Column

مودی سرکار کا اصل چہرہ اور کرنل صوفیہ قریشی کا نوحہ

مودی سرکار کا اصل چہرہ اور کرنل صوفیہ قریشی کا نوحہ
تحریر : عقیل انجم اعوان

بھارت دنیا میں سب سے بڑی جمہوریت کا دعوی دار ہے لیکن اس بھارت میں جب ایک مسلمان خاتون فوجی افسر کو محض اس کے عقیدے کی بنیاد پر ’’ دہشت گردوں کی بہن‘‘ کہہ کر مخاطب کیا جاتا ہے تو یہ کوئی اتفاقی گستاخی نہیں بلکہ ایک منظم نظریاتی جُرم ہوتا ہے۔ یہ بیان اس ریاستی ذہنیت کا آئینہ ہے جس نے مذہب کے نام پر انسانیت کو کچلنے کا عزم کر رکھا ہے۔ کرنل صوفیہ قریشی پر کیا گیا یہ حملہ فردِ واحد کی توہین نہیں بلکہ بھارت کے اس آئینی فریب کی قلعی کھولتا ہے جو مساوات، سیکولرازم اور جمہوریت جیسے خوش نما الفاظ سے سجا ہوا ہے مگر اندر سے تعصب، نفرت اور تنگ نظری سے لبریز ہے۔ صوفیہ قریشی کوئی عام شہری نہیں وہ ایک فوجی افسر ہیں جنہوں نے اقوامِ متحدہ میں بھارت کی نمائندگی کی وردی پہنی، وطن پرستی کا حلف اٹھایا اور اپنی عمر کا بہترین حصہ عسکری خدمات کے لیے وقف کیا۔ لیکن آج اسی خاتون کو محض اس لیے مشکوک بنایا جا رہا ہے کہ وہ مسلمان ہے۔ گویا بھارت میں حب الوطنی کا پیمانہ اب کارنامے، قربانیاں یا خدمت نہیں بلکہ مذہبی شناخت بن چکا ہے۔ یہ صرف فکری دیوالیہ پن نہیں بلکہ ریاستی دہشت گردی کا ایک نیا روپ ہے جسے بی جے پی کی قیادت میں باقاعدہ قانونی اور معاشرتی جواز فراہم کیا جا رہا ہے۔بی جے پی اور اس کی نظریاتی نرسری راشٹریہ سوائم سیوک سنگھ (RSS)برسوں سے جس سوچ کو پروان چڑھا رہے تھے وہ اب نا صرف غالب آ چکی ہے بلکہ قانون، آئین اور اخلاقیات پر بھی حاوی ہو گئی ہے۔ ’’ ہندوستان صرف ہندو کا ہے‘‘ کا نعرہ اب کسی جلسے کا شور نہیں بلکہ پالیسی ساز ایوانوں کا اصول بن چکا ہے۔ اب جو ہندو نہیں وہ غدار، دہشت گرد، پاکستانی ایجنٹ یا لو جہادی کہلاتا ہے۔ چاہے وہ مسلمان ہو یا مسیحی، دلت ہو یا آدیواسی بی جے پی کے نظریاتی خاکے میں ان کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ کرنل صوفیہ قریشی پر زبانی حملہ محض بی جے پی کے ایک رکن اسمبلی کی بدزبان حرکت نہیں بلکہ ایک گہری سازش کا حصہ ہے جس کا مقصد اقلیتوں کو مسلسل حاشیے پر رکھنا ان کی حب الوطنی کو مشکوک بنانا اور بھارت میں اکثریتی ہندو ذہن کو ایک مستقل احساسِ برتری میں مبتلا رکھنا ہے۔ یہ وہی ذہنیت ہے جس نے بابری مسجد کو شہید کیا، گجرات میں ہزاروں مسلمانوں کا قتل عام کروایا، کشمیر کی خصوصی حیثیت کو بزور طاقت ختم کیا اور شہریت ترمیمی قانون کے ذریعے کروڑوں ہندوستانیوں کو آئینی تحفظ سے محروم کرنے کی کوشش کی۔مودی کو ایک سیاسی منصوبہ ساز کے طور پر پیش کیا جاتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کی سیاست اخلاقیات سے عاری، انسانیت سے خالی اور امن و ہم آہنگی کی قاتل ہے۔ ان کی حکمتِ عملی کا نچوڑ یہی ہے کہ کسی نہ کسی اقلیت کو مسلسل نشانہ بنایا جائے تاکہ اکثریتی ووٹر کی توجہ غربت، مہنگائی، بیروزگاری اور کرپشن سے ہٹا کر دشمنی کے کسی نئے ہدف پر مرکوز رکھی جا سکے۔ یہ ایک خطرناک کھیل ہے جس میں ایک پوری قوم کو نفسیاتی غلامی میں دھکیلا جا رہا ہے اور ہر وہ فرد جو سوچنے یا سوال کرنے کی جرات کرے غدار اور دشمن قرار دیا جاتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ بھارت میں اقلیتوں کے لیے بچا ہی کیا ہے؟ چرچ میں عبادت کی جائے تو مذہب کی جبری تبدیلی کا الزام لگتا ہے۔ مسلمان نوجوان اگر کسی ہندو لڑکی سے محبت کرے تو وہ لو جہادی بن جاتا ہے۔ مدرسہ تعلیم دے تو دہشت گردی کا اڈہ کہلاتا ہے۔ برقع، ٹوپی، داڑھی، اذان، اردو ہر نشانِ مسلم اب جرم کی علامت بن چکا ہے اور اگر کوئی مسلمان بھارتی افواج میں خدمات انجام دے تو اس کی حب الوطنی پر سوالیہ نشان لگا دیا جاتا ہے۔ یہ سب کچھ کسی جذباتی لہر کا نتیجہ نہیں بلکہ ایک منظم ریاستی حکمتِ عملی ہے جس کا مقصد بھارت کو مذہبی بنیادوں پر اس قدر تقسیم کر دینا ہے کہ اقلیتیں ہمیشہ خوف، عدم تحفظ اور محرومی کا شکار رہیں اور اکثریتی طبقہ ہمیشہ خود کو خطرے میں سمجھ کر بی جے پی کی پناہ میں جائے۔ یہ وہی خطرناک سیاسی منطق ہے جس نے ہٹلر کو جنم دیا تھا اور اب یہی منطق مودی کی سیاست میں جھلک رہی ہے۔ مزید افسوسناک امر یہ ہے کہ بھارت کا نام نہاد آزاد میڈیا جو کسی دور میں سچ بولنے کی جرات رکھتا تھا اب مکمل طور پر حکومت کی گود میں بیٹھ چکا ہے۔ نہ کسی اینکر نے صوفیہ قریشی پر دئیے گئے بیان کی مذمت کی، نہ کسی چینل نے اس پر سوال اٹھایا، نہ کسی صحافی نے کھوج لگائی۔ آج بھارتی میڈیا محض حکومت کا مائوتھ پیس بن کر رہ گیا ہے اور جو بھی ادارہ یا فرد سچ بولنے کی کوشش کرتا ہے اس پر بغاوت، ملک دشمنی یا فساد کا لیبل لگا کر خاموش کرا دیا جاتا ہے۔ تاریخ ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ فسطائیت کبھی دائمی نہیں ہوتی وہ وقتی طور پر طاقتور نظر آتی ہے مگر اندر سے کھوکھلی ہوتی ہے۔ جب ریاست اپنے ہی محسنوں کو مشکوک بنائے، جب حب الوطنی کا معیار مذہب ہو جائے اور جب سیاست کا مرکز نفرت اور دشمنی بن جائے تو وہ ریاست زوال کی راہ پر قدم رکھ چکی ہوتی ہے۔ کرنل صوفیہ قریشی پر حملہ دراصل بھارت کی اخلاقی موت کا اعلان ہے۔ یہ زہر آج اقلیتوں کے خلاف استعمال ہو رہا ہے لیکن کل یہی زہر پورے بھارتی سماج کو کھوکھلا کر دے گا۔ وہ دن دور نہیں جب یہ فسطائی فکر اپنے ہی پروردہ طبقے کو نگلنا شروع کر دے گی کیونکہ نفرت کی آگ صرف دوسروں کو نہیں جلاتی یہ آخرکار خود کو بھی راکھ کر دیتی ہے۔ اگر آج بھارت کے انصاف پسند، سیکولر، ترقی پسند اور روشن خیال طبقے نے خاموشی ترک نہ کی تو وہ دن زیادہ دور نہیں جب بھارت کا دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کا دعویٰ ایک کھوکھلا نعرہ، ایک بین الاقوامی مذاق اور ایک عبرتناک مثال بن جائے گا۔

جواب دیں

Back to top button