Column

ہماری کہانی برسوں پرانی

سیدہ عنبرین

وہی رونا ہے جو پچھلے برس تھا، وہی نالے ہیں، مگر شدت کچھ بڑھ چکی ہے، گزشتہ برس کسان رل گیا تھا، اس برس بھی خوار ہو رہا ہے اور جھولیاں اٹھا اٹھا کر اپنے رب سے محو کلام ہے۔ سرکاری پالیسی کے تحت عظیم قومی خدمت کے جذبے سے سرشار ہو کر عین اس وقت گندم نہ خریدنے کا اعلان کیا گیا تھا، جب گندم کھلے آسمان تلے ڈھیر ہو چکی تھی، کسان خسارے میں رہا، اس مرتبہ بھی اسے ہمیشہ کی طرح بہت دلاسے دیئے گئے تھے، مگر کھاد اور کرم کش ادویات مہنگے داموں ملیں اور بلیک میں بکنے کی کہانیاں منظر عام پر آتی رہیں۔ اس مرتبہ تو طے تھا کہ حکومت گندم نہیں خریدے گی، لہذا بے دلی سے جس قیمت کا اعلان کیا گیا ہے اس سے بہتری نہیں آئی۔ گندم مافیا آنکھیں موندے بیٹھا ہے، اسے معلوم ہے کسان زیادہ دیر تک گندم کے ڈھیر رکھ کر نہیں بیٹھ سکتا، اسے تو یہ سب فروخت کرنا ہے، پس مافیا یہ سب اپنی پسند کی قیمت پر خریدے گا۔ یہ امر مزید تکلیف دہ ہے کہ کسان کی حوصلہ شکن پالیسیوں کے سبب گندم کم رقبے پر کاشت ہوئی ہے۔ فصل کو پانی کم ملا ہے، جھاڑ کم ہے، اسی لحاظ سے پیداوار بھی کم ہے۔ گزشتہ برس جو بمپر کراپ ہوئی تھی وہ ٹکے ٹوکری کر دی گئی تھی، لہٰذا اس کا غیر سرکاری غیر حتمی نتیجہ سامنے آ چکا ہے۔ پالیسی سازوں کو اب بھی یقین ہے کہ وہ مثبت نتائج برآمد کرنے میں کامیاب رہیں گے۔
پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ مہنگائی اس سطح پر کم ہونے کی خبروں پر دنیا ہنس رہی ہے۔ ہنسنے کا موقع دینے والوں نے اس میں بھی قومی خدمت کا پہلو تلاش کر لیا ہے کہ وہ رونے والوں کو ہنسانے میں کامیاب ہو گئے ہیں، گزشتہ تین برسوں میں خوشحالی کس قدر تھی اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ لاکھوں افراد ملک چھوڑ گئے ہیں، یہ سب لوگ مزدور نہیں تھے، ان کا تعلق پڑھی لکھی کلاس سے تھا، ان میں پروفیسر، ڈاکٹر اور آئی ٹی سپیشلسٹ تھے، بڑی تعداد میں نوجوان لڑکے اور لڑکیاں تھیں، جو پاکستان میں اپنا مستقبل تلاش کرتے کرتے اپنا سب کچھ ہار بیٹھے تھے، اب زندگی ہارنے سے قبل انہوں نے اپنی آخری کوششیں کرنا ضروری سمجھیں، کچھ خونخوار دریا کے پار ہوئے ، کچھ بیچ منجھدار ڈوب گئے، جو ڈوبنے سے بچ گئے وہ اس پر ہی خوش ہیں کہ ملک میں رہ کر بے روزگاری کے ہاتھوں زندہ درگور ہونے سے بچ گئے ہیں۔
21 ارب ڈالر ملک سے باہر چلے گئے، کسی کی کھال پر جوں تک نہ رینگی، ہر ماہ ایک نئے قرض لینے کی تگ و دو شروع ہو جاتی ہے، قرض لینے والوں کے حوصلے ملاحظہ فرمائیے کس دھڑلے سے قرض لیتے ہیں اور اس پر جشن مناتے ہیں، انہیں اس بات کی کوئی فکر نہیں کہ قرض کی رقم تو بہت دور کی بات ہے اس کا سود ادا کرنا دشوار ہو چکا ہے، مگر وہ مطمئن ہیں، 24کروڑ آبادی موجود ہے جس کی رگوں میں خون کم ہوتا جا رہا ہے مگر ابھی گردش جاری ہے، لہٰذا اسے مختلف بہانوں سے نچوڑنے کے منصوبے بنتے رہتے ہیں، عرف عام میں انہیں ترقیاتی پروگرام کہا جاتا ہے، اس کے تحت اب معدنیات دریافت ہونے کی خوشخبری سنائی گئی ہے، یہاں ایٹم بم بن گیا، موٹر ویز بن گئیں، اورنج ٹرین چل گئی، دنیا بھر کے متروک کول پاور پلانٹ لگ گئے، آئی پی پیز سے کمر توڑ معاہدے ہو گئے، معدنیات کو نکالنے والے ٹرینڈ نہ ہو سکے نہ ہی انہیں نکالنے والی مشینری تیار ہو سکی، ہم نے فائٹر جہاز، میزائل، ڈرون اور جانے کیا کیا تیار کر لیا، حتیٰ کہ دل اور جگہ کے ساتھ مصنوعی اعضا ٹرانسپلانٹ ہو رہے ہیں، جو کام نہ ہو سکا وہ معدنیات نکالنے، انہیں سنوارنے کیلئے مشینری نہ بن سکی، یقین ہے آئندہ دس برس میں بھی نہ بن سکے گی، کیونکہ بن گئی تو بڑی دیہاڑی پر ضرب پڑے گی۔ ملک کی ترقی اور خوشحالی کا اندازہ اس بات سے کیجئے کہ لاہور، کراچی، اسلام آباد وہ تین ایئر پورٹ ہیں جنہوں نے ملک میں تمام ایئر پورٹس کا بوجھ اٹھا رکھا ہے، یہ تین ایئر پورٹ کما کر دے رہے ہیں اور نظام چلا رہے ہیں، ان کی یہی خطا ہے، لہٰذا اس خطا کی سزا کے طور پر انہیں لیز آئوٹ کیا جا چکا ہے یا یہ منصوبہ قریب پہنچ چکا ہے۔ گویا کمانے والے بیٹے اغیار کے ہاتھ فروخت سمجھئے۔ گوادر چین کا ہوا، کراچی پورٹ کے کچھ ٹرمینل خلیج کے ہاتھ گئے۔ سٹیل ملز اور پی آئی اے کئی ہزار ارب نقصان کے بعد اب کوڑیوں کے مول بیچنے کی خبریں اخباروں کی زینت بن چکی ہیں۔ جو لاکھوں افراد ہمیشہ کیلئے ملک چھوڑ گئے ہیں ان میں لاہور، کراچی، اسلام آباد، فیصل آباد، ملتان اور گجرات سے تعلق رکھنے والے ایسے لاتعداد ہیں جو اپنی جائیدادیں بھی بیچ گئے ہیں، ان شہروں میں رئیل اسٹیٹ بزنس کو بھی ملک کی ترقی اور عوام کی خوشحالی سے تعبیر کیا جا رہا ہے، حالانکہ یہ ملک اور ملکی پالیسیوں پر کھلا عدم اعتماد ہے، جس کیلئے کسی کو اغوا کرنے اور آئینی ترمیم کی ضرورت پیش نہیں آئی۔
سرکار کے خرچ پر کوئی بھی غیر ملکی دورہ ہو، اس میں ایک خاندان کے پانچ افراد ضرور نظر آئیں گے، دو چار ایسے ہیں جو یہاں سے عرصہ دراز قبل چلے گئے تھے، ان کے پاس غیر ملکی شہریت ہے، وہ براہ راست وہاں پہنچ جاتے ہیں جہاں بڑے پہنچتے ہیں، وہ اپنی خاندانی حیثیت میں سرکاری حیثیت والوں کے شانہ بشانہ نظر آتے ہیں۔ ترکی ہو، سوئٹزر لینڈ، امریکہ ہو یا بیلا روس کون کہاں نہیں تھا، ٹیکسوں کی بھرمار میں خوشحالی جھلک رہی ہے۔
دنیا نے ابھی سورج کی روشنی یا حرارت پر ٹیکس نہیں لگایا، ہم نے بازی جیت لی ہے، ہم پہلا ملک ہیں جس نے سولر کے پردے میں اس پر ٹیکس لگایا ہے اور اس پر نازاں ہیں، غیر ملکی سرمایہ کاروں کو آوازیں دیتے دیتے لاری اڈے کے ہاکر کی طرح گلا بیٹھ گیا، اب تو یہ بھی کسی کو سمجھ نہیں آتی کہ چیخ چیخ کر بلانے والا کہہ کیا رہا ہے، 80فیصد پاکستانی سمجھتے ہیں کہ سستی بجلی، سستی گیس، ایکسپورٹ ریٹ، منی لانڈرنگ، سٹاک مارکیٹ کا دھندا چلانے والے ہی اشرف المخلوقات ہیں، پاکستان صرف انہی کا ہے یا پھر ایوانوں میں موجود ان کا جو اسی طبقے کیلئے ان کی سہولت کیلئے پالیسیاں بناتے ہیں۔ کرپشن کہانیاں کسی کو نظر نہیں آ رہیں۔ تازہ ترین رپورٹس کے مطابق ڈنمارک کرپشن فری ملک ہے، ہم 46ویں کرپٹ ترین ملک ہیں۔ بنگلہ دیش کا نمبر 165اور افغانستان کا نمبر 151ہے۔ کبھی سری لنکا اور ارجنٹائن کی یہی حالت تھی، وہ دونوں تو سنبھل گئے، ہم سب ان سے آگے ہیں، آج ہم جہاں کھڑے ہیں دس برس قبل بین الاقوامی جرائد میں ہمارے مستقبل کے بارے میں یہ سب کچھ لکھا جا چکا تھا، ہماری کہانی نئی نہیں برسوں پرانی ہے۔

جواب دیں

Back to top button