Columnمحمد مبشر انوار

تنائو

تحریر : محمدمبشرانوار (ریاض)
ناحق انسانی جان کا زیاں کہیں بھی، نہ صرف قابل مذمت ہے بلکہ اسلام میں جان کے ایسے ناحق زیاں کو، انسانیت کا قتل کہا گیا ہے اور یوں انسانی جان کی اہمیت بنی نوع انسان پر واضح کیا ہے تا کہ اس فانی زندگی میں، چھوٹے موٹے اختلافات پر ناحق دوسروں کو قتل نہ کریں۔ ناحق قتل کرنے والوں کے لئے اسلام واضح اور کھلے الفاظ میں قصاص کو حکم دیتا ہے کہ آنکھ کے بدلے آنکھ اور کان کے بدلے کان، نہ کم نہ زیادہ، تاکہ معاشرے میں سخت سزا کے تصور سے انسان ایسے جرائم سے گریز کریں یا ورثاء کا یہ استحقاق ہے کہ خون بہا وصول کر کے، معاف کر دیں اور اس سے کہیں بہتر صورت یہ ہے کہ رضائے الٰہی کے لئے غیر مشروط طور پر معاف کر دیں، جسے سب سے افضل قرار دیا گیا ہے۔ اس کے پیچھے حکمت کے بیش قیمت خزانے ہیں کہ قصاص کی صورت معاشرے میں امن و امان کو یقینی بناتا ہے، جبکہ دیت یا خون بہا وصول کر لینے سے مجرم کو ایک مزید موقع میسر آتا ہے جبکہ رضائے الٰہی کی خاطر معاف کرنے سے، خوف خدا اور نرم دلی کا اظہار ہوتا ہے اور مجرم کو پھر موقع نصیب ہوتا ہے کہ اپنی روش کو تبدیل کر لے۔ انفرادی زندگی میں، معاشرے کو پر امن رکھنے کے لئے، ایسے اقدامات اٹھانا ریاست کو فرض منصبی ہے تو دوسری طرف مجموعی طور پر معاشرے میں امن و امان کو درپیش خطرات سے نپٹنے کے لئے بھی ریاستیں نہ صرف انفرادی طور پر بروئے کار آتی ہیں بلکہ عالمی سطح پر بھی ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتی ہیں۔ بگڑے ہوئے گروہوں کی جانب سے، اپنے مطالبات کی منظوری، اپنے تئیں درست اور جائز مگر ریاست کے حوالے سے ممکنہ طور پر غلط یا ناجائز یا وسائل کی عدم دستیابی کے باعث پورے نہ کر سکنے ک بنا پر یا کسی بھی ایسی وجہ سے ہتھیار بند ہونا اور نہتے اور معصوم شہریوں کو قتل کرنا، صریحاً دہشت گردی اور ناحق خون بہانے کے زمرے میں آتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسے گروہوں کا نہ کوئی مذہب ہے نہ دین اور نہ ایسے گروہوں کو انسان تسلیم کیا جا سکتا ہے، ان کے ساتھ سختی اور آہنی ہاتھوں سے نپٹنے کی ضرورت ہوتی ہے تا کہ ایک طرف ریاست اپنے شہریوں کا تحفظ کرے، اپنی رٹ ثابت کرے اور ایسے بھٹکے ہوئے گروپوں کا قلع قمع کرے تاہم دور حاضر میں، جسے مہذب ثابت کرنے کے لئے، ہر جاندار کے حقوق کا واویلا تو کیا جاتا ہے مگر اس کے باوجود، چند ریاستیں ایسی ہیں جو ببانگ دہل انسانوں کا قتل عام کرتی ہیں، نسل کشی میں براہ راست ملوث ہیں، ریاستی دہشت گردی کی مرتکب ہوتی ہیں لیکن خودساختہ مہذب دنیا کے کام پر جوں تک نہیں رینگتی ، کہ ان کے ریاستی مفادات ان سے وابستہ ہیں، جن سے وہ کسی بھی طور صرف نظر نہیں کر سکتیں۔
بھارت کی تاریخ دیکھیں تو یہ حقیقت واضح ہے کہ بعد از آزادی اول روز سے ہی، بھارت کی روش انتہا پسندانہ رہی ہے اور وہ ہر صورت بھارت کو کبھی بظاہر اور آج کل کھلے بندوں ہندو ریاست بنانے پر تلا ہے، اقلیتوں پر زندگی تنگ ہے اور اپنے پڑوسیوں کو بھی بہرطور بھارت کسی نہ کسی حوالے سے دبا میں رکھنا چاہتا ہے۔ سارک تنظیم کو غیر فعال کرنے میں بھی بہرطور بھارت کا واضح کردار رہا ہے کہ ایک ایسا پلیٹ فارم جہاں سے خطے میں ترقی و خوشحالی کا دور شروع ہو سکتا تھا مگر بھارتی بالا تری کے خبط نے اسے غیر موثر کر دیا۔ علاوہ ازیں! بھارت کو سب سے زیادہ مشکل اور الجھن پاکستان سے رہی ہے اور ہمیشہ اس کے خلاف معامدانہ سرگرمیاں ہی دیکھنے کو ملی ہیں، خواہ وہ کھیل کے میدان ہوں یا امن و امان کی صورتحال کو مخدوش کرنا ہو، سیاسی و سفارتی محاذ ہو یا معاشی بدحالی ہو، معاہدوں پر عمل درآمد ہو یا خلاف ورزی، بھارت کی ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ پاکستان کو دبا کر خطے کے دیگر ممالک کو بھی دبایا جائے۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے، بھارتی حکمران کسی بھی حد سے گزرنے کے لئے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں اور اپنے مذموم مقاصد کے حصول میں، اپنی ہی عوام کے قتل عام سے بھی نہیں چوکتے۔ ماضی میں ایسے کئی ایک واقعات کہیں یا جھوٹے آپریشن کہیں کہ جس میں بھارت نے اپنے ہی عوام کو اپنے مذموم مقاصد کی بھینٹ چڑھانے سے گریز نہیں کیا اور اس کا الزام، بغیر تحقیق و تفتیش، انتہائی عجلت میں پاکستان اور پاکستانی خفیہ ایجنسی اور فوج پر دھرا ہے لیکن ہر مرتبہ بھارت کو منہ کی کھانی پڑی ہے۔ گو کہ ممبئی آپریشن میں، پاکستانی حکومت کی جلد بازی نے بھارت کو عالمی برادری میں پاکستان کی جگ ہنسائی بلکہ دبائو بڑھانے کا موقع ضرور فراہم کیا، جس کی وجوہات بھی اب کوئی راز نہیں رہی کہ پس پردہ ذاتی مفادات کا حصول ہی تھا۔ بہرکیف یہ سمجھوتہ ایکسپریس کا دھماکہ رہا ہو یا سیاحوں پر 2018ء میں انتخابات سے قبل حملے رہے ہوں یا پلوامہ کا واقعہ، بھارت نے ہمیشہ عجلت میں پاکستان، پاکستانی ایجنسیوں اور خفیہ ایجنسیوں پر الزام دھرا مگر بعد ازاں حقائق اس کے برعکس نکلے لیکن عالمی برادری کا دہرا معیار ہمیشہ بھارت کی مدد کرتا رہا بعینہ جیسے اسرائیل کی پشت پناہی کی جاتی ہے۔
بھارت بطور ریاست جو ریاستی دہشت گردی، اقلیتوں پر کرتا ہے، وہ اپنی جگہ جبکہ پاکستان کو کسی بڑی واردات میں استعمال کرنے کا پس پردہ ہمیشہ کوئی مقصد رہتا ہے، گزشتہ دنوں پہلگام میں ہونے والے واقعہ پر نظر دوڑائیں، بھارتی ردعمل کو دیکھیں اور نو منتخب امریکی نائب صدر کے دورہ بھارت کو ملحوظ رکھیں تو اس امر کا قوی احتمال دکھائی دیتا ہے کہ بھارت اس واقعہ کے فوری بعد خود کو مظلوم ثابت کرنے کی کوشش کرے گا اور اس آڑ میں پاکستان پر جارحیت کا ارتکاب کرنے کے لئے پر تولے گا۔ اس جارحیت، اگر ہوتی ہے تو جس کے امکانات بہرکیف اس وقت بہت زیادہ دکھائی دے رہے ہیں، تو بھارتی نقطہ نظر سے کسی حد تک چین سے پڑنے والی مار کی خفت مٹانا ہو سکتی ہے، کہ امریکہ بھارت کو خطے میں چین کے مقابل لانا چاہتا ہے جبکہ بھارت چین سے بری طرح پٹ چکا ہے۔ گو کہ بھارت نے ہر ایسے واقعہ کے بعد، ایسا ہی رویہ رکھا ہے کہ وہ اس کا بدلہ پاکستان سے ہر صورت لے گا ور پاکستان کو خدانخواستہ نیست و نابود کر دے گا، خاکم بدہن، جس میں وہ تاحال کامیاب نہیں ہو پایا، اس کے پس پردہ، پاکستانی ایٹمی اہلیت تصور کریں یا عالمی حالات کا دبائو سمجھیں، معاملات انتہا تک نہیں پہنچے اور ہر مرتبہ حد کے اندر ہی رہے ہیں۔ گو کہ سابق پاکستانی آرمی چیف کے عزائم، بلکہ انہیں خوف کا نام ہی دیا جا سکتا ہے جو انہوں نے پاکستانی اہلیت کے حوالے سے ظاہر کرتے ہوئے جنگ سے منہ موڑا تھا، تاریخ انہیں کبھی بھی ایک جری و بہادر سپہ سالار کے طور پر یاد نہیں کریگی۔ تاہم موجودہ صورتحال کا بغور جائزہ لیں، عالمی حالات کے پس منظر میں عین ممکن ہے کہ بھارت کو مطلوبہ حمایت مل جائے اور بھارت اس سے فائدہ اٹھانے اور اپنی ماضی کی ہزیمت کو مٹانے کی کوشش کرے، تنائو کی موجودہ صورتحال میں اس سے صرف نظر نہیں کیا جا سکتا۔

جواب دیں

Back to top button