پانی اور سرحد ہماری بقا ہے

تحریر : تجمل حسین ہاشمی
سندھ طاس معاہدہ پاکستان اور بھارت کے درمیان پانی کی تقسیم کا ایک تاریخی اور اہم معاہدہ ہے جو 1960ء میں عالمی بینک کی نگرانی میں طے پایا۔ اس معاہدے کے تحت تین مغربی دریا سندھ، جہلم اور چناب پاکستان کے حوالے کیے گئے اور ان دریائوں کے پانی پر پاکستان کا حق تسلیم کیا گیا ، جبکہ مشرقی دریا راوی، بیاس اور ستلج بھارت کے سپرد کیے گئے۔ وہ پانی ذخیرہ کرنے یا اس کے بہائو کو محدود کرنے کا مجاز نہیں ۔ بھارت کی طرف سے معاہدے میں اصل مشکلات پیدا ہوئیں جب بھارت نے مغربی دریائوں پر پن بجلی کے منصوبے شروع کیے ، جن پر پاکستان نے خدشات کا اظہار کیا کہ یہ اقدامات پانی کے قدرتی بہائو میں رکاوٹ پیدا کر سکتے ہیں، جو زراعت، معیشت اور لاکھوں انسانوں کی زندگی کو متاثر کرے گا۔ بھارت نے کئی بار پاکستان کے لیے مشکلات پیدا کی ہیں ۔ پاکستان نے ایک ذمہ دار ریاست کے ساتھ ایک اچھے پڑوسی کا برتائو رکھا اور ان اختلافات کو انٹر نیشنل فورم پر حل کرنے کیلئے ذمہ د داری کا مظاہرہ کرتا رہا۔ سلال ڈیم کا تنازع 1978ء میں ماہرین کی سطح پر حل کیا گیا، بگلیہار ڈیم کا معاملہ عالمی بینک کے مقرر کردہ ثالث کے ذریعے 2007ء میں سلجھایا گیا اور کشن گنگا پراجیکٹ کا تنازع 2013ء میں عالمی ثالثی عدالت کے فیصلے سے حل ہوا۔ ان تمام تنازعات میں سندھ طاس کمیشن کا کردار انتہائی اہم رہا ہے، جہاں دونوں ممالک کے تکنیکی ماہرین اور انجینئرز ملاقات کرتے ہیں اور سیاسی فضا سے ہٹ کر تکنیکی بنیادوں پر بات چیت کرتے ہیں۔ بی بی سی رپورٹ کے مطابق بھارتی صحافی گارگی پرسائی کے مطابق اگر ہر معاملے کو براہ راست حکومتوں تک لے جایا جائے تو وہ سیاسی رنگ اختیار کر لیتا ہے، اس لیے بہتر یہی ہے کہ تکنیکی مسائل کو ماہرین کی سطح پر ہی نمٹایا جائے۔ وہ یہ بھی کہتی ہیں کہ کئی افراد جو اس معاہدے کی گہرائی کو نہیں سمجھتے، وہ اسے بھارت کے لیے نقصان دہ سمجھتے ہیں حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ان دریاں کی فطری روانی پاکستان کی جانب ہے، اور چاہ کر بھی ان کا رخ موڑا نہیں جا سکتا، اس لیے اس معاہدے کو ماہرین کی بصیرت اور قدرتی حقائق کے مطابق ہی طے کیا گیا تھا۔ سنگاپور نیشنل یونیورسٹی سے وابستہ پروفیسر امت رنجن لکھتے ہیں کہ ویانا کنونشن اگرچہ معاہدوں کے خاتمے کی کچھ گنجائش فراہم کرتا ہے، لیکن سندھ طاس معاہدے پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا، اور نہ ہی دنوں میں سے کوئی بھی اسے یکطرفہ طور پر ختم کر سکتا ہے۔ پاکستان کے لیے یہ معاہدہ محض ایک قانونی کاغذ نہیں بلکہ زندگی کا سرچشمہ ہے، کیونکہ ان دریاں کے پانی پر پاکستان کی زراعت، خوراک، معیشت اور کروڑوں انسانوں کا انحصار ہے، اس لیے اس معاہدے کا تحفظ پاکستان کی بقاء اور خودمختاری کا حصہ ہے۔
مسلم لیگ ن کے سینئر رہنما خواجہ سعد رفیق کا کہنا ہے کہ بھارتی قیادت ہوش کے ناخن لے، بھارتی اقدامات غیر دانشمندانہ ہیں۔ ایک بیان میں سعد رفیق نے کہا کہ سندھ طاس معاہدے میں واضح لکھا ہے کہ کوئی فریق یکطرفہ طور پر معاہدہ منسوخ نہیں کر سکتا۔ قوم اپنی ملکی قیادت کے ساتھ کھڑی ہے۔ طاس معاہدہ قوم کی بقا ہے اس پر کو کمپرومائز نہیں کیا جائے گا ، قدرت کا نظام ہے کہ ان دریائوں کے پانی کے بہائو کا رخ ہی ہماری طرف ہے اگر خدائی نظام کے خلاف کام ہو گا تو پھر بھارت اس کا ذمہ دار ہو گا۔ پاکستانی قوم اپنی دفاع کیلئے متحد ہے، اپنے ملک کیلئے قربانی کیلئے تیار ہے۔ بھارت میں وہاں کی اقلیتوں کے خلاف پر تشدد واقعات پوری دنیا کے سامنے ہیں، دنیا اس بات کو تسلیم کر چکی ہے کہ بھارت ایک فاشسٹ سٹیٹ بن چکا ہے، تقسیم ہند کے بعد سے پاکستان مخالف ایجنڈے پر کام کر رہا ہے، اس کے کئی ثبوت دنیا کے حوالے کئے گئے ہیں۔ اب ایک بار پھر بھارت کی طرف سے سندھ طاس معاہدہ کو معطل کر کے یہ ثابت کر رہا کہ یہ ایک غیر ذمہ دار ریاست ہے، اس کے عزائم پڑوسی ممالک کیلئے خطرہ ہیں ، بھارت کا غیر ذمہ دار عمل دنیا کیلئے خطرہ کا باعث ہے ، بھارت ایک ایٹمی ریاست ہے اور اس کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہو گا اور انٹر نیشنل معاہدوں کی پاسداری کرنی لازم ہو گی۔ مقبوضہ کشمیر کے معاملہ پر اپنی ہٹ دھرمی پر اترا ہوا ہے، کشمیری اپنی آزادی کے لیے قربانیاں دے رہے ہیں لیکن مودی حکومت کو اس کی کوئی پرواہ نہیں وہ مسلسل انسانی حقوق کو پامال کر رہی ہے ، سندھ طاس معاہدہ کو ختم کر کے ثابت کیا ہے کہ بھارت غیر ذمہ دار ریاست ہے، پاکستان دنیا کے ساتھ کئے گے معاہدوں کی پاسداری کرتا ہے کیوں پاکستان ایک ذمہ دار ملک ہے، بھارت اپنے معاہدوں کی عمل داری کو یقینی بنائے۔ دنیا اپنا دبائو استعمال بڑھ کر دنیا کو محفوظ بنائے۔ بھارت دنیا کو ایک نئی جنگ کی طرف لے کر جا رہا ہے جو کہ ایک تشویش ناک عمل ہے۔ پاکستان امن پسند ریاست ہے لیکن اپنے ریاستی حقوق کیلئے ہر فورم استعمال کرنا کا حق رکھتا ہے۔





