Column

پاکستان ویمن ٹیم کا ورلڈ کپ کے لئے بھارت نہ جانے کا فیصلہ

ڈاکٹر رحمت عزیز
خان چترالی

پاکستان کرکٹ بورڈ ( پی سی بی) کے چیئرمین محسن نقوی کی جانب سے دوٹوک اعلان سامنے آیا ہے کہ پاکستان ویمن ٹیم بھارت نہیں جائے گی۔ یہ نہ صرف ایک سیاسی یا حکومتی موقف ہے بلکہ سفارتی اور کھیلوں کی سیاست سے جڑی صورتحال کا عکاس بھی ہے۔ اس فیصلے کا تجزیہ محض کرکٹ کے تناظر میں نہیں کیا جا سکتا بلکہ اس کے پس منظر میں موجود پاک۔ بھارت تعلقات، کھیلوں کی سفارت کاری اور کرکٹ میں صنفی مساوات جیسے پہلوں کو بھی مدنظر رکھنا ہوگا۔
پاکستان اور بھارت کے مابین کرکٹ تعلقات ہمیشہ سے کشیدہ سیاسی تعلقات کے زیر اثر رہے ہیں۔ 2008ء کے ممبئی حملوں کے بعد سے دونوں ممالک کی باہمی سیریز بند ہو چکی ہیں۔ اگرچہ انٹرنیشنل کرکٹ کونسل ( آئی سی سی) کے زیر اہتمام دونوں ممالک کی ٹیمیں ایک دوسرے کے خلاف کھیلتی رہی ہیں، تاہم باہمی دورے اور سیریز ابھی تک غیر یقینی صورتحال سے دوچار رہے ہیں۔
یہ پہلا موقع نہیں کہ پاکستان نے بھارت جانے سے انکار کیا ہو۔ اس سے قبل مردوں کی ٹیم بھی متعدد بار بھارت نہ جانے کا عندیہ دے چکی ہے اور اسی تناظر میں بھارت کی ٹیم نے بھی پاکستان آنے سے گریز کیا ہے۔ حالیہ ایشیا کپ میں بھارت نے پاکستان آنے سے انکار کیا تھا جس کے بعد نیوٹرل وینیو کا فیصلہ ہوا۔ اب ویمن کرکٹ میں بھی یہی صورت حال دہرائی جا رہی ہے۔
پاکستان ویمن ٹیم نے حالیہ کوالیفائنگ رائونڈ میں شاندار کارکردگی دکھا کر بغیر کسی شکست کے ورلڈ کپ کے لیے کوالیفائی کیا ہے جو کہ ایک تاریخی کامیابی ہے۔ اس کامیابی کا سب سے روشن پہلو یہ ہے کہ ٹیم نے کسی ’ اگر مگر‘ کے بغیر میدان میں اپنی قابلیت ثابت کی۔
یہ کامیابی اس لیے بھی اہم ہے کہ ویمن کرکٹ کو پاکستان میں اب بھی وہ مقام حاصل نہیں ہوا جو مردوں کی کرکٹ کو حاصل ہے۔ وسائل کی کمی، عدم توجہ اور سوسائٹی میں صنفی تقسیم کے باوجود پاکستان کی خواتین کھلاڑیوں نے جس عزم اور حوصلے سے میدان مارا ہے، وہ قابلِ تحسین ہے۔
چیئرمین پی سی بی کا موقف اصول کی پاسداری ہے یا سفارتی دبائو؟ اس بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔ چیئرمین پی سی بی محسن نقوی کا کہنا کہ ’’ معاہدہ ہو چکا ہے، ٹیم بھارت نہیں جائے گی، نیوٹرل وینیو پر کھیلیں گے‘‘۔ درحقیقت کھیل کو سیاست سے الگ رکھنے کی عالمی کوششوں کے برخلاف ایک تلخ حقیقت کا اظہار ہے۔ کھیل کو جب سفارتی تعلقات کی بھینٹ چڑھایا جاتا ہے تو نقصان صرف کھیل اور کھلاڑیوں کا ہوتا ہے۔
اگرچہ پی سی بی کا موقف بظاہر اصولی ہے، لیکن سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ آیا ویمن کرکٹرز کو اس فیصلے میں شامل کیا گیا ہے یا نہیں؟ کیا ان کی رائے لی گئی ہے؟ کیا ان کی محنت اور موقع پر اثر انداز ہونے والا یہ فیصلہ کرکٹ کے فروغ میں رکاوٹ نہیں ہوگا؟ نیوٹرل وینیو کی تجویز اگرچہ قابلِ قبول ہے، لیکن اس پر عمل درآمد کیسے اور کب ہوگا؟ یہ بھی ایک سوال ہے۔
یہ فیصلہ اس بات کی یاد دہانی ہے کہ کھیل، خاص کر کرکٹ، جنوبی ایشیا میں صرف ایک کھیل نہیں بلکہ ایک جذباتی، قومی اور سیاسی مسئلہ بھی ہے۔ پاکستان ویمن ٹیم کی عالمی سطح پر شرکت کو سیاسی فیصلوں سے محدود کرنا ایک بڑی تشویش بھی ہے، خاص طور پر اس وقت جب دنیا ویمن اسپورٹس کی ترقی اور مساوات کی جانب بڑھ رہی ہو۔
پی سی بی کی جانب سے ویمن کرکٹرز کو انعامات اور ترقیاتی (باقی صفحہ5پر ملاحظہ کیجئے )
پراجیکٹس کی نوید خوش آئند ضرور ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ کھیلنے کے مواقع سے محروم کرنا اس محنت کا عملی اعتراف نہیں۔ اب بھی وقت ہے کہ پاکستان میں ویمن اسپورٹس کو محض نمائشی سطح پر نہ رکھا جائے بلکہ ادارہ جاتی سطح پر مضبوط بنایا جائے۔
پاکستان ویمن ٹیم کا بھارت نہ جانے کا فیصلہ وقتی سیاسی اور سفارتی تناظر میں درست ہو سکتا ہے، مگر اس کا طویل المدتی اثر ویمن کرکٹ پر منفی پڑنے کا امکان ہے۔ اگر نیوٹرل وینیو پر کھیلنے کا وعدہ بروقت پورا نہ ہوا تو کھلاڑیوں کی محنت، تیاری اور مواقع سب ضائع ہو سکتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ کھیلوں کی سفارت کاری کو جذباتی اور قومی تعصب سے نکال کر حقیقت پسندانہ پالیسی سازی کی جائے تاکہ کھلاڑیوں کا مستقبل محفوظ ہو اور پاکستان عالمی سطح پر بطور اسپورٹس نیشن ابھرے۔ امید ہے کہ ارباب اختیار اس مسئلے پر خود کو جھنجھوڑنے کی زحمت گوارا کریں گے۔

جواب دیں

Back to top button