Column

گلگت بلتستان کے عوام صبر کے آخری کنارے پر کھڑے ہیں؟

تحریر : یاسر دانیال صابری
گلگت بلتستان ایک ایسا خطہ ہے جو قدرتی حسن، جغرافیائی اہمیت اور معدنی دولت سے مالا مال ہونے کے باوجود آج بھی شناخت، حقوق، ترقی اور انصاف کے لیے ترس رہا ہے۔ پہاڑوں کے سائے میں بسنے والے ان سادہ دل، محنتی اور غیرت مند لوگوں کے دل میں صدیوں سے ایک ہی خواب پلتا رہا ہے: وہ خواب جو اپنے وطن میں خودمختاری، عزت، اور ترقی کی صورت میں تعبیر چاہتا ہے۔ مگر افسوس کہ ان کے خواب بار بار ٹوٹتے رہے، ان کی آواز بار بار دبا دی گئی، اور ان کے وسائل ان سے چھین کر کبھی ریاست، کبھی ادارے، اور کبھی مفاد پرست سیاسی ٹولے اپنی تجوریاں بھرنے کے لیے استعمال کرتے رہے۔
قدرت نے گلگت بلتستان کو وہ کچھ عطا کیا ہے جس کی تمنا دنیا کی طاقتور ترین اقوام کرتی ہیں۔ بلند ترین پہاڑی سلسلے، بے شمار گلیشیئرز، بہتے دریا، زرخیز زمینیں، قیمتی معدنیات، اور سب سے بڑھ کر ایک غیرت مند، جفا کش اور زندہ دل قوم۔ مگر یہ خطہ جو پاکستان کے لیے ایک قدرتی قلعہ کی حیثیت رکھتا ہے، ہمیشہ بے اختیار، بے شناخت، اور بے زبان رکھا گیا ہے۔ یہاں کے وسائل پر سب کی نظر ہے، مگر یہاں کے لوگوں کو ان وسائل سے حاصل ہونے والے ثمرات سے محروم رکھا گیا ہے۔ جب بھی کسی سرمایہ کاری یا منصوبے کی بات ہوتی ہے، تو مقامی لوگ اس کے سب سے بڑے متاثرہ فریق ہوتے ہیں، جنہیں یا تو زبردستی زمینوں سے بے دخل کیا جاتا ہے، یا ان کے وسائل کو ترقی کے نام پر چھینا جاتا ہے۔
یہ کہاں کا انصاف ہے کہ جس زمین کے نیچے خزانے دفن ہیں، وہاں کے باسی پینے کے پانی کو ترسیں؟ جہاں سے پوری قوم کو توانائی دی جاتی ہو، وہاں کے دیہات اندھیرے میں ڈوبے ہوں؟ جہاں سے ریاست لاکھوں کروڑوں کمائے، وہاں کے نوجوان روزگار کی تلاش میں خودکشیوں پر مجبور ہوں؟ انگریز دور سے لے کر آج تک مقامی لوگوں کو ایک تماشائی بنا کر رکھا گیا ہے۔ پہلے وائسرائے کے فرمان چلتے تھے، اب بیورو کریٹس کے۔ کبھی ریاستی ادارے زمینوں پر قابض ہوتے ہیں، کبھی سرمایہ دار، اور ان سب کی پشت پناہی حکومتی نمائندے کرتے ہیں جنہیں عوام نے اپنے حقوق کے لیے منتخب کیا تھا۔
علاقے کی زمینیں جو صدیوں سے مقامی قبائل کی ملکیت رہی ہیں، آج حکومتی دعوئوں کی زد میں ہیں۔ زراعت، چراگاہیں، معدنیات، سب کو ’’ سرکاری زمین‘‘ قرار دے کر نیلامی کا بازار گرم ہے۔ مقامی لوگ حیران و پریشان ہیں کہ ان کی اپنی ملکیت کو بغیر اجازت، بغیر رضا مندی، بغیر معاوضے کے چھینا جا رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب گلگت بلتستان آئینی طور پر پاکستان کا حصہ نہیں، جب یہاں کے باسی پاکستانی شہری کی مکمل حیثیت نہیں رکھتے، تو پھر ریاست کس قانون کے تحت ان کے وسائل پر قابض ہوتی ہے؟ کیا یہ نوآبادیاتی ذہنیت کی باقیات نہیں؟ کیا یہ وہی رویہ نہیں جو کبھی ایسٹ انڈیا کمپنی نے ہندوستان کے ساتھ اپنایا تھا؟۔
یہاں کا نوجوان جو جدید تعلیم حاصل کرنے کا خواب لے کر کالج اور یونیورسٹی جاتا ہے، اسے نہ کتابیں میسر ہیں، نہ اساتذہ، نہ لیبارٹری، نہ سہولیات۔ تعلیم صرف ایک رسمی عمل بن چکا ہے، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان ڈگری ہاتھ میں لیے مایوسی کے اندھیروں میں بھٹک رہے ہیں۔ نہ ملازمت ہے، نہ مواقع، نہ انصاف۔ سفارش، رشوت، اور اقربا پروری نے میرٹ کا گلا گھونٹ رکھا ہے۔ تعلیم کے بعد روزگار نہ ملنے کی صورت میں وہی نوجوان یا تو غیر قانونی راستوں کا انتخاب کرتا ہے یا اپنے ہی وطن سے ہجرت پر مجبور ہو جاتا ہے۔
صحت کے ادارے بھی بدترین حالت میں ہیں۔ ایک طرف بڑے بڑے دعوے ہیں، دوسری طرف مقامی ہسپتالوں میں ڈاکٹر نہیں، دوائیاں نہیں، سہولیات نہیں۔ حاملہ خواتین کو بروقت علاج نہ ملنے کی وجہ سے جانیں ضائع ہو رہی ہیں، بچے معمولی بیماریوں میں دم توڑ رہے ہیں، اور بوڑھے اپنی آنکھوں میں امید لیے علاج کے انتظار میں زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ اربوں روپے کے بجٹ مختص ہوتے ہیں، لیکن ان کا بیشتر حصہ کرپشن کی نذر ہو جاتا ہے۔ یہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی ادارے خاموش ہیں، سیاسی رہنما اندھے بنے بیٹھے ہیں، اور عوام کی فریاد سننے والا کوئی نہیں۔
سیاست بھی یہاں ایک تماشہ بن چکی ہے۔ الیکشن آتے ہیں، سب وعدے کیے جاتے ہیں۔ ’’ خودمختاری دیں گے‘‘، ’’ نوجوانوں کو روزگار دیں گے‘‘، ’’ زمینیں آپ کی ہیں، قبضہ نہیں ہونے دیں گے‘‘، مگر جونہی سیٹ ملتی ہے، سب وعدے فراموش کر دئیے جاتے ہیں۔ اقتدار کے نشے میں چور سیاست دان عوام کو دھوکہ دے کر مفادات کے سودے کرتے ہیں۔ وہی زمینیں جن کے تحفظ کا وعدہ کیا تھا، انہی کی بولیاں لگائی جاتی ہیں۔ وہی ادارے جنہیں شفاف بنانے کا دعویٰ کیا تھا، ان میں اپنوں کو نوازا جاتا ہے۔ گلگت بلتستان کے سیاسی رہنما صرف اپنی مدت پوری کرنے، پنشن لینے، اور اپنی نسلوں کے لیے مستقبل سنوارنے کے لیے آتے ہیں، عوام کا حال بد سے بدتر ہوتا جا رہا ہے۔
یہ سب کچھ دیکھ کر گلگت بلتستان کا نوجوان شدید مایوسی کا شکار ہے۔ اس کے دل میں بغاوت جنم لے رہی ہے۔ وہ سوال کرتا ہے کہ میرے وسائل میرے نہیں، میرے حقوق مجھے نہیں ملتے، میری زمین پر غیر آ کر قابض ہو جاتے ہیں، میرے ادارے کرپشن سے دیمک زدہ ہیں، میرے مسائل کو سننے والا کوئی نہیں، تو میں کیوں نہ اپنی شناخت، اپنے وسائل، اپنی خودمختاری کے لیے آواز بلند کروں؟ یہی آواز اگر وقت پر نہ سنی گئی، تو وہ دن دور نہیں جب نوجوان قلم چھوڑ کر پتھر اٹھا لے گا، اور وہ تحریک جنہیں ریاست نے ’’ سازش‘‘ کہا، وہ ایک دن عوامی انقلاب بن جائے گی۔
یہ لمحہ فکریہ ہے، ایک پکار ہے، ایک انتباہ ہے۔ گلگت بلتستان کے عوام صبر کے آخری کنارے پر کھڑے ہیں۔ اگر انہیں آئینی شناخت، وسائل پر حق، باعزت روزگار، صاف شفاف نظام، تعلیم، صحت، اور انصاف نہ ملا، تو وہ کسی بھی قسم کا اقدام اٹھانے پر مجبور ہوں گے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ اس خطے کو محض جغرافیائی اہمیت کی نظر سے نہ دیکھے، بلکہ اس خطے کے لوگوں کو بھی اتنی ہی اہمیت دے۔ جب تک مقامی افراد کو ان کا حق نہیں ملے گا، ترقی کے سب دعوے کھوکھلے ثابت ہوں گے۔
اب وقت آ چکا ہے کہ گلگت بلتستان کو سنجیدگی سے سنا جائے، اس کی دھرتی کے وارثوں کو ان کا اختیار دیا جائے، تعلیم و صحت کے اداروں کو کرپشن سے پاک کیا جائے، سیاست کو خدمت کا ذریعہ بنایا جائے، اور نوجوانوں کو امید، مواقع، اور قیادت دی جائے۔ تب جا کر یہ علاقہ ایک روشن، پرامن، اور ترقی یافتہ مستقبل کی جانب گامزن ہو سکتے ۔

جواب دیں

Back to top button