قومی وجود کی کشمکش زوال کے دہانے پر کھڑا پاکستان

تحریر :آصف علی درانی
قومیں ہمیشہ بیرونی حملوں سے نہیں مرتیں، بعض اوقات وہ اندر سے تحلیل ہو جاتی ہیں، خاموشی سے، مگر یقینی طور پر آج پاکستان جس بحرانِ کلی میں مبتلا ہے، وہ صرف معیشت، سیاست یا عدلیہ کا بحران نہیں، یہ ایک ہمہ جہت قومی زوال کی صورت گری ہے، جہاں ہر ادارہ، ہر طبقہ، اور ہر فرد اپنی اجتماعی ذمہ داری سے منہ موڑے کھڑا ہے۔ بظاہر یہ بحران حالیہ سیاسی غیر یقینی، معاشی بدحالی اور سماجی انتشار کا نتیجہ معلوم ہوتا ہے، مگر حقیقت اس سے کہیں زیادہ گہری، تلخ اور عبرت خیز ہے۔
یہ بات محض جذباتی نہیں بلکہ منطقی اور مشاہدے کی بنیاد پر کہی جا سکتی ہے کہ ہم ایک ایسی ریاست میں زندہ ہیں جہاں ادارے اپنی افادیت کھو چکے ہیں، اور اصولوں کی جگہ مصلحتوں نے لے لی ہے۔ حکمرانی کا تصور اب خدمتِ خلق نہیں بلکہ مفاد پرستی اور اقتدار کی رسہ کشی میں ڈھل چکا ہے۔ ایک ایسا سماج جس میں میرٹ کی جگہ تعلق داری، انصاف کی جگہ طاقت، اور دیانت کی جگہ چالاکی کو کامیابی کی ضمانت سمجھا جائے، وہاں اگر زوال نہ آتا تو تعجب ہوتا۔۔۔
پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر نظر ڈالیں تو ایک مسلسل شور اور ہنگامہ خیزی نظر آتی ہے، جس کا مقصد اصلاح یا بہتری نہیں بلکہ مخالف کو نیچا دکھانے اور عوام کو گمراہ رکھنے کا عمل ہے۔ ہمارے ہاں سیاست اب مسئلہ حل کرنے کا ذریعہ نہیں بلکہ خود ایک سنگین مسئلہ بن چکی ہے۔ حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف، دونوں ایک دوسرے کو نیست و نابود کرنے پر تلی ہوئی ہیں، گویا دشمن کی بجائے ایک دوسرے کو اصل خطرہ سمجھا جا رہا ہو۔ قومی مفاد، ملکی سلامتی، تعلیمی اصلاحات، عدالتی آزادی اور معاشی استحکام جیسے الفاظ فقط بیانیوں میں زندہ ہیں، عملی میدان میں ان کا کوئی پرسان حال نہیں۔
معیشت کی زبوں حالی کوئی حادثہ نہیں بلکہ غلط پالیسیوں، بدانتظامی، اور ادارہ جاتی کرپشن کا منطقی نتیجہ ہے۔ ہم نے بجٹ سازی کو ایک حسابی مشق سمجھ لیا ہے، جس میں اصل معیشت کا عکس دور دور تک دکھائی نہیں دیتا۔ ہر حکومت دعویٰ کرتی ہے کہ وہ معیشت کو سنوارنے آئی ہے، مگر زمینی حقائق ہمیشہ اس کے برعکس گواہی دیتے ہیں۔ جب ریاست اپنی آمدنی سے زیادہ خرچ کرتی ہے، جب سرمایہ کاری سے زیادہ بیرونی قرضہ لیا جاتا ہے، جب برآمدات سے زیادہ درآمدات پر انحصار ہوتا ہے، اور جب عوام کی فلاح سے زیادہ اشرافیہ کی عیاشی پر توجہ دی جاتی ہے، تو معیشت تباہی کا شکار ہی ہو گی۔
یہ صرف حکمرانوں کی غلطیوں کی داستان نہیں، بلکہ قوم کے اجتماعی فکری زوال کا آئینہ ہے۔ ہم نے بطور قوم اپنا علمی، اخلاقی، اور تہذیبی سرمایہ خود اپنے ہاتھوں سے ضائع کیا ہے۔ ہم نے اپنے تعلیمی اداروں کو وہ کردار ادا کرنے سے روک دیا جو کسی بھی قوم کی فکری رہنمائی کا ذریعہ ہوتا ہے۔ آج تعلیمی ادارے ڈگریاں بانٹنے کی مشینیں بن چکے ہیں۔ وہاں نہ مطالعہ باقی ہے، نہ مکالمہ، نہ تحقیق، نہ تدبر۔ قومیں جب علم سے منہ موڑتی ہیں، تو وہ کبھی ترقی کے راستے پر گامزن نہیں رہ سکتیں، چاہے کتنا ہی جی ڈی پی کا ہندسہ بڑھا لیں۔
افسوسناک امر یہ ہی کہ جو قوم اسلامی نظریہ حیات کی بنیاد پر وجود میں آئی تھی، وہ آج مغربی ماڈلز کو ترقی کا معیار سمجھنے لگی ہے، بغیر یہ سمجھے کہ مغرب نے بھی اپنی تہذیبی، علمی اور فکری بنیادوں پر ترقی کی ہے، نہ کہ نقالی سے۔ ہم نے اپنی فکری بنیادوں کو مٹا کر ایک ایسا خلا پیدا کر دیا ہے جو صرف الجھن، کنفیوژن اور بے سمتی کو جنم دیتا ہے۔ نہ ہم مغرب جیسے ہو سکے، نہ مشرق جیسے رہ پائے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ آج ہم نہ صرف ترقی کے میدان میں پیچھے ہیں، بلکہ تہذیبی شناخت کے بحران میں بھی مبتلا ہیں۔
مذہبی طبقات کا کردار بھی زیرِ بحث آنا چاہیے۔ دین کو محض عبادات تک محدود کر دینا، اور سماجی عدل، سیاسی دیانت، اور اخلاقی تطہیر سے الگ کر دینا، ایک بہت بڑی فکری غلطی ہے۔ دین ایک مکمل ضابط حیات ہے، مگر ہم نے اسے یا تو سیاست میں استعمال کیا یا معاشرت میں نظر انداز کر دیا۔ ہمارے مدارس اور مساجد فکری رہنمائی کے بجائے بعض اوقات فرقہ وارانہ تعصبات کو فروغ دیتے نظر آتے ہیں۔ ہمیں اس حقیقت کا ادراک کرنا ہو گا کہ جب تک مذہب کو اپنے اصل، جامع اور ہمہ گیر فکری دائرے میں واپس نہیں لایا جائے گا، ہم فکری وحدت حاصل نہیں کر سکیں گے۔
اس تمام منظرنامے میں سب سے زیادہ خطرناک خاموشی ان لوگوں کی ہے جنہیں قوم کا دماغ ہونا چاہیے تھا۔ ہمارے دانشور، مفکر، اور استاد یا تو بیرون ملک جا چکے ہیں، یا اندرون ملک خوف، مایوسی یا بے حسی کا شکار ہو چکے ہیں۔ یہ ایک فکری خودکشی ہے جس کے اثرات آنے والی نسلوں تک منتقل ہوں گے۔ ہمیں سوچنا ہو گا کہ کیا ہم وہ قوم ہیں جس کا تصور اقبال نے کیا تھا؟ کیا ہم اس مقصد کو حاصل کر پائے جس کے لیے لاکھوں جانوں کی قربانی دی گئی تھی؟؟؟
تاریخ میں وہی قومیں زندہ رہتی ہیں جو اپنی غلطیوں سے سیکھتی ہیں، خود احتسابی کرتی ہیں، اور اپنی تہذیبی شناخت کو شعوری طور پر زندہ رکھتی ہیں۔ آج اگر ہم نے سنجیدگی سے اس فکری، اخلاقی اور ادارہ جاتی بحران کا سامنا نہ کیا، تو وقت ہمیں وہ سزا دے گا جو تاریخ ان قوموں کو دیتی ہے جو اپنی بنیادوں سے غافل ہو جائیں۔
آج ہمیں ایک فکری انقلاب کی ضرورت ہے۔ ایسا انقلاب جو تعلیمی اداروں سے شروع ہو، مساجد میں گونجے، ذرائع ابلاغ میں سنجیدگی کے ساتھ ابھرے، اور ہر فرد کو اس کے نظریاتی مقام کا شعور دے۔ صرف اسی صورت میں ہم اس زوال کو روک سکتے ہیں، اور پاکستان کو ایک فکری، اخلاقی اور تہذیبی قیادت کی طرف واپس لا سکتے ہیں۔
اگر آج بھی ہم نے آنکھیں نہ کھولیں، تو ممکن ہے آنے والی نسلیں ہمیں ایک ’’ امید‘‘ کے طور پر نہیں، بلکہ ’’ عبرت‘‘ کے طور پر یاد رکھیں۔





