معاشی کھیل کے دائو پیچ

تحریر : محمد مبشر انوار (ریاض )
صدر ٹرمپ کی شخصیت کے حوالے سے ساری دنیا کی ایک ہی رائے ہے کہ وہ انتہائی ’’غیر متوقع‘‘ شخصیت کے مالک ہیں اور ان سے کچھ بعید نہیں ہوتا کہ وہ کس وقت کیا کہہ دیں یا کس وقت کیا کر گذریں، یہی وجہ ہے کہ ان کا سابقہ دور حکومت بھی انتہائی ہلچل لئے ہوئے تھا اور اب تک کا عرصہ اقتدار بھی بے یقینی کا رخ ہی دکھا رہا ہے۔ ان کی غیر متوقع شخصیت کسی ایک جہت یا حوالے پر ہی موقوف نہیں بلکہ ان کے اقدامات انتہائی حیران کر دینے والے ہوتے ہیں البتہ ایک حقیقت بلکہ مقصد واضح دکھائی دیتا ہے، جو انتخابی منشور میں بھی انہوں نے واضح کیا تھاکہ امریکہ کو پھر عظیم بنانا ہے، یہ الگ بات ہے کہ امریکہ کو عظیم بنانے کی تگ و دو میں ان کے اٹھائے گئے حالیہ اقدامات سے امریکہ کی کیا حالت ہو رہی ہے، یا اس کے حلیفوں میں کیسے کیسے شکوک و شبہات جنم لے رہے ہیں ،دنیا ان اقدامات سے بچنے کے لئے کیا طریقے اختیار کر رہی ہے ،اور ان کا اثر امریکہ پر کیا ہوگا،یہ سب انتہائی بے یقینی کی سی کیفیات لئے ہوئے ہے۔ سوال البتہ یہ ہے کہ معاشی اعتبار سے اٹھائے گئے حالیہ اقدامات کیا واقعی امریکہ کی ڈوبتی معیشت کو سہارا دے سکیں گے اور کیا اس طرح کے اقدامات سے معاشرے پر کیا اثرات مرتب ہوں گے،شہریوں کی قوت خرید باقی رہ سکے گی؟بالخصوص ان حالات میں کہ جب روزگار کے مواقع انتہائی کم ہوتے جارہے ہیں،کاروبار کے لئے سرمایہ داروں کی اولین ترجیح ٹیکنالوجی اور مصنوعی ذہانت بنتی جارہی ہے،امریکی صدر کے ٹیرف لاگو کرنے سے منڈیوں کی کیا حالت ہو گی اور شہریوں کی قوت خرید پر اس کا کیا اثر ہوگا،اس سے امریکی صدرکس طرح عہدہ برآں ہو سکیں گے؟کیا امریکی صدر ٹیرف کے اپنے فیصلوں سے رجوع کریں گے ،جیسا کہ تاحال انہوں نے ردعمل نہ دینے والے ممالک کے لئے ٹیرف پالیسی کو نوے دن کے لئے موخر کر دیا ہے جبکہ چین کے خلاف لگائے گئے ٹیرف میں اب تک 124% کا اطلاق کیا جا چکا ہے جبکہ ردعمل میں چین کی طرف سے جوابی ٹیرف کا سلسلہ بھی جاری ہے ،تو یہ رسہ کشی کہاں رکے گی کہ اس کا براہ راست اثر بہرطور صارف پر ہی پڑے گا۔
امریکہ کی جانب سے چین کے ساتھ اس مخاصمت کا سلسلہ نیا نہیں ہے بلکہ امریکہ اس کوشش میں چین کے پڑوس میں بیٹھنے کے لئے ، افغانستان میں دو دہائیاں خوار ہو چکا ہے جبکہ اس دوران اس کی خواہش کے برعکس اور چین کی خوش نصیبی کہ اسے اس وقت میں پروان چڑھنے کا بھرپور موقع ملا، جسے اس نے ضائع نہیں کیا اور آج چین ایک موثر ترین معاشی طاقت بن چکا ہے، جسے زیر کرنا امریکہ کے بس میں دکھائی نہیں دیتا۔ اس حوالے سے اپریل 2020، کووڈ کے ہنگام ایک تحریر بعنوان ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ میں لکھا تھا کہ اس حقیقت سے کسی کو بھی انکار نہیں کہ امریکہ کو اس وقت معاشی طور پر سب سے زیادہ مشکل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے کہ چین اس وقت ایک معاشی دیو کی حیثیت اختیار کر چکا ہے اور ہوشمند، قوم کا درد دل رکھنے والے امریکی اراکین پارلیمنٹ چین کی بڑھتی ہوئی معاشی طاقت سے متعلق امریکی پالیسی سازوں کو متنبہ کر رہے ہیں کہ خدارا ہوش کے ناخن لیں اور ایسی پالیسیاں مت بنائیں جو امریکہ کو معاشی طور پر مزید کمزور کرتی جائیں۔ قومی سلامتی اور تجارت کے درمیان توازن پیدا کر کے ہی اپنی حیثیت کو برقرار رکھا جا سکتا ہے نہ کہ تمام تر توجہ صرف قومی سلامتی پر مرکوز کرکے عالمی میدان میں اپنی حیثیت کو قائم رکھا جا سکتا ہے کہ چین ہمہ جہتی پالیسی پر گامزن ہے اور ہر طرح کے معاملات(قومی سلامتی و تجارت و تحقیق و ایجادات ) پر مسلسل محنت کرتے ہوئے دنیا بھر میں اپنا سکہ جما رہا ہے۔ امریکی رکن پارلیمنٹ کے مطابق امریکہ کو کسی کے بھی ترقی کرنے سے کوئی مشکل نہیں ہونی چاہئے لیکن موجودہ صورتحال میں امریکی پالیسی سازوں کو یہ خیال رکھنا چاہئے کہ کس طرح چین کے ساتھ عالمی سطح پر اپنی حیثیت کو برقرار رکھنا ہے ، اس میں توازن پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ جو اس صورتحال کی غماز ہے کہ اس وقت امریکہ کی ساری توانائیاں اور توجہ صرف ایک جانب مرکوز ہیں کہ کس طرح چین کی بڑھتی ہوئی معاشی حیثیت کو روکا جائے، جو یقینی طور پر ایک منفی سوچ ہے۔ آج ساری دنیا کرونا کے خلاف کامیابی پر چین سے مدد کی خواہاں ہے اور چین بھی اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دنیا بھر میں اپنے ڈاکٹرز ( جنہوں نے کرونا کے علاج میں بنیادی اور اہم کردار ادا کیا) کو ساری دنیا میں بھیج کر انسانیت کی خدمت کر رہا ہے۔ یہاں تک تو تصویر کا ایک رخ ہے تو دوسرا رخ کلیتاً مفادات سے بھرپور ہے۔امریکہ اور اس کے حلیف جو چین کی بڑھتی ہوئی معاشی حیثیت سے سخت خوفزدہ تھے، اس مشکل صورتحال سے سو فیصد فائدہ اٹھانے میں ناکام نظر آتے ہیں کہ چین اس مسئلے سے نہ صرف سنبھل چکا ہے بلکہ صرف چین ہی اس وقت ہر طرح کی صنعتی پیداوار دوبارہ شروع کر چکا ہے۔جبکہ باقی ساری دنیا اس وقت لاک ڈائون کا سامنا کر رہی ہے۔ باقی دنیا میں عوام الناس گھروں میں محبوس ہیں ، کسی قسم کی پیداواری سرگرمی دیکھنے میں نظر نہیں آ رہی ، ہر شخص انفرادی و اجتماعی طور پر خوفزدہ نظر آتا ہے، یہ وہ وقت ہے جب تمام بڑی ملٹی نیشنل کمپنیاں بھی شدید خسارے میں جاتی نظر آ رہی ہیں اور مالکان شدید مالی دبائو کا شکار ہیں۔ ایسے میں چین کی صنعتی سرگرمیاں دوبارہ بحال ہونے کا واضح مطلب یہ ہے کہ مستقبل قریب میں ساری دنیا کو ہر طرح کی اشیاء کی فراہمی چین کی طرف سے ہو گی اور یوں امریکہ و اس کے حلیف جو توقعات اس وائرس سے وابستہ کئے بیٹھے تھے وہ معکوس میں چلی جائیں گی۔ مراد ان حالات سے معاشی مفادات کشید کرنے کی تمام تر توقعات نہ صرف ختم ہو جائیں گی بلکہ اس کا الٹا نقصان باقی دنیا کی صنعت کو ہو گا، بے روزگاری بڑھنے کے قوی امکانات ہیں اور کئی ایک ممالک میں ریاستیں ، نجی شعبے سے وابستہ افراد کا روزگار یقینی بنانے کے لئے اقدامات بھی کر رہی ہیں۔ اس صورتحال کو بھانپتے ہوئے سعودی حکومت نے نہ صرف نجی شعبے کو واضح احکامات جاری کئے ہیں کہ اس دوران ملازمین کو کسی بھی طور ملازمت سے برطرف نہ کیا جائے تو دوسری طرف غیر ملکی تارکین وطن کے اقامتی ویزہ کی تین ماہ کے لئے بلامعاوضہ تجدید کرکے نجی شعبہ کے اخراجات کم کرنے میں بھی مدد فراہم کی ہے۔ علاوہ ازیں سعودی عرب میں سخت ترین اقامتی قوانین میں فوری نرمی کرتے ہوئے حکومت کی طرف سے اعلان کیا گیا ہے کہ غیر قانونی طور پر مقیم باشندے بھی اگر کرونا وائرس میں مبتلا ہیں یا اس مرض کی علامات پائی جاتی ہیں تو سرکاری و نجی ہسپتالوں میں ان کا علاج نہ صرف فری ہو گا بلکہ ان سے کسی قسم کی باز پرس بھی نہیں ہوگی جبکہ عام حالات میں غیر قانونی طور پر مقیمین کو علاج کی سہولت سرے سے میسر ہی نہیں ہوتی۔شنید تو یہ بھی ہے کہ اس وائرس کے پیچھے کہیں اسرائیل کے اقتدار پرست ، امریکی مفادات اور برطانوی سازشیں بھی موجود ہیں، اس میں کتنی حقیقت اور کتنا افسانہ ہے ، اس گرد کے بیٹھنے کے بعد سب عیاں ہو جائے گا لیکن اس لڑائی میں ابھی تک چین انتہائی صبرو تحمل سے اپنے معاشی مفادات کے ساتھ ساتھ قومی سلامتی کو بھی یقینی بنائے ہوئے ہے۔ بہر کیف موجودہ صنعتی صورتحال کے پیش نظر، مستقبل قریب میں سخت کساد بازاری کا عالم متوقع ہے اور سرمایہ داروں کی اکثریت اس وقت اپنے اثاثے اونے پونے بیچنے کے لئے تیار ہو گی، تب صرف ایک قوم ایسی نظر آئے گی جو ان بیمار صنعتوں کو خریدنے کی سکت رکھتی ہو گی، وہ صرف چین ہی ہو گی۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ آنے والے وقت میں چین صرف اپنی معاشی حیثیت کے بل بوتے پر دنیا بھر کو کنٹرول کر لے گا،یہ موجودہ حالات کے پیش نظر ایک توقع ہے،جو کسی دوسرے محرک کی بنیاد پر غلط بھی ہو سکتی ہے۔ گو کہ چین کو گھٹنوں کے بل بٹھانے کی امریکی کوششیں واضح طور پر ناکام ہو چکی ہیں ، اس کے باوجود ابھی تک امریکہ اور اس کے حواری مزاحمت پر مائل نظر آتے ہیں اور چین کی مصنوعات کو حیلے بہانوں سے مسترد کیا جا رہا ہے ، در حقیقت معاشی مفادات کے کھیل میں یہی وہ کواکب ہیں جو عام انسانوں کو کھلا دھوکہ دے رہے ہیں۔مخاصمت کا کھیل کہیں یا اجارہ داری کی خواہش کہ امریکی صدر امریکہ کو عظیم بنانے کی خاطر جن پالیسیوں کا اجراء کر رہے ہیں، درحقیقت اس سے متوقع نتائج حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکتے کہ امریکی معیشت بہرطور آج جس زبوں حالی کو پہنچ چکی ہے، معاشی اعدادوشمار اس کا بین ثبوت ہیں جو کسی بھی صورت چھپائے نہیں جا سکتے، کہ امریکہ اس وقت 36ٹریلین ڈالر کا بذات خود مقروض ہے، اور کون جانے کہ معاشی کھیل کے یہ دائو پیچ ، امریکی معیشت کو ڈبونے اور ڈالر کی قدر میں کمی کا باعث بن جائیں!!!