Column

زندگانی تھی تری مہتاب سے تابندہ تر!

خالد اکبر

بیر سٹر عبد الحمید بھاشانی دھرتی کشمیر کے ایک عظیم سپوت اور ایک نابغہ روز گار شخصیت تھے۔ مرحوم بیرسٹر عبدالحمید بھاشانی سے کئی حوالوں سے تعلق کا بندھن قائم تھا۔ مگر شومئی قسمت یا حالات کے جبر کے سبب زندگی میں ان سے وہ بھی بس بہت شروع میں ایک دو بار ہی سرسری سی ملاقات ہو سکی۔ وہ گزشتہ چالیس برس سے دیارِ غیر میں مقیم رہے۔ پہلے جاپان، پھر سوئٹزرلینڈ، اور بعد ازاں کینیڈا میں اپنے اہلِ خانہ سمیت منتقل ہو گئے۔ اور حالات کے جبر یا کسی اور وجہ سے انیس برس تک وطن واپس نہ آ سکے۔
بھلا ہو پرنٹ اور سوشل میڈیا کا، جس کے توسط سے ان تک رسائی، شناسائی حاصل ہوئی۔ ان کی ہمہ جہت شخصیت کے بس ایک ہی پہلو کو کسی حد تک جاننے کا موقع ملا۔ یوں ان کے علمی مرتبے، دانش، قدرتِ بیان، تنقیدی صلاحیت اور ٹھوس تجزیے کو کچھ دیکھنے اور سمجھنے کا موقع ملا۔ بیرسٹر صاحب واقعی ایک یگانہ روزگار شخصیت اور اپنی ذات میں انجمن تھے۔ کالج کے ابتدائی دور ہی سے طلبہ سیاست میں سرگرم ہوئے، اور بھرپور کردار ادا کرتے ہوئے ممتاز مقام حاصل کیا۔ اس میدان میں اپنے ہم عصروں کے مقابلے میں اپنی ذہنی اپج، فطری دانش اور وسیع مطالعے کی بنیاد پر وہ نمایاں ہوتے چلے گئے۔
خوش قسمتی سے بھاشانی صاحب جینیاتی طور پر ایک اہم علمی و فکری ورثے کے حامل تھے۔ وہ نجیب الطرفین تھے۔ ان کے چچا سردار محمد ارشاد خان پہلی قوم پر ست تنظیم، محاز رائے شماری کے معماروں میں سے تھے اور اپنے دور کے صفِ اول کے قوم پرست رہنما سمجھے جاتے تھے۔ اپنی راست گوئی، مضبوط کردار اور سماجی خدمات کے سبب وہ ایک مقبول اور باوقار شخصیت تھے، مگر جوانی میں حادثاتی موت کا شکار ہو گئے۔
باور کیا جاتا ہے کہ محمد ارشاد خان ہی سیاست میں بھاشانی صاحب کی اصل تحریک تھے۔ ننھیال کی طرف سے ان کے حقیقی ماموں سردار محمد عارف خان اس دور کے انتہائی لائق، قابل اور تعلیمی اعتبار سے ممتاز فرد تھے، جو ضلع پونچھ کے ان چند افراد میں سے تھے جنہوں نے چارٹرڈ اکائونٹنسی کی تعلیم حاصل کی۔ وہ چند سال قبل امریکہ میں انتقال کر گئے۔ بھاشانی صاحب کے والد محترم بھی ایک راست گو، منصف مزاج، صاحبِ مطالعہ اور رائے رکھنے والے شخص ہیں، جو الحمدللہ آج بھی حیات ہیں۔
بہتوں کے برعکس بھاشانی صاحب کینیڈا میں بھی اپنی افتادِ طبع کے مطابق منفرد انداز میں زندگی گزار رہے تھے۔ بصد احترام اور معذرت ہمارے بہت سے سمندر پار قابل بھائی جو یورپی ممالک میں شہریت حاصل کرنے کے باوجود شاہد کسی مجبوری کے سبب محض سٹور پر کام یا ٹیکسی چلانے تک محدود رہتے
ہیں، ان کے برعکس بھاشانی صاحب نے مشکلات کے باوجود نہ صرف اپنی تعلیمی صلاحیتوں کو ان ممالک کے معیار کے مطابق ڈھالا بلکہ ان میں اضافہ بھی کیا، اور وہاں بھی اپنی یگانہ حیثیت برقرار رکھی، بلکہ کئی گنا بڑھائی۔ یہ ان کا ایک بے مثال اور قابلِ تقلید طرزِ عمل تھا، جو انہیں ہمارے دیگر تارکینِ وطن سے ممتاز بناتا ہے۔ انہوں نے کبھی تھک کر بیٹھنے کی بجائے عزم و ہمت سے آگے بڑھنے کو ترجیح دی۔ ان میں جان تھی، اڑان تھی۔ جدید تعلیم، تقابلی مطالعہ، مشاہدہ، اور بین الاقوامی Exposure نے ان کے تناظر کو بے حد وسیع کر دیا تھا۔ وہ ایک عقیدہ بند مارکسسٹ سے کہیں آگے نکل چکے تھے۔ ان کا تناظر، تنقیدی صلاحیت اور نقد و نظرِاور تجزیہ اس سطح پر تھی کہ وہ تعصب کی عینک اتار کر ہر شے کو معروضی انداز میں دیکھ سکتے تھے، اور اس پر اعلیٰ اندازِ تحریر اور بیان کے ساتھ اظہار بھی کر سکتے تھے۔
واقعی، یہ خوبیاں انہیں ایک حقیقی دانشور کے اعلیٰ مقام پر فائز کرتی تھیں۔ مغربی معاشروں کے حسنات اور خوبیوں کے بارے میں ہمیں سب سے زیادہ انہی کی تحریروں سے علم ہوا۔ ورنہ تو ہم یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ مغربی تہذیب محض نازک شاخوں پر بنا آشیانہ ہے، جو تنزلی کے دہانے پر ہے۔ انہوں نے اپنی متعدد تحریروں میں اس ابہام کو دور کرنے کی کوشش کی اور یہ سمجھایا کہ مغرب کی برتری کا راز ان کا مضبوط تعلیمی و تحقیقی نظام، سماجی عدل، میرٹ کلچر اور خود احتسابی میں ہے۔
بیرسٹر بھاشانی ایک روشن خیال، ترقی پسند راہنما تھے، اور انسانیت کی نجات مارکسزم اور حقیقی جمہوریت میں دیکھتے تھے۔ وہ سرمایہ دارانہ نظام کی استحصالی نوعیت پر سخت تنقید کرتے تھے، لیکن اس نظام کی طریقہ پیداوار، آلاتِ پیداوار، ٹیکنالوجی کے فروغ اور انفراسٹرکچر کی بہتری میں خدمات کا اعتراف بھی کرتے تھے۔ ان کے اندر سماجی مظاہر کو بغیر تعصب اور موضوعی انداز سے دیکھنے کی صلاحیت تھی۔ بطور دانشور اور محقق، وہ ایک معروضی اندازِ فکر کے حامل تھے۔ یہ سطح صرف گہرے مطالعے، تجزیے، اور سائنسی فریم ورکس سے واقفیت کے بعد ہی حاصل کی جا سکتی ہے۔ ان کے کالم، تحریریں اور تجزیے اس حقیقت کو بخوبی واضح کرتے ہیں۔ مثلاً، جموں و کشمیر میں قبائلیوں کی آمد کے معاملے میں وہ ایک مباحثہ میں ایک درجن بھر کتب کے حوالوں کی روشنی میں دونوں نقطہ ہائے نظر کو پیش کر کے اس انداز میں نتائج اخذ کیے کہ ان کے سخت مخالفین بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔
بھاشانی صاحب کا علم، مشاہدہ، اور طرزِ استدلال اس قدر ٹھوس اور غیر جذباتی تھا کہ وہ دلیل سے مخالف کو بھی قائل کر لیتے تھے۔ ان کی کشمیر شناسی، تاریخی و فلسفیانہ بصیرت، اور عالمی تعلقات پر غیر معمولی دسترس بہت اعلیٰ تھی، شاید اس لیے کہ وہ مستند ذرائع سے علم حاصل کرتے اور علم کی اصل فطرت کو سمجھتے تھے۔ اور اپنا قیمتی سر مایہ بھی اس حوالے سے ہمارے لیے چوڑا ہے۔ ان کی باقی زندگی کیسی تھی، ان کے حالات و احوال کیا تھے، اس بارے میں ان کے قریبی دوست ہی بہتر روشنی ڈال سکتے ہیں۔ ان کی بے وقت مو ت رنجیدہ خاطر کر نے والا اور ایک ناقابلِ تلافی نقصان ہے۔ اس سے کشمیر کی جدوجہد آزادی کے عالمی تناظر میں ایک اہم سفیر اور رہنما، ایک سچی، روشن خیال اور ترقی پسند آواز خاموش ہو گئی۔ ان سے روبرو ملاقات اور گفتگو کی دیرینہ حسرت کا غنچہ بن کھلے ہی مرجھا گیا۔ فارسی کا ایک فقرہ بار بار لبوں پر آتا ہے
حِیف! در چشمِ زدن صحبت یار آخر شُد
رُوئے گُل سیر نہ دیدم کہ بہار آخر شُد
سنِ شعور سنبھالنے کے بعد جموں کشمیر کی وحدت کی بحالی، مکمل آزادی، حقِ خود ارادیت کے حصول، خوشحال اور باوقار کشمیر کے لیے ان کی قلمی و عملی جدوجہد تاریخِ کشمیر میں سنہرے حروف سے لکھے جانے کے قابل ہے۔ زندگانی تری تھی مہتاب سے تابندہ تر
خوب تر تھا صبح کے تارے سے بھی تیرا سفر
مثلِ ایوانِ سحر مرقد فروزاں ہو تیرا
نور سے معمور یہ خاکی شبستاں تیرا!

جواب دیں

Back to top button