Column

ایک پول اور کھل گیا

سیدہ عنبرین
معاملہ تو بے عزتی کا ہے اگر کوئی سمجھے تو جب گھر میں جس بچے کی باپ کے ہاتھوں زیادہ مرمت ہوتی ہے وہ ماں کا لاڈلا بن جاتا ہے، جس کی ہر گھر سے شکایت آئے ماں اس بچے کی بڑھ چڑھ کر صفائیاں پیش کرتی ہے۔ مشرقی معاشرے میں اسے ممتا کہتے ہیں، بچہ ہر اچھا یا برا کام اپنے گھر سے سیکھتا ہے، اس کے راہنما دو ہی ہوتے ہیں، گھر کے بڑے یا ارد گرد کا ماحول، ماں یا باپ میں کوئی ایک بچے کے سر پر موجود نہ ہو تو اس کی زندگی میں ایسا خلاء رہ جاتا ہے جسے کوئی پُر نہیں کر سکتا۔
ہماری سرکار بھی ایسا ہی بچہ ہے، باپ تو موجود ہے ماں نہیں، کس نے جنا اور کیوں کہاں لا پھینکا یہ سب جانتے ہیں۔ اس بچے کی عجیب حالت ہے جو دعویٰ کرتا ہے پانچویں دن سر بازار پٹ جاتا ہے، بتا رہا تھا اور خوشی سے جھوم رہا تھا کہ ماہ مارچ میں ریکارڈ ترسیلات زر کا سیلاب آیا ہے، 4ارب ایک کروڑ ڈالر ملک میں آئے ہیں، جس کی بنیاد پر رواں برس کا تخمینہ 36ارب ڈالر سے بڑھا کر 38ارب کر دیا گیا ہے، ساتھ ہی سٹیٹ بینک کے گورنر نے بری خبر سنا دی کہ مہنگائی بڑھ سکتی ہے، گویا ڈالروں کی برسات ہو تو عام آدمی کی زندگی میں ویرانی رہے گی، ڈالر کا کال پڑ جائے تو دو وقت کی روٹی کے لالے پڑے رہتے ہیں حکومت میں شامل اشرافیہ کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ بیوروکریسی، ممبران اسمبلی اور لاکھوں روپے ماہانہ تنخواہ و پنشن پانے والوں کی مراعات میں دل کھول کر اضافہ کیا جاتا ہے، بعض ادارے تو ایسے خود مختار ہیں جو اپنے ملازمین کی تنخواہ میں خود اضافہ کر لیتے ہیں، سرکار اسے من و عن تسلیم کر لیتی ہے جبکہ عام آدمی کو سالانہ بجٹ اور آئی ایم ایف کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔
ریکارڈ توڑ ترسیلات زر کا بھانڈا ایک ماہ کے اندر ہی پھوٹ گیا، جس اضافی رقم کا ڈھنڈورا ہے وہ سمندر پاکستانیوں نے اپنے والدین عزیز و اقارب کو اس لئے بھیجی تھی کہ وہ فریضہ حج ادا کر سکیں۔ ماہ رمضان کے بعد شادیوں کا سیزن ہوتا ہے، سمندر پار پاکستانی اپنے بہن بھائیوں کے اس فرض کی ادائیگی میں والدین کا ہاتھ بٹاتے ہیں اور کچھ زیادہ رقوم بھیجتے ہیں، حاجیوں کیلئے آئے ڈالروں اور ملک کے اندر اس حوالے سے جمع کی گئی رقوم کے ساتھ کیا کیا گیا افسوس ناک ہے، ملک بھر میں 67ہزار افراد سراپا احتجاج ہیں۔ سرکار آئیں بائیں شائیں کرتی نظر آئی، پانی سر سے گزر گیا تو پرائیویٹ حج ٹور آپریٹرز کے نمائندوں نے پریس کانفرنس کی اور حکومتی کارکردگی کھول کر رکھ دی۔ انہوں نے وزارت مذہبی امور حج کا انتظام کرنے والوں، سمندر پار پاکستانیوں کی وزارت اور وزارت خارجہ کی کارکردگی سامنے رکھی، تمام کو اس کارکردگی پر پاکستان کا اعلیٰ ترین اعزاز نہ سہی تو کم از کم تمغہ حسن کارکردگی تو ضرور ملنا چاہئے۔ پرائیویٹ ٹور آپریٹرز کے نمائندوں کے مطابق سعودی حکومت نے بہت پہلے اس معاملے میں اپنے وژن 2030ء کا اعلان کر دیا کہ وہ حجاج کرام کی تعداد 10ملین تک لے جانے کا ارادہ رکھتے ہیں، اس حوالے سے تمام انتظامات کی تفصیلات بھی دے دی گئیں۔ گزشتہ برس 25لاکھ افراد نے یہ سعادت حاصل کی۔ پاکستان کا جاری برس کا کوٹہ ایک لاکھ 80ہزار کے قریب تھا جس میں نصف حکومت اور نصف پرائیویٹ سیکٹر کو دیا گیا لیکن حکومت پاکستان نے پرائیویٹ سیکٹر کے ہاتھ باندھے رکھے، حجاج کی تفصیلات بائیو ڈیٹا پہنچانے کی آخری تاریخ 12فروری تھی، حکومت اپنے کوٹے کے حجاج کی تفصیلات ارسال کرتی رہی، پرائیویٹ سیکٹر کو رکھا لیکن انہیں 3لاکھ ڈالر روزانہ کے حساب سے ڈالر بھیجنے کی اجازت دی۔ پاکستان سے 2ارب 68کروڑ ریال یعنی 36ارب روپے بھجوا دیئے گئے۔ یہ رقم بذریعہ سٹیٹ بینک پہلے حج مشن پھر سعودی حکومت کو ٹرانسفر ہوئی۔ حکومت نے اپنا کام نومبر سے شروع کر دیا جبکہ پرائیویٹ سیکٹر کو مارچ میں اجازت دی اور پھر ہفتے میں صرف 4دن روپیہ سعودی عرب ارسال کی اجازت دی جبکہ سعودی عرب نے اپنی ڈیڈ لائن کے مطابق 14فروری کو اپنا سب کچھ پہلے سے بتائے گئے شیڈول کے مطابق کلوز کر دیا۔ یوں پرائیویٹ حج آپریٹرز کے کوٹہ کے 67ہزار افراد کا ڈیٹا سعودی عرب منتقل ہونے سے رہ گیا ان کے ویزے نہ لگ سکے جبکہ یہ افراد ایئر لائن کی ٹکٹوں کی رقم ادا کر چکے ہیں اور ٹکٹیں خرید چکے ہیں۔ اس مد میں 11ارب 50کروڑ روپے دیئے گئے، ایف بی آر کو 11ارب اور 17ہزار روپے فی حاجی کے حساب سے ایک ارب 58کروڑ روپے ادا کر دیئے گئے جو حجاج کی حفاظت کے نام پر ایک اور ٹیکس کی مدد میں ہیں، اربوں ڈالر اپنے پاس روکے رکھنے کی وجہ صاف ظاہر ہے کہ حکومت اس کا فائدہ اٹھانا چاہتی تھی، لہٰذا پرائیویٹ حج آپریٹرز کو فقط چند لاکھ ڈالر روزانہ سے زیادہ سعودی عرب بھیجنے کی اجازت نہ دی گئی اور نہ ہی ان کا ڈیٹا بروقت بھجوایا جا سکا۔ اب اعلیٰ سطح پر آنیاں جانیاں شروع ہیں جبکہ حج آپریٹرز نمائندوں کا کہنا ہے کہ یہ معاملہ صرف وزیراعظم، آرمی چیف اور جناب محمد بن سلمان ہی حل کر سکتے ہیں، اس سے نچلی سطح پر یہ کام نہیں ہو سکے گا۔
سعودی حکام کا موقف جاندار اور حقیقت پر مبنی ہے کہ جب انہیں حجاج کرام کی تعداد کا فائنل ڈیٹا ملے گا تو جب ہی وہ ان کے ویزے جاری کر سکتے ہیں پھر اس کے بعد انہوں نے لاکھوں افراد کی رہائش، خوراک اور ٹرانسپورٹ کے انتظامات کرنے ہوتے ہیں، ہزاروں افراد کا ڈیٹا موصول ہی نہ ہو اور وقت گزر جانے کے بعد اس معاملے میں رعایت مانگی جائے تو خود سمجھ لیجئے یہ کس قدر آسان یا مشکل کام ہے۔ عازمین حج اور حجاج کے نمائندے چاہتے ہیں کہ انہیں ہر صورت سعودی عرب پہنچایا جائے، فرض کیجئے ایسا ممکن نہ ہوا تو پھر دو ہی صورتیں ہوں گی کہ وہ تمام مرد و زن جو اس مرتبہ حج کی سعادت حاصل نہیں کر سکے انہیں اسی رقم کے عوض آئندہ برس حج پر روانہ کیا جائے۔ دوسری آپشن یہ دی جا سکتی ہے کہ بعد از حج ان کی رقم واپس کر دی جائے۔ حکومت نے پاکستان میں سعودی سفیر سے خصوصی درخواست کی ہے کہ وہ اس معاملے میں اس مسئلے کو حل کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔
لیکن اگر ارسال کردہ رقوم سے ہوٹلز کی بکنگ ہو چکی ہے، ٹرانسپورٹ کا انتظام ہو چکا ہے، انہیں ایڈوانس ادائیگیاں کر کے پابند کیا جا چکا ہے تو پھر یہ رقوم واپس کس طرح ہوں گئیں اس کا جواب فی الحال حکومت کے کسی ذمہ دار یا کسی ترجمان کے پاس نہیں، ہر طرف خاموشی ہے۔ سب کو دعا کرنے کا کہا جا رہا ہے، آخر میں جو لوگ یہ سعادت حاصل نہ کر سکیں گے انہیں یہ کہہ کر مطمئن کرنے کی کوششیں کی جائے گی کہ آپ کو دو اقدس سے بلاوا ہی نہیں تھا، ہم اس حوالے سے کیا کر سکتے تھے، نالائقی اور نااہلی کا مظاہرہ کرنے والوں کو سزا کا رواج نظر نہیں آتا وہ جزا ہی پاتے دیکھے گئے۔

جواب دیں

Back to top button