جیلوں کی سیکیورٹی اور قیدیوں کی فراری

تحریر : امتیاز عاصی
ایک دور میں قیدیوں کی فراری معمول بن گیا تھا۔ انگریز دور کے بنائے گئے سیکورٹی نظام میں خاطر خواہ تبدیلیاں نہیں لائی گیں ہیں البتہ جیلوں کی بیرونی دیواروں جنہیں کوٹ موکا کہتے ہیں پر ٹاور بنانے سے قیدیوں کی فراری میں کافی حد تک رکاوٹ پیدا ہوئی ہے۔ پنجاب کی بعض جیلوں کی بیرونی دیواریں ابھی تک کچی ہیں تاہم برقی وار قیدیوں کے فرار ہونے میں بڑی رکاوٹ ہے۔ پرانے وقتوں میں جیل کے مین گیٹ پر ایک سنتری بندوق اٹھائے کھڑا ہوتا تھا اب تو مین گیٹ کے علاوہ مین گیٹ کے اوپر چھتوں اور کوٹ موکوں پر مسلح ملازمین دن رات متعین ہوتے ہیں۔ ماضی کے اوراق پلٹیں تو جیل ملازمین کے پاس اسلحہ ناپید ہوتا تھا آج کل کوت میں جدید اسلحہ موجود ہے اور نئے بھرتی ہونے والے ملازمین کے لئے ٹریننگ کا خاطر خواہ انتظام ہے۔ تعجب ہے وقت گزرنے کی ساتھ قیدیوں نے فرار ہونے کے لئے نت نئے طریقہ اپنا لئے ہیں۔ کئی عشرے پہلے جیلوں سے قیدی سرنگ لگا کر فراری اختیار کر لیتے تھے فراری کے دوران بعض قیدیوں کی ہلاکتیں واقع ہو جاتی تھیں۔ جیلوں میں قید و بند کی صعوبتوں بارے اللہ کے نبی حضرت یوسف ٌ نے ویسے تو نہیں کہا تھا جیل خانہ جہنم کا ٹکڑا ہے۔ پرانے اور موجودہ دور کی جیلوں میں دستیاب سہولتوں کا موازنہ کریں تو موجودہ دور میں قیدیوں کے لئے کھانے پینے کے لئے مناسب سہولتیں پینے کے صاف پانی کے لئے خاصی تعداد میں بور ہیں ورنہ بہت سی جیلوں میں قیدی پانی نتھار کر پیا کرتے تھے۔ وقت گزرنے کے ساتھ جیل حکام نے اس مقصد کے لئے این جی اوز اور مخیر حضرات کی خدمات سے استفادہ شروع کر دیا جن کے تعاون سے قیدیوں کے لئے پینے کے بور بنانے شروع کر دیئے جس سے کم از کم قیدیوں کا پینے کے پانی کا مسئلہ ہمیشہ کے لئے حل ہو گیا ہے۔ میرے کالم کا موضوع جیلوں میں سیکورٹی کے انتظامات اور قیدیوں کی فراری سے متعلق ہے لہذا قارئین کو ماضی میں جیلوں سے فراری کے چند واقعات بارے بتانے کی کوشش کرتا ہوں۔ پرانے وقتوں میں جیل کی بیرونی دیوار کے ساتھ جیل ملازمین کے ساتھ لمبی قید والے قیدیوں کو بھی مشقت کے لئی لگایا جاتا
تھا۔1978ء کا واقعہ ہے ڈسٹرکٹ جیل فیصل آباد میں قیدیوں کو مونج کوٹنے کی مشقت دی گئی۔ قیدیوں نے رات کو مونج کو پانی لگادیا انچارج باہر گیا تو انہوں نے مونج جو نرم ہو چکی تھی سے زینے کا کام لیا گیا اس طرح چند قیدیوں نے کوٹ موکے کی دیوار پھلانگ کر فراری کی۔ 1980ء میں سینٹرل جیل فیصل آباد میں مقید خالصتان تحریک میں گرفتار سکھوں نے چارپائیوں سے سیٹرھی بنا کر جیل کی مرکزی دیوار سے فراری اختیار کی۔ میاں ناصر وڑائچ ان دنوں ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ تھے جو بعد ازاں ترقی پاتے ڈی آئی جی کے عہدے سے ریٹائر ہوئے۔ اسی سال سنٹرل جیل فیصل آباد سے وارڈر رفیق شاہ نے دو ڈبیاں سگریٹ کے عوض جیل کے برج سے تین قیدیوں کو فرار کرا دیا۔ چند سال قبل اسی جیل سے سزائے موت کا قیدی جیل ملازمین کی وردی پہن کر جیل کئے مرکزی گیٹ سے فرار ہو گیا تھا۔ ان دنوں قاضی اسلم ہاشمی سپرنٹنڈنٹ جیل تھے جو آج کل ڈی آئی جی ہیں۔ کئی سال پہلے سنٹرل جیل ملتان سے بنک ڈکیتوں میں ملوث سعادت بلوچ فرار ہو گیا تھا۔ یہ وہ دور تھا جب مین گیٹ پر سنتری کے پاس مسقط چار سو دس ہوا کرتی تھی۔ سعادت بلوچ سے ملاقات کرنے والوں نے سنتری کی آنکھوں میں مرچیں ڈال کر سعادت بلوچ کو فرار کر ا لیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ قیدیوں کو ڈھیوڑی تک جانے میں رسائی نہیں ہے۔ دور حاضر میں کوئی قیدی خواہ وہ کسی جرم میں جیل آیا ہو وہ ڈھیوڑی تک آنے کا سوچ نہیں سکتا ۔بیرک سے ڈھیوڑی تک جانے کے لئے اسے کئی بیرئیر عبور کرنا ہوتے ہیں۔ بعض جیلیں ابھی کچی ہیں کئی عشرے پہلے کا واقعہ ہے ڈسٹرکٹ جیل گجرات سے سزائے موت کے قیدیوں نے سرنگ لگا کر فراری کی۔ پنجاب کی جیلوں میں فراری کا یہ منفرد واقعہ ہے جس میں قیدیوں نے سزائے موت سے کوٹ موکا کی دیوار تک سرنگ لگاکر فراری کی لیکن جیل حکام کو اس کی خبر ہونے پر کچھ قیدی فرار نہیں ہو سکے جو فرار ہوئے بعد ازاں گرفتار کر لئے گے جنہیں دوسری جیلوں میں بھیج دیا گیا تھا۔ اسی نوع کا ایک اور واقعہ کیمپ جیل لاہور میں ہوا قیدی داڑی صاف کرکے عینک لگا کر پولیس کے اے ایس آئی کی وردی پہن کر فرار ہو گیا تھا میاں ناصر وڑائچ نے اسی روز ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ کا چارج سنبھالا تھا۔ یوں توقیدیوں حوالاتیوں کی عدالتوں میں پیشی کے موقع پر فراری کے بہت سے واقعات ہیں جنہیں قلمبند کرنا شروع کریں تو کئی کالم لکھے جا سکتے ہیں۔ چند سال پہلے سنٹرل جیل راولپنڈی کا مشہور واقعہ ہے سابق اٹارنی جنرل سردار خان جو سابق چیف جسٹس افتخار چودھری کے قریبی دوست تھے کے قتل میں ملوث روح اللہ نامی ملزم طبی بنیادوں پر جیل سے باہر کر فرار ہو گیا تھا جس کا آج تک پتہ نہیں لگ سکا ۔ چیف جسٹس افتخار چودھری نے اسلام آباد کے حکام سے ملزم کی گرفتاری کے لئے خاصا سخت رویہ اختیار کرنے کے باوجود روح اللہ کی گرفتاری عمل میں نہیں لائی جا سکی۔ اسلام آباد پولیس کا ایک ہی موقف تھا ملزم افغانستان فرار ہو چکا ہے۔ ڈسٹرکٹ جیل شیخوپورہ سے ایک قیدی کوڑاکرکٹ کی بوری میں چھپ کر فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا تھا۔ دو ماہ پہلے کی بات ہے سینٹرل جیل راولپنڈی سے منشیات کا قیدی جیل میں تعمیراتی کام کرنے والے مزدوروں کے ساتھ فرار ہو گیا تھا۔ ڈیرہ غازی خان جیل سے کئی سال پہلے سپاہ صحابہ کے لوگ فرار ہو گئے تھے جس کی پاداش میں حسنین نقوی سپرنٹنڈنٹ کو گرفتار کر لیا گیا تھا جو گرفتاری کے دوران خالق حقیقی سے جا ملے تھے۔ حسنین نقوی سے ہماری بھی یاد اللہ تھی وہ راولپنڈی کی پرانی ڈسٹرکٹ جیل میں ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ تھے میرا آنا جانا سید سبط حسن نقوی کے پاس لگا رہتا تھا۔ سید سبط حسن نقوی بہت ملنسار اور انسان دوست تھے۔ سینٹرل جیل کوٹ لکھپت جیل میں تعینات ہوئے تو واک کے دوران انہیں قتل کر دیا گیا تھا۔





