Column

لاہور میں دھرنے اور حکومتی خاموشی

تحریر : روہیل اکبر
لاہور پاکستان کا دل ہے اور لاہور کا دل مال روڈ ہے جہاں گورنر ہاس، وزیر اعلیٰ ہائوس، پنجاب اسمبلی، ہائیکورٹ، سٹیٹ بینک، واپڈا ہائوس، چڑیا گھر، فائیو سٹار ہوٹلز، الحمرا آرٹ کونسل سمیت بے شمار اہم مقامات ہیں اور یہ تاریخی مال روڈ کافی روز سے بند ہے، اسی طرح لاہور کی دوسری اہم اور خوبصورت جگہ شملہ پہاڑی ہے، جہاں پاکستان کا خوبصورت ترین پریس کلب ہے اور یہ دونوں مقامات احتجاجوں اور دھرنوں کی وجہ سے اکثر بند رہتے ہیں۔ میں نے کچھ عرصہ قبل فیصل چوک ( چیئرنگ کراس) کو دھرنا چوک کا نام دیا تھا، جہاں آئے روز دھرنے چلتے رہتے تھے، آج کل پھر ان دونوں مقامات پر دھرنوں کا تماشہ لگا ہوا ہے، اور دونوں طرف سے ذلیل و رسوا عوام ہی ہورہے ہیں، ان دھرنوں سے آج تک کسی حکمران کو کوئی فرق پڑا اور نہ ہی کسی بیوروکریٹ نے اس پر کوئی ایکشن لیا۔ ان حالات میں ایک عدلیہ ہی رہ جاتی ہے جو ہر مشکل وقت میں کھل کر سامنے آتی ہے۔ خواہ ماحولیات کا مسئلہ ہو یا سڑکوں پر لگائی جانے والی رکاوٹیں ہوں یا مال روڈ کو بند کرنے کا معاملہ ہو، یہ ہماری عدلیہ ہی ہے جس نے مال روڈ پر کسی بھی طرح کے احتجاج پر پابندی لگا رکھی ہے۔ عدالت کے احکامات پر عملدرآمد کرانا ضلعی انتظامیہ کا کام ہے، جو ابھی تک تو مکمل طور پر ناکام رہی ہے اور رہی بات حکومت کی اسے کوئی پروا ہی نہیں ہے کہ کوئی احتجاج کرے یا خود سوزی کر جائے، ان احتجاجی دھرنوں میں دونوں طرف سے نقصان عوام کا ہی ہو رہا ہے اور رہی بات مال روڈ کے کاروباری طبقہ کی، ان کی تو کمر ہی ٹوٹ چکی ہے۔ ان حالات کو دیکھ کر بعض اوقات تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت عوام کو ایک دوسرے کے خلاف کھڑا کیا جارہا ہے۔ مجھے وہ دن بھی یاد ہے جب مال روڈ ٹریڈرز ایسوسی ایشن نے اسی طرح کے دھرنوں سے تنگ آکر احتجاج کرنے والوں پر انڈوں کی بارش کردی تھی، اب پھر مال روڈ پر وہی صورتحال پیدا ہوتی جارہی ہے اور کاروباری طبقہ سمیت عام لوگ بھی ’’ نکونک‘‘ آچکے ہیں۔ ابھی تو محکمہ صحت والوں نے اپنے حقوق کے لیے مال روڈ کا گھیرائو کر رکھا ہے، اس احتجاجی دھرنے میں شامل خواتین اور مرد بھی پریشان ہیں کہ ان کے احتجاج کا کسی کی صحت پر کوئی اثر ہی نہیں پڑ رہا۔ الٹا دھرنے میں شامل لوگوں کو باتھ روم جانے سے لیکر کھانے پینے تک کے شدید مسائل کا سامنا ہے۔ احتجاج کرنے والے اگر اپنے مطالبات کا درست حل چاہتے ہیں تو وزیر اعلیٰ
کے گھر یا دفتر کے باہر دھرنا دیں، گورنر ہائوس کے
دروازے پر احتجاج کریں، چیف سیکرٹری کا راستہ روکیں تاکہ آپ کے مسائل کا حل تلاش کیا جائے یا پھر آپ کو سبق سکھایا جائے۔ ان جگہوں پر احتجاج کرنے سے فوری افاقہ ہوگا، اس کے علاوہ لاہور میں جس جگہ اور جہاں مرضی احتجاج کر لیں کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگے گی، لیکن عوام اور آپ دونوں رل جائیں گے، جیسا کہ ابھی ہورہا ہے، لاہور کی کوئی ایک اہم سڑک بند ہو جائے تو پورا لاہور تقریبا بند ہو جاتا ہے اور عام آدمی پریشانیوں کی دلدل میں پھنسنے کے ساتھ ساتھ عوام کی پریشانیوں میں اضافہ اور کاروباری طبقہ پس چکا ہے، جتنے دھرنے اور احتجاج لاہور میں ہوتے ہیں اتنے پنجاب کے کسی اور شہر میں نہیں ہوتے۔ لاہور جو کبھی باغوں، بہاروں، پھولوں اور زندہ دلوں کا شہر تھا جو اپنی تاریخی اہمیت، ثقافت اور معیشت کے حوالے سے جانا جاتا ہے۔ لیکن اب یہ شہر دھرنوں اور احتجاجوں کے حوالہ سے جانا جاتا ہے، جس کی وجہ سے عام شہریوں کی زندگی اجیرن بن گئی ہے اور کاروباری طبقہ شدید مشکلات کا شکار ہے، سڑکوں کی بندش اور رکاوٹوں کے باعث شہریوں کو اپنی روزمرہ کی زندگی میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ دفاتر، سکولوں اور کالجوں تک پہنچنا محال ہو گیا ہے، جس سے طلباء کی تعلیم اور ملازمین کے کام پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں، ایمرجنسی کی
صورت میں مریضوں کو ہسپتال منتقل کرنا بھی ایک بڑا چیلنج بن گیا ہے، ٹریفک جام معمول بن چکا ہے اور لوگوں کو گھنٹوں سڑکوں پر خوار ہونا پڑتا ہے۔ دوسری جانب دھرنوں اور احتجاجوں نے کاروباری سرگرمیوں کو بری طرح متاثر کیا ہے، تاجروں کو لاکھوں روپے کا نقصان ہو رہا ہے، بہت سے چھوٹے کاروبار تو دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ چکے ہیں، ان دھرنوں اور احتجاجوں کی وجہ سے شہر کا امن و امان بھی متاثر ہوا ہے۔ بعض اوقات مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپیں دیکھنے میں آتی ہیں ، جس سے خوف و ہراس کی فضا پھیل جاتی ہے، شہری اپنے گھروں سے نکلنے سے ڈرتے ہیں احتجاج کرنا ہر شہری کا حق ہے اور یہ بات انتہائی قابل افسوس ہے کہ اپنے مطالبات منوانے کے لیے اس حق کا استعمال اس طرح کریں کہ اپنے ہی جیسے لوگوں کی زندگی کو مفلوج کرکے ہم خوش ہوتے رہیں۔ اس حوالے سے حکومت اور متعلقہ اداروں کو اس صورتحال کا سنجیدگی سے نوٹس لینا چاہیے اور ایسے اقدامات کرنے چاہئیں، جس سے شہریوں کی مشکلات کم ہوں اور کاروباری سرگرمیاں معمول کے مطابق جاری رہ سکیں اور ضرورت اس امر کی بھی ہے کہ تمام فریقین افہام و تفہیم سے کام لیں اور مذاکرات کے ذریعے مسائل کا حل نکالیں، دھرنوں اور احتجاجوں کے متبادل طریقے تلاش کرنے کی ضرورت ہے تاکہ شہریوں کی زندگی اور کاروبار متاثر نہ ہوں۔ لاہور کے شہریوں اور کاروباری طبقے کو اس صورتحال سے نجات دلانے کے لیے فوری اور موثر اقدامات ناگزیر ہیں۔ اپریل 2021ء میں تحریک لبیک پاکستان کے احتجاج کے باعث لاہور کے 18مختلف مقامات پر دھرنے ہوئے تھے، جس سے ٹریفک سمیت عام آدمی کا نظام بھی درہم برہم ہو گیا تھا، لاہور ہی ایک واحد ایسا شہر ہے کہ جب کسی کا جہاں دل چاہے سڑک کے درمیان کھڑا ہوکر پوری سڑک بند کر دے اور اسے پوچھنے والا کوئی نہ ہو، اس لیے اگر احتجاج کرنے والے اپنے مطالبات کے حق میں کوئی فوری ایکشن چاہتے ہیں تو براہ مہربانی عام لوگوں کا راستہ بند کرنے کی بجائے حکمرانوں اور افسر شاہی کا راستہ بند کریں تاکہ آپ کو اس کا فوری طور پر کوئی نہ کوئی حل نظر آئے، اگر آپ نے خود بھی کھجل ہونا ہے اور ساتھ میں اپنے جیسے لوگوں کو بھی خراب کرنا ہے تو پھر بیٹھے رہیں۔ دھرنا چوک میں جہاں شامیانے بھی لگے ہوئے ہیں اور بجلی سے چلنے والے پنکھے بھی گھوم رہے ہیں، رہی بات لیٹرینوں کی اس کے لیے پوری کی پوری مال روڈ حاضر ہے، جہاں مرضی اور جیسے مرضی گند ڈالیں نہ پہلے کسی نے پوچھا نہ اب پوچھیں گے، اور پھر تھک ہار کر آپ خود ہی اپنے اپنے گھروں کو چلے جائیں گے۔ رہی بات مال روڈ کے تاجروں کی وہاں ابھی تک تو خیر صلا ہے کیونکہ تاجروں کے صدر سہیل بٹ صاحب بھی حکومت کی طرح فارم47والے ہیں۔ اس حوالے سے جاوید بشیر اور فاروق آزاد ہی ہمت کریں تو مال روڈ کی خوبصورتی اور کاروبار بحال ہوسکتا ہے۔

جواب دیں

Back to top button