Column

سندھ طاس معاہدہ اور ذوالفقار علی بھٹو پہ بہتان

محمد ضرار یوسف

سندھ طاس معاہدہ (Indus Waters Treaty)ایک تاریخی پانی کی تقسیم کا معاہدہ ہے جو پاکستان اور بھارت کے درمیان 19ستمبر 1960ء میں طے پایا۔ یہ معاہدہ عالمی بینک کی ثالثی میں ہوا اور اس کا مقصد دونوں ممالک کے درمیان دریائے سندھ سے منسلک دریائوں کے پانی کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنانا تھا ۔ تاکہ دونوں ممالک کے زرعی اور اقتصادی مفادات محفوظ رہیں۔ یہ معاہدہ انتہائی پیچیدہ اور طویل مدت کے مذاکرات کے بعد عمل میں آیا ۔ 1948ء میں بھارت نے پاکستان کے ساتھ پہلا بڑا آبی تنازع اُس وقت کھڑا کیا جب اس نے پاکستان کی زرعی نہروں کا پانی بند کر دیا۔ یہ واقعہ سندھ طاس کے دریائوں سے متعلق تھا جو تقسیمِ ہند کے بعد دونوں ممالک کے درمیان بہتے تھے۔
بھارت نے یکم اپریل 1948ء کو پاکستان کے زرعی رقبے کو سیراب کرنے والی نہروں کا پانی بند کر دیا تھا ۔ یہ نہریں مشرقی دریائوں خصوصاً راوی اور ستلج سے نکلتی تھیں ۔
1۔ اپر باری دوآب کینال (Upper Bari Doab Canal -UBDC): یہ نہر دریائے راوی سے پانی لیتی تھی۔ اس نہر سے پاکستان کے علاقوں لاہور، شیخوپورہ، اور سیالکوٹ کو سیراب کیا جاتا تھا۔
2۔ دیپالپور کینال: یہ نہر ستلج دریا سے پانی لیتی تھی۔ اوکاڑہ، ساہیوال اور دیپالپور کے علاقے اس سے مستفید ہوتے تھے۔
3۔ بالکی سدھ نہر: یہ بھی ایک چھوٹی لیکن اہم نہر تھی، جو راوی سے جڑی ہوئی تھی۔ بالکی سدھ نہر (Lower Bari Doab Canal – LBDC) پاکستان کے صوبہ پنجاب میں ایک اہم آبپاشی نہر ہے، جو دریائے راوی سے نکلتی ہے۔ یہ نہر انگریز دور میں تعمیر کی گئی تھی۔ یہ نہر بلو کی ہیڈ ورکس (Balloki Headworks)سے شروع ہوتی ہے۔ جو ضلع قصور میں دریائے راوی پر واقع ہے۔ اور پھر جنوبی سمت میں چلتی ہوئی وسیع زرخیز علاقہ سیراب کرتی ہے۔ اور پنجاب کی زراعت میں کلیدی کردار ادا کرتی رہی تھی ۔ یہ نہر مندرجہ ذیل علاقوں کو سیراب کرتی تھی۔
1۔ ساہیوال،2۔ اوکاڑہ، 3۔ قصور، 4۔ خانیوال، 5۔ پاکپتن ۔
نہروں کو بند کرنے پہ بھارت نے یہ موقف اختیار کیا کہ چونکہ ان دریائوں کا منبع بھارت میں
ہے۔ اس لیے بھارت کو ان پر مکمل اختیار حاصل ہے۔ پاکستان نے اسے بین الاقوامی اصولوں اور تقسیم کے معاہدے کی خلاف ورزی قرار دیا۔نہری پانی کی بندش پہ شدید زرعی نقصان اور پانی کی قلت کے بعد پاکستان نے بھارت سے مذاکرات کیے۔4 مئی 1948 ء کو معاہدہ دہلی (Standstill Agreement)کے تحت پانی کی عارضی بحالی ممکن ہوئی۔ اس کے بعد دونوں ممالک کے درمیان تنازع بڑھتا گیا ۔
سندھ طاس معاہدے میں کل چھ دریائوں کو تقسیم کیا گیا ہے جو بھارت سے پاکستان داخل ہو کر بہتے ہیں یا دریائے سندھ میں ضم ہو کر بحیرہ عرب تک کا سفر کرتے ہیں ۔ مشرقی دریا ( بھارت کے کنٹرول میں دیئے گئے)۔
1۔ دریائے راوی : یہ دریا بھارت کی ریاست ہماچل پردیش کے ضلع کنگرا میں واقع روتنگ درّہ (Rohtang Pass)کے قریب بارہ بنگال کے گلیشیئرز (Bara Bhangal Glacier)سے نکلتا ہے۔ اور بھارت کے ضلع پٹھان کوٹ سے ہوتا ہوا پاکستان کے ضلع نارووال کے مقام پر جمال دا ڈالا کے قریب شکرگڑھ کے علاقے سے پاکستان میں داخل ہوتا ہے۔ پھر لاہور، شیخوپورہ، اور فیصل آباد کے قریب سے گزرتے ہوئے آخرکار ہیڈ سلیمانکی کے مقام پر پاکستان سے نکل کر دریائے ستلج میں شامل ہو کر بھارت روانہ ہو جاتا ہے ۔
2۔ دریائے بیاس: یہ دریا بھارت کی ریاست ہماچل پردیش کے علاقے روتنگ پاس سے نکلتا ہے۔ پھر یہ پنجاب ( بھارتی) کے علاقوں امرتسر اور فیروزپور میں سے بہتا ہوا آخرکار دریا دریائے ستلج میں شامل ہو جاتا ہے، جو کہ خود پھر آگے جا کر پاکستان میں داخل ہوتا ہے۔ دریائے بیاس پاکستان میں داخل نہیں ہوتا اور نہ ہی پاکستان سے ہو کر واپس بھارت جاتا ہے۔
3۔ دریائے ستلج: دریائے ستلج چین کے علاقے تبت (Tibet)میں واقع کیلاش پہاڑی سلسلے (Mount Kailash Range) سے نکلتا ہے۔ اس کا اصل ماخذ رکاس تال (Rakshas Tal)جھیل کے قریب مانسرور جھیل (Lake Manasarovar) کے مغرب میں واقع ہے۔ بھارت کے ضلع فیروزپور سے ہوتا ہوا پاکستان کے ضلع قصور (Kasur) میں گنڈا سنگھ والا کے قریب پاکستان میں داخل ہوتا ہے۔ اور پاکستان کے ضلع بہاولنگر اور آگے جا کر ضلع بہاولپور سے گزرتے ہوئے ہیڈ پنجند کے مقام پر دریائے چناب میں شامل ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد پنجند کے مقام پہ دریائے سندھ میں شامل ہو جاتا ہے۔
مغربی دریا ( پاکستان کے کنٹرول میں دیئے گئے)
1۔ دریائے جہلم : یہ دریا بھارت کے زیرِ انتظام جموں و کشمیر کے علاقے ویرناگ (Verinag)، ضلع اننت ناگ سے نکلتا ہے۔ اور ولر جھیل سے بھی گزرتا ہے۔ جو کشمیر کی سب سے بڑی جھیل ہے۔ دریائے جہلم وادی مقبوضہ کشمیر سے ہوتا ہوا چکوٹھی ضلع ہٹیاں بالا جو مظفر آباد آزاد کشمیر سے تقریبا 54کلومیٹر کے فاصلے پہ ہے کے مقام پر آزاد کشمیر میں داخل ہوتا ہے۔ مظفر آباد میں ڈومیل کے مقام پہ دریائے نیلم اور جہلم کا ملاپ ہوتا ہے ۔ یہاں سے یہ دریا آزاد کشمیر سے بہتا ہوا منگلا ڈیم تک پہنچتا ہے ضلع میرپور پہنچتا ہے۔ دریا مکمل طور پر پاکستان کے اندر بہتا ہے اور آگے چل کر ضلع جھنگ کے قریب تریموں کے مقام پر دریائے چناب میں شامل ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد یہ دریائے سندھ میں ضم ہو کر بالآخر بحیرہ عرب تک پہنچتا ہے۔
2۔ دریائے چناب : یہ دریا بھارت کے زیر انتظام جموں و کشمیر میں واقع ہماچل پردیش اور جموں کے علاقوں سے نکلنے والے دو دریاں چندر ندی اور بھاگا ندی کے ملاپ سے بنتا ہے ۔ یہ دونوں ندیاں لہول و اسپِتی کے مقام پر آ کر ملتی ہیں اور اسے مجموعی طور پر چندر بھاگا کہا جاتا ہے، جو آگے جا کر چناب کہلاتا ہے۔ یہ بھارت کے علاقے جموں سے ہوتا ہوا پاکستان کے ضلع سیالکوٹ میں مرالہ کے مقام پر داخل ہوتا ہے۔ مرالہ ہیڈ ورکس، سیالکوٹ کے قریب واقع ہے اور یہ چناب کا پاکستان میں پہلا بڑا مقام ہے۔ یہ دریا مکمل طور پر پاکستان کے اندر بہتا ہے اور آگے جا کر ضلع جھنگ میں تریموں کے مقام پر دریائے جہلم سے ملتا ہے۔ پھر یہ پنجند کے مقام پر ضلع بہاولپور، دریائے سندھ میں شامل ہو جاتا ہے۔
3۔ دریائے سندھ : چین کے علاقے تبت (Tibet)سے نکلتا ہے اور بھارت کے علاقے لداخ سے ہوتا ہوا پاکستان کے علاقے گلگت۔ بلتستان کے ضلع گھانچے کے قصبے شاگر تھنگ جو قراقرم ہائی وے کے قریب میں داخل ہوتا ہے۔ یہ دریا پاکستان کے شمال سے ہوتا ہوا پنجاب اور سندھ کے میدانوں سے گزرتا ہے۔ آخر میں یہ دریا کراچی اور ٹھٹھہ کے درمیان بحیرہ عرب (Arabian Sea)میں گرتا ہے۔ یہ اخراجی مقام انڈس ڈیلٹا (Indus Delta)کہلاتا ہے۔ جو دنیا کے بڑے دریائی ڈیلٹائوں میں سے ایک ہے۔ البتہ بھارت کو کچھ مخصوص مقاصد ( مثلاً آبی بجلی، زراعت) کی لیے محدود استعمال کی اجازت ہے۔
عالمی بینک کا کردار: معاہدے کے ضامن اور ثالث کے طور پر کردار ادا کیا، تاکہ کسی بھی تنازع کی صورت میں ثالثی کی جا سکے۔ سندھ طاس معاہدے کے لیے مذاکرات کا عمل تقریباً 12سال (1948سے 1960) تک جاری رہا، اور اس دوران متعدد مذاکراتی دور ہوئے، جن میں تکنیکی، سیاسی اور سفارتی سطح پر گفت و شنید شامل تھی۔ اگرچہ حتمی مذاکرات کی سرکاری گنتی متفق نہیں، لیکن اندازاً 30سے زائد مذاکراتی اجلاس منعقد ہوئے، جن میں سے کئی اہم اور فیصلہ کن نوعیت کے تھے۔
یہ مذاکرات تین اہم مراحل میں تقسیم کیے جا سکتے ہیں:
1۔ ابتدائی مذاکرات (1948۔1951) : بھارت نے 1948میں پانی روک کر بحران پیدا کیا۔ اور ابتدائی طور پر مذاکرات دہلی میں ہوئے، جس کا نتیجہ ’’ عبوری معاہدہ‘‘ تھا۔ اس مذاکراتی ٹیم میں پاکستان کی طرف سے شامل شخصیات:1۔ غلام محمد، 2۔ چودھری محمد علی، 3۔ محکمہ آبپاشی کے ماہرین، جبکہ بھارت کی طرف سے1۔ گوپالاسوامی آینگر، 2۔ کے ایل رائو،3۔ بروکریج ( ابتدائی طور پر برطانیہ کے سفارتی حلقے شامل رہے، لیکن کوئی مستقل حل نہ نکلا)۔ اس معاہدے کے لئے مذاکرات کا دوسرا دور جو عالمی بینک کے زیرِ نگرانی 1952سے 1958کے درمیان ہوا مذاکرات کے اہم دور میں عالمی بینک نے باضابطہ ثالثی شروع کی۔ ہر سال کئی بار تکنیکی وفود واشنگٹن، دہلی، اور لاہور میں ملاقات کرتے رہے۔
عالمی بینک نے اپنی ’’ تقسیمی تجویز‘‘ 1954میں پیش کی، جس پر اختلافات پیدا ہوئے۔ ان مذاکرات میں شامل پاکستان کی جانب شخصیات:1۔ چودھری محمد علی ( بعد میں وزیراعظم پاکستان بنے)،2۔ علائوالدین احمد ( وزارت خارجہ)، 3۔ جی ایم جتوئی ( محکمہ آبپاشی)،4۔ سر ولیم لیٹ بریج ( برطانوی مشیر)، بھارت کی جانب سے:1۔ کے ایل رائو( سینئر انجینئر)، 2۔ ایس ڈبلیو رائو اور دیگر واٹر ریسورس افسران، عالمی بینک کی جانب سے: ایوجین آر بلیک ( صدر عالمی بینک) اور ماہرین کی ٹیم جس میں آبی وسائل کے بین الاقوامی ماہر شامل تھے ۔ مذاکرات کا حتمی دور 1958۔1960میں ہوا، جس کے آخر میں 19ستمبر 1960میں کراچی میں معاہدہ طے پایا ۔ اس معاہدے پر دستخط کرنے والی تین اہم شخصیات درج ذیل ہیں: 1۔ پاکستان کی جانب سے صدر محمد ایوب خان ( اس وقت کے صدرِ پاکستان)، 2۔ بھارت کی جانب سے وزیر اعظم جواہر لال نہرو ( اس وقت کے وزیر اعظمِ بھارت)، 3۔ عالمی بینک کی جانب سے: ایوجین آر بلیک (Eugene R. Black)اس وقت کے صدر، عالمی بینک۔
محکمہ آبی وسائل و بجلی 194سے1954 کے درمیان وزارت مواصلات (Ministry of Communications)کے ماتحت رہا۔ شروع میں پانی اور بجلی جیسے بنیادی انفراسٹرکچر کے امور وزارت مواصلات کے تحت تھے۔ ریلوے، سڑکیں، ڈیمز، نہری نظام وغیرہ سب اسی ایک ہی وزارت کے ماتحت آتے تھے۔ پھر بجلی ، آبی وسائل کا محکمہ 1954سے 1974وزارت امورِ تعمیرات عامہ (Ministry of Works and Housing)کے ماتحت رہا ۔ جیسے جیسے انفراسٹرکچر بڑھا، پانی و بجلی کو تعمیرات عامہ کی وزارت کے تحت کر دیا گیا۔ اسی دوران WAPDA (واپڈا) کا قیام 1958 عمل میں آا ۔ جو ایک خودمختار ادارہ تھا مگر حکومتی وزارت کے تحت کام کرتا تھا۔ جبکہ وزارت پانی و بجلی Ministry of Water and Power) 1974 میں علیحدہ وزارت قائم کی گئی جس کا نام وزارت پانی و بجلی رکھا گیا ۔
معاہدے میں اختلافات یا تنازعات کی صورت میں ان کے حل کے لیے ایک جامع طریقہ کار بھی دیا گیا ہے، جس میں ثالثی، عدالت، یا بین الاقوامی ماہرین کی خدمات لی جا سکتی ہیں۔ اس معاہدے کے بعد عالمی بینک نے انڈس بیسن ڈویلپمنٹ فنڈ (Indus Basin Development Fund)قائم کیا گیا، جس کے ذریعے تقریباً 895ملین امریکی ڈالر کی سرمایہ کاری کی گئی۔ اور عالمی بینک نے براہِ راست سرمایہ فراہم کی۔ ساتھ ہی دیگر بین الاقوامی اداروں جیسے امریکا، برطانیہ، کینیڈا، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ نے بھی مالی امداد دی۔ اس سرمایہ کاری سے تربیلا ڈیم (Tarbela Dam)منگلا ڈیم (Mangla Dam)لنک کینالز ( جن کی مدد سے مغربی دریائوں سے پانی مشرقی علاقوں میں منتقل کیا گیا) دیگر بیراج اور نہریں بنائی گئیں ۔
ذوالفقار علی بھٹو کبھی بھی سندھ طاس معاہدے کی کسی مذاکراتی ٹیم کا حصہ رہے اور نہ ہی کسی وزارت میں مشیر یا وزیر رہے ۔ مگر مخالفین حسب سابق تاریخ کو توڑ مروڑ کر حقائق کے برعکس پیش کر کے ذوالفقار علی بھٹو کی کرشمہ ساز شخصیت کو مسخ کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں ۔ حالانکہ انہوں نے سندھ طاس معاہدے کی مخالفت کی تھی، اور یہ بات تاریخی حوالوں میں متعدد بار سامنے آتی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کا موقف تھا کہ مغربی دریا تو پاکستان کے لیے کافی نہیں ہوں گے، اور بھارت کو مشرقی دریائوں پر مکمل اختیار دینا ایک ’’ قومی مفاد کے خلاف سودا‘‘ ہے۔ وہ سمجھتے تھے کہ بھارت اس معاہدے کا غلط فائدہ اٹھا سکتا ہے، خاص طور پر مغربی دریائوں پر تکنیکی چھوٹ کو جواز بنا کر۔ ذوالفقار علی بھٹو کے نزدیک پانی جیسے بنیادی وسائل کی غیرملکی ثالثی ( عالمی بینک) سے طے پانے والا معاہدہ پاکستان کی خودمختاری کے لیے خطرناک مثال ہو سکتا ہے۔
انہوں نے اپنی کتاب Myth of Independence (1969)میں بھی سندھ طاس معاہدے پر تنقید کی۔ وزیر خارجہ بننے کے بعد بھی وہ اس معاہدے کو ’’ غیر متوازن‘‘ اور پاکستان کے لیے ’’ نقصان دہ‘‘ قرار دیتے رہے۔

جواب دیں

Back to top button