آرمی چیف، وزیراعظم 67ہزار عازمین کو حج کی سعادت سے محروم ہونے سے بچائیں

بشارت فاضل عباسی
حج اسلام کا نماز، روزہ، زکوٰۃ کے بعد چوتھا بنیادی رکن ہے، جو ہر صاحب استطاعت مسلمان پر زندگی میں ایک بار فرض ہے، ہر مسلمان کی زندگی کا سب سے بڑا خواب اور جنون کی حد تک خواہش ہوتی ہے کہ وہ حج کا فریضہ ادا کرے۔ غریب لوگ کئی کئی سال تک تھوڑی تھوڑی رقم جمع کرتے رہتے ہیں اور کئی سال کے بعد ان کی دیرینہ خواہش پوری ہوتی ہے۔ پاکستان دنیا بھر میں حج کرنے والے مسلمانوں میں دوسرے نمبر پر ہے، ہر سال تقریبا پونے دو لاکھ افراد پاکستان سی حج کی سعادت حاصل کرنے کے لیے سعودی عرب جاتے ہیں۔ گزشتہ سال سعودی عرب نے نئی حج پالیسی کا اعلان حج کے فورا بعد کر دیا تھا، یہ پالیسی دنیا بھر کے لیے تھی، پاکستان سے جانے والے حجاج دو طریقوں سے سعودی عرب حج کی ادائیگی کے لیے جاتے ہیں، ایک سرکاری حج سکیم کے تحت اور دوسرا پرائیویٹ حج ٹورآپریٹرز کے ذریعے، دونوں کا کوٹہ 50 ۔50پرسنٹ ہوتا ہے۔ 2025ء میں پاکستانی حجاج کا کوٹہ ایک لاکھ 80ہزار کا ہے، یہ تناسب ہر ملک کی آبادی کے لحاظ سے ہوتا ہے۔ سعودی عرب نے حج پالیسی گزشتہ سال اکتوبر میں دے دی تھی، جس کے مطابق 14فروری تک تمام رقوم سعودی عرب بھیجنا تھیں، سرکاری طور پر جانے والے حجاج کی تمام رقوم سعودی عرب بھجوا دی گئی ہیں، سرکاری سکیم کے تحت جانے والے تقریبا 90ہزار حاجیوں کے انتظامات مکمل ہو چکے ہیں، لیکن بدقسمتی سے پرائیویٹ حج ٹور آپریٹرز مقررہ وقت تک رقوم سعودی عرب بھیجنے میں ناکام رہے، صرف 12ہزار حجاج کی رقم بھیجی گئی، جبکہ 77ہزار حاجیوں کی رقم ٹرانسفر نہ ہو سکی۔ حکومت کی کوششوں اور سعودی حکام سے بات چیت کے بعد مزید 10ہزار حاجیوں کو حج کی اجازت مل سکی، جس کی وجہ سے 67ہزار حاجی حج کی سعادت حاصل کرنے سے محروم ہو سکتے ہیں۔
ملک بھر میں حج ٹور آپریٹرز کی تعداد 904ہے، گزشتہ دو سال سے وفاقی وزارت مذہبی امور نے پرائیویٹ حج ٹور آپریٹرز کو سعودی حکومت کی ہدایت کے مطابق بڑے گروپ بنانے کی ہدایت کی، لیکن لیکن پرائیویٹ ٹور آپریٹر اس پر راضی نہیں ہوئے، بلکہ عدالت عالیہ میں چلے گئے، جس کی وجہ سے مقررہ وقت گزر گیا، جبکہ پرائیویٹ حج ٹور آپریٹر وزارت مذہبی امور اور سٹیٹ بینک اور ایف بی آر کو اس کا ذمہ دار ٹھہرا رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ 10جنوری سے 14 فروری تک جو وقت ان کو رقم ٹرانسفر کے لیے دیا گیا تھا اس وقت میں ساری رقم ٹرانسفر کرنا ممکن نہیں تھا ، کیونکہ ایف بی ار کے مطابق ایک دن میں مخصوص رقم ہی سعودیہ بھیجی جا سکتی تھی، اس کے باوجود 95ارب روپے ادا کر چکے ہیں، جو کہ ڈی جی آفس میں پڑے ہیں، رہائش اور ایئر ٹکٹ کا بھی بندوبست کر چکے ہیں۔ حکومت پرائیویٹ حج ٹور آپریٹرز کے ساتھ سوتیلا سلوک کرتی ہے۔ سرکاری سکیم پر حج پر جانے والوں کی درخواستیں پہلے جمع کی جاتی ہیں جبکہ ہمیں بعد میں اس کی اجازت دی جاتی ہے۔
وزیراعظم پاکستان نے اس حوالے سے دو کمیٹیاں تشکیل دی تھیں، انکوائری کمیٹی کے مطابق پرائیویٹ ٹور آپریٹر اس کے قصوروار ٹھہرائے گئے، جبکہ دوسری کمیٹی جس میں وفاقی وزیر مذہبی امور اور مصدق ملک شامل ہیں، جو مستقبل میں اس طرح کی صورتحال سے بچنے کے لیے لائحہ عمل تیار کرے گی۔ جس کے باعث نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر سے تقریبا تین لاکھ افراد حج کی سعادت سے محروم ہو سکتے ہیں، سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کا اجلاس عطاء الرحمان کی سربراہی میں گزشتہ دنوں ہوا، جس میں فیصلہ کیا گیا کہ جلد وزیراعظم سے ملاقات کر کے درخواست کی جائے گی کہ ان حجاج کا مسئلہ حل کیا جائے، حج کو تقریبا ڈیڑھ ماہ رہ گیا ہے، اس مسئلے کو اگر سنجیدگی سے نہ لیا گیا تو 67ہزار عازمین حج اس سال حج کی سعادت سے محروم ہو سکتے ہیں۔
حج مسلمانوں کا مذہبی فریضہ ہے، لیکن بدقسمتی سے اس کو آمدن کا ذریعہ بنا دیا گیا ہے، حج کا کوٹہ لینے کے لیے ہر طریقہ استعمال کیا جاتا ہے اور وہ حج جو سرکاری طور پر 10سے 12لاکھ روپے میں ادا کیا جاتا ہے، اس کو پرائیویٹ ٹور آپریٹر مختلف نام دے کر 30سے 40لاکھ روپے وصول کرتے ہیں کیونکہ وہ حاجیوں کو بہتر سہولیات میسر کرتے ہیں۔ ہزاروں لوگ سرکاری سکیم میں نام نہ آنے کی وجہ سے بھاری رقم ادا کرکے حج کی سعادت حاصل کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ سرکاری طور پر حج جیسے فریضہ میں بھی اربوں روپے کی کرپشن ہوتی رہی ہے، جس کے باعث سیکرٹری مذہبی امور اور وزیر حج جیل بھی جا چکے ہیں۔ وفاقی وزارت مذہبی امور کی بھی کوشش ہے کہ سارا کوٹہ سرکار کو مل جائے ، جس کی کوشش میں وہ لگے ہوئے ہیں، اگر 67ہزار حجاج کرام حج پر نہ جا سکے تو پرائیویٹ ٹور آپریٹرز کو شدید پریشانی اور نقصان کا سامنا ہوگا۔ جس کے بعد ان کے لیے یہ کاروبار جاری رکھنا ناممکن ہو جائے گا۔ اس کے علاوہ وہ لوگ جو اس لگائے ہوئے ہیں کہ اللہ کا در دیکھیں گے، فریضہ حج ادا کریں گے، ان کی زندگی کی بڑی خواہش اور خواب کی تکمیل کا وقت آیا تو انہیں اس سعادت سے محروم کر دیا گیا، ان کے دل پر کیا گزرے گی، کیونکہ اگلے سال تک زندگی کا کیا بھروسہ۔ صحت اور حالات میں تبدیلی آتے دیر نہیں لگتی، پھر ان کی رقوم کی واپسی کا مسئلہ بھی ہوگا ۔
سعودی عرب پاکستان کا دیرینہ دوست اور برادر اسلامی ملک ہے، مشکل کی ہر گھڑی میں سعودی عرب نے پاکستان کا ساتھ دیا ہی، پاکستان بھی تجارتی اور دفاعی امور میں سعودی عرب کے ساتھ کھڑا رہا ہے، مسلمانوں کا قبلہ اور روضہ رسول ؐ کی وجہ سے تمام مسلمانوں کا دل سعودی عرب کے مسلمانوں کے ساتھ دھڑکتا ہے۔ مسلمانوں کو اس ملک سے خاص عقیدت ہے، پاکستان کے آرمی چیف سید عاصم منیر اور وزیراعظم پاکستان میاں شہباز شریف کے سعودی ولی عہد محمد بن سلطان سے حکومتی اور ذاتی لحاظ سے بہت اچھے تعلقات ہیں۔ آرمی چیف اور وزیراعظم مل کر سعودی ولی عہد محمد بن سلطان سے درخواست کریں اور ممکن ہو تو اس مسئلے کے حل کے لیے ایک نکاتی ایجنڈا لے کر سعودی عرب چلے جائیں تاکہ 67ہزار عازمین، حج کا مقدس فریضہ ادا کر سکیں۔ یہ دونوں رہنمائوں کی ذمہ داری میں بھی شامل ہے اور اس کے حل کرانے میں یہ دونوں ہی معاون و مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔ کامیابی کی صورت میں ہزاروں حجاج کرام اور پاکستانیوں کی دعائیں بھی ملیں گی، ساری قوم دعا گو ہے کہ اللہ ان کو اس نیک مقصد میں کامیاب کرے، لیکن اگر خدانخواستہ ایسا ممکن نہیں ہوتا تو اگلے سال کے لیے ایسی پالیسی بنائی جائے کہ ان 67ہزار حجاج کو 2026ء کے سرکاری حج کوٹے میں بغیر قرعہ اندازی کے شامل کیا جائے۔







