Column

فلسفہ، دلیل اور منطق: شعورِ انسانی کی معراج

تحریر : شازیہ بیگ
فلسفہ ایک ایسی مسلسل جستجو کا نام ہے جو انسانی ذہن کو مٹی کی سطح سے اٹھا کر افلاک کی بلندیوں تک لے جاتی ہے۔ یہ ایک نہ ختم ہونے والا فکری سفر ہے، ایک بے تاب سوال، جو ازل سے انسانی روح کو بے قرار رکھے ہوئے ہے: میں کون ہوں؟ یہ دنیا کیا ہے؟ سچ کیا ہے اور فریب کیا؟ کیا زندگی کا کوئی مقصد ہے یا یہ سب محض ایک اتفاقی سلسلہ ہے؟ فلسفہ ان سوالات کے جوابات میں کوئی حتمی دعویٰ نہیں کرتا، مگر یہ اس امر پر ضرور اصرار کرتا ہے کہ ان سوالات سے مفر ممکن نہیں۔ انسان کا جوہر ہی انہی سوالات میں چھپا ہے۔ یہی وہ سوالات ہیں جو اسے حیوانی جبلت سے نکال کر شعور، تفکر اور بصیرت کے میدان میں لے آتے ہیں۔
فلسفہ، دلیل اور منطق تینوں گویا ایک مثلث کے زاویے ہیں۔ دلیل کے بغیر علم ناقص، منطق کے بغیر استدلال بے وزن اور فلسفے کے بغیر کوئی فکر مکمل نہیں۔ جہاں ان عناصر کی غیر موجودگی ہو، وہاں جہالت، جذباتیت اور اندھی تقلید جنم لیتی ہے۔ مکالمہ خاموش ہو جاتا ہے، تحقیق سست پڑ جاتی ہے اور اجتہاد کے در بند ہو جاتے ہیں۔ فلسفہ درحقیقت فکری آزادی کا وہ دروازہ ہے جو انسان کو ایک سطحی اور جامد سوچ سے نکال کر ایک بیدار اور تجزیاتی ذہن عطا کرتا ہے۔ یہ انسان کو سکھاتا ہے کہ وہ سنے، سوچے، پرکھے اور پھر یقین کرے۔
جب تاریخِ اسلام کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ جس دور میں مسلمانوں نے فلسفے، منطق اور عقلِ سلیم کی قدر کی، وہی دور ان کی سائنسی، تمدنی اور اخلاقی عظمت کا زمانہ تھا۔ بغداد، قرطبہ اور قاہرہ کے علمی مراکز میں فلسفہ مرکزی حیثیت رکھتا تھا۔ ابن سینا، فارابی، الکندی، ابن رشد جیسے مفکرین نہ صرف فلسفی تھے بلکہ وہ ماہرینِ طب، سائنس، ریاضی، اخلاقیات اور سیاست بھی تھے۔ ان کا علم جزوی نہ تھا بلکہ مکمل اور ہمہ گیر تھا۔ لیکن جب ہم نے فلسفے کو بدعت قرار دے کر مدارس سے نکالا، اور عقل کو ایمان کا دشمن بنا کر فکری جمود کو فروغ دیا، تب سے ہم زوال کی ایسی گہری کھائی میں جا گرے جہاں سے نکلنے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔
تعلیم کا مقصد اگر محض نوکری یا ڈگری بن جائے تو وہ علم نہیں بلکہ ایک فنی تربیت بن جاتی ہے۔ فلسفہ تعلیم کو روح عطا کرتا ہے۔ یہ طالب علم کو محض معلومات کا ذخیرہ نہیں بناتا بلکہ اسے ایک ایسا بیدار ذہن عطا کرتا ہے جو ہر نظریے، ہر علم اور ہر روایت کو پرکھنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ فلسفہ طالب علم کو یہ سکھاتا ہے کہ وہ سچائی کو کسی روایت یا بزرگ کے حوالے سے نہیں بلکہ دلیل اور منطق کی کسوٹی پر پرکھے۔ جب ہم فلسفے کو تعلیم سے نکال دیتے ہیں تو ہم دراصل انسان سے سوال کرنے کی صلاحیت چھین لیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہمارے پاس ڈاکٹر، انجینئر، سائنسدان اور علماء تو ہیں، مگر مفکر، نقاد، مصلح اور مفصل ناپید ہیں۔
فلسفی کسی بھی معاشرے کا ضمیر ہوتا ہے۔ وہ اس معاشرے کی خاموشیوں میں چھپے ہوئے سوالات کو آواز دیتا ہے۔ وہ اس سچ کو بلند کرتا ہے جو عموماً طاقتور حلقوں کے لیے ناگوار ہوتا ہے۔ فلسفی سماجی ضمیر کا محافظ ہوتا ہے۔ وہ صرف سوچتا نہیں، وہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔ بدقسمتی سے آج ہمارے ہاں ایسے فلسفی ناپید ہوتے جا رہے ہیں۔ نہ جامعات میں فلسفہ رہا، نہ نصاب میں اس کی وقعت، نہ میڈیا میں اس کا تذکرہ۔ آج اگر ہم فلسفے کے طالب علموں کی تعداد گنیں تو شاید چند درجن سے زیادہ نہ نکلیں، اور یہ صورت حال خود ہمارے فکری بحران کی سب سے بڑی علامت ہے۔
یہ کہنا کہ فلسفہ محض ایک نظری مضمون ہے، اور اس کا کوئی عملی فائدہ نہیں، دراصل جہالت کی انتہا ہے۔ جدید سائنس کا ہر نظریہ، ہر سوال، ہر قیاس فلسفہ ہی کی کوکھ سے جنم لیتا ہے۔ آئن سٹائن سے لے کر نیوٹن تک، اور ابن الہیثم سے لے کر غزالی تک، ہر ایک نے فلسفہ کو اپنی علمی جستجو کا محور بنایا۔ جدید سائنسی نظریات جیسے کوانٹم فزکس، نیورو سائنس، مصنوعی ذہانت یہ سب فلسفیانہ سوالات سے وابستہ ہیں۔ کیا حقیقت وہی ہے جو ہم دیکھتے ہیں؟ کیا شعور جسم سے الگ کوئی ہستی ہے؟ کیا مشینیں بھی شعور رکھ سکتی ہیں؟ ان سوالات کا سامنا سائنسی میدان بھی کرتا ہے مگر ان کے جوابات کا دروازہ فلسفہ ہی کھولتا ہے۔
قومی سطح پر فلسفہ کا زوال ہمارے مجموعی فکری جمود کا عکس ہے۔ ہماری سیاسی گفتگو جذباتی نعروں تک محدود ہے، مذہبی مکالمہ شدت پسندی کی نذر ہو چکا ہی، اور علمی تحقیق مروجہ درسی کتابوں سے آگے نہیں بڑھتی۔ ہم نے نہ سوال کی اجازت دی، نہ اختلاف کو برداشت کیا، نہ دلیل کو اپنایا۔ یہی وہ زوال ہے جس نے ہمیں اقوامِ عالم کی صف سے نکال کر حاشیے پر لا کھڑا کیا ہے۔
اگر ہم بحیثیت قوم ترقی کی خواہش رکھتے ہیں تو ہمیں فلسفے کو بحال کرنا ہو گا۔ ہمیں اسے تعلیمی اداروں میں جگہ دینی ہو گی، عوامی سطح پر مکالمے میں شامل کرنا ہو گا، میڈیا میں سنجیدہ گفتگو کو فروغ دینا ہو گا، اور عوام کو سوال کرنے، سوچنے، سننے اور سمجھنے کی تربیت دینا ہو گی۔ فلسفہ وہ روشنی ہے جو صرف اندھیروں کو چیر کر روشنی نہیں لاتا، بلکہ خود اندھیرے کے وجود پر سوال اٹھاتا ہے۔ یہ روشنی ہر فرد اور ہر قوم کے لیے ایک نعمت ہے، اور اگر ہم نے اسے ہمیشہ کے لیے کھو دیا تو شاید ہم جسمانی زوال کے بعد فکری موت کے بھی شکار ہو جائیں۔

جواب دیں

Back to top button