پیشہ ورانہ مہارت کو ہر سطح پر لازم قرار نہ دیا جائے۔
ترقی یافتہ ممالک کی مثال ہمارے سامنے ہے، جہاں صنعتی منصوبے حکومت اور نجی شعبے کے اشتراک سے شفاف انداز میں چلائے جاتے ہیں۔ پاکستان کو بھی ایسی ہی ایک حکمتِ عملی اپنانے کی ضرورت ہے۔
پاکستان اسٹیل ملز کی تاریخ ایک سبق آموز داستان ہے۔ یہ ادارہ اپنے عروج میں قومی ترقی کی علامت تھا اور اب اپنے زوال میں بدعنوانی اور ناقص حکمرانی کی عبرت انگیز مثال بن گیا ہے ۔ تاہم پاکستان میں صنعتی ترقی کے لیے ایک جدید اسٹیل مل کا قیام وقت کی اہم ضرورت ہے۔
روس کے تعاون سے اگر شفافیت اور وژن کے ساتھ نئی اسٹیل مل قائم کی جائے تو یہ منصوبہ نہ صرف پاکستان کو صنعتی خود کفالت کی راہ پر گامزن کرسکتا ہے بلکہ روزگار کے نئے مواقع، برآمدات میں اضافہ اور مقامی معیشت کی مضبوطی کا ذریعہ بھی بن سکتا ہے۔
اس سلسلے میں چند سفارشات پر عمل کیا جائے۔ منصوبے کے تمام مراحل میں شفافیت اور احتساب کو یقینی بنایا جائے۔ غیر ضروری سیاسی مداخلت سے منصوبے کو پاک رکھا جائے۔ نجی شعبے اور بین الاقوامی ماہرین کو شراکت داری میں شامل کیا جائے اور مقامی خام مال کے استعمال پر توجہ مرکوز کی جائے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان اسٹیل ملز کی ناکامی سے سبق سیکھتے ہوئے ایک نئے عزم، نئی قیادت اور جدید ٹیکنالوجی کے ساتھ ایک نئی اسٹیل ملز کی بنیاد رکھی جائے تاکہ پاکستان ایک مضبوط صنعتی ریاست کے طور پر ابھر سکے۔





