Column

منفرد رکھنا ہجوم شہر میں اپنا وجود

تحریر : صفدر علی حیدری
انسان اکثر ہر وقت بولتا ، بے تکان بولتا ہے ۔ سو اسے خاموشی کا درس دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ خاموشی بغیر محنت کے عبادت ہے ۔ حالاں کہ اس پر جتنی محنت لگتی ہے وہ کسی اور عبادت میں نہیں لگتی، مگر اس میں پڑتی ہے محنت زیادہ ۔کسی بزرگ نے کیا اچھی بات کی ہے ’’ تم پتھروں کو بولنا نہیں سکھا سکتے تو ان سے کم از کم چپ رہنا ہی سیکھ لو ‘‘۔کہتے ہیں بولنا چاندی ہے تو چپ رہنا سونا ۔ خاموشی کی شان میں ایسی ایسی باتیں کہی گئی ہیں کہ انسان سوچنے پہ مجبور ہو جائے کہ شاید اسے بولنا ہی نہیں چاہیے ۔ویسے آپس کی بات ہے’’ خاموشی کا درس دینے والے خود بھی خاموش رہنے کی کوشش کرتے تو ہمیں کبھی خاموشی کی اہمیت کا احساس نہ ہوتا ‘‘۔پی ٹی وی پر ایک ڈرامہ دکھایا گیا تھا ۔ یہ ایک عدالت کا منظر تھا ۔ ایک شخص نے غصے میں آ کر اپنے رقیب کو قتل کر دیا ۔ قاتل کا موقف تھا اس نے یہ قتل غصے میں آ کر کیا ۔ قریب کے گھر سے موسیقی کی آواز آ رہی تھی ۔ اور یہ کہ وہ نہیں جانتا تھا کہ وہ اس کی سابقہ محبوبہ کا شوہر ہے ۔وکیل نے یہ ثابت کرنے کے لیے کہ شور کے ہاتھوں تنگ انسان کچھ بھی کر سکتا تھا ۔ اس نے جج کا پنکھا خراب کروا دیا ۔ جج نے آواز سے تنگ آ کر عدالت کی کارروائی روک دی اور حکم دیا کہ کل تک پنکھا ٹھیک ہو جانا چاہیے ۔ اس کی آواز میرے کانوں پر ہتھوڑے برسا رہی ہے ۔اگلی پیشی پر جج پر مشتعل ہو گیا کہ پنکھا جوں کا توں ۔ اب وکیل بولا جج صاحب پنکھے کی ہلکی سی آواز نے آپ کو اس قدر پریشان کر دیا کہ آپ نے ایک بار
کارروائی معطل کر دی اور آج دوسری بار بھی یہی کچھ کرنے جا رہے تھے ۔ کیا یہ بات ثابت نہیں کرتی کہ شور سے تنگ انسان کچھ بھی کر سکتا ہے ۔جج نے مقدمے کا فیصلہ قاتل کے حق میں کر دیا ۔ قاتل باہر آیا تو اس کے دوستوں نے اسے کندھے پر اٹھا کر نعرے لگانا شروع دیئے ۔اگلے دن اخبار نے ان کی تصویر شائع جس پر کیپشن تھا’’ شور کے خلاف مقدمہ جیتنے والے خود شور مچا رہے ہیں ‘‘۔ کچھ عرصہ پر اخلاقیات پر ایک کتاب ’’ اخلاق عملی ‘‘ پڑھنے کا اتفاق ہوا ۔ کتاب کے آدھے صفحات زبان پر تھے ۔ صاحب کتاب نے اس کا عنوان  ’’زبان کی آفتیں ‘‘ باندھا ہے ۔ گویا زبان کی آفتیں اس قدر زیادہ ہیں کہ آدھی کتاب اسی پر کھپا دی گئی ۔اس سے خاموشی کی اہمیت کا پتہ چلتا ہے کہ اخلاقی اقدار کے فروغ میں خاموشی کا کردار کتنا اہم ہے ۔حکیم اسلام کا فرمان ذی شان ہے’’ اپنی زبان کی تیزی اس شخص پر مت آزمائو جس نے تمہیں بولنا سکھایا ہو ‘‘۔وہ فرماتے ہیں ہر چیز کی ایک زکواۃ ہے ، علم کی زکواۃ یہ ہے کہ جاہلوں کی باتوں پر صبر کیا جائے ۔شاعر نے کہا تھا جن پتھروں کو ہم نے عطا کی تھیں دھڑکنیں ان کو زباں ملی تو ہم پہ برس پڑے ۔کہیں پڑھا تھا کہ ایمان کی سلامتی دس میں سے نو حصے خاموش رہنے میں ہے ۔ گویا کہہ رہا ہے شور دریا سے سمندر کا سکوت جس کا جتنا ظرف ہے وہ اتنا ہی خاموش ہے۔میں سوچتا ہوں ہمارے خطباء ، علماء
اور جدید مداریوں (موٹی ویشنل اسپیکرز ) کا کیا بنے گا ۔ وہ جو اتنا بولتے ہیں ان کے ایمان کی کیفیت کیا ہو گی ۔مولا علیؓ فرماتے ہیں کہ بات کرو تاکہ پہچانے جائو۔ گویا جب زبان کا تالا کھلتا ہے تو پتہ چل جاتا ہے کہ انسان کے اندر کیا ہے ۔آپؓ ہی کا فرمان ہے جب علم بڑھ جاتا ہے تو کلام کم ہو جاتا ہے۔ گویا علم اور عالم بالعکس متناسب ہیں۔ اب اس لحاظ سے دیکھا جائے تو علماء سے زیادہ علم سامعین کے پاس ہوتا ہو گا جو خاموشی سے بات سنتے ہیں اور مولوی کے کہنے پر کہہ اٹھتے ہیںسبحان اللہ سبحان اللہ ایک بار ایک طالب علم نے پوچھا تھا کہ آپ کے پاس اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ سننا زیادہ چاہیے اور بولنا کم تو میں نے بے ساختہ کہا تھاتمہارے کان دو ہیں اور زبان ایکسو دو باتیں سنو تو ایک بات بولو۔استاد من افتخار شاہد نے کیا خوب فرمایا ہے جسموں کو ملبوس اٹھانے پڑتے ہیں لفظوں کو تحریریں سہنی پڑتی ہیںکچھ ہیروں کو رانجھے راس نہیں آتےکچھ رانجھوں کو ہیریں سہنی پڑتی ہیں ۔میں نے ایک بار اپنی بھابھی سے کہا میں سارا دن بولتا رہوں مجھے کچھ نہیں ہوتا مگر پانچ منٹ آپ لوگوں کی باتیں سن لوں ، سر میں درد پڑ جاتا ہے وہ بے ساختہ بولیںجب آپ بول رہے ہوتے ہیں ہماری کیفیت بھی یہی ہوتی ہے ۔ اس میں کیا شک ہے کہ دنیا میں شور سے بڑی کوئی آلودگی نہیں ۔ شور وہاں ہوتا ہے جہاں شعور نہ ہو ۔ سر سید احمد خان نے اپنے ایک مضمون بحث و تکرار میں اس کا بات کی خوب منظر کشی کی ہے ۔بچوں کو اکثر میں ایک بات کہتا ہوںبیٹا آپ ہمیں خاموشی اور توجہ کا تحفہ دیں ، ہم آپ کو وہ پڑھا دیں گے جو ساری عمر آپ کے کام آئے گا ۔ ظاہر ہے جب بچے خاموش ہی نہیں ہوں گے تو استاد کی بات پر توجہ کیسے دے پائیں گے ؟ اور توجہ نہ دی تو سمجھیں گے کیا ؟خاموشی کے بارے میں اتنا پڑھا ہے کہ سب پوچھیں تو بولنے کو دل نہیں کرتا ۔ مگر کیا کریں جس شعبہ سے تعلق ہے وہاں بات کریں تو بات بنتی ہے ۔ ظاہر ہے پرائیویٹ سکول کے پرنسپل صاحب ہمیں خاموش بیٹھے رہنے کے پیسے تو نہیں دیتے ۔ ہاں وہ یہ ضرور چاہتے ہیں کہ کلاس میں شور نہ ہو ۔ نقوی احمد پوری کیا کمال کے شاعر تھے ۔ ان کے شعر کا ایک مصرع اس کالم کا عنوان بنا ہےمنفرد رکھنا ہجوم شہر میں اپنا وجود بات جب چوپال میں ہو سب سے بہتر بولنا ۔بانو قدسیہ لکھتی ہیں کہ کبھی کبھی انسان کا خاموش ہو جانا ہی بہتر ہوتا ہے بجائے اس کے کہ؛ ہم لوگوں کو سنا کر بتائیں کہ ہم کیسا محسوس کر رہے ہیں، کِیونکہ یہ امر اُس وقت مزید تکلیف کا باعث بنتا ہے جب لوگ ہمیں سُن تو رہے ہوتے ہیں مگر ہمیں، ہماری کیفیت، درد و تکلیف کو نہیں سمجھ پا رہے ہوتے۔ اب ضروری نہیں کہ ہر جگہ خاموشی ہی مطلوب و مسنون ہو ۔ نکاح کے وقت تو تین بار کہنا ہی پڑے گاقبول ہے قبول ہے قبول ہے ۔کبھی کبھی ہم وہاں نہیں بولتے جہاں ہمارا بولنا بنتا ہو اور وہاں بول پڑتے ہیں جہاں بولنا نہیں بنتا۔ گویا ناداں گر گئے سجدے میں جب وقتِ قیام آیا۔ویسے اگر بولنا پڑ بھی جائے تو اپنے نوکیلے لہجوں کے دانت توڑ کر ان کو گول کر لیا کریں کیوں کہ الفاظ سے زیادہ لہجے دکھ دیتے ہیں آخر میں میرا ایک افسانچہ پڑھیے ۔ امید ہے کالم کا لفظ دوبالا ہو جائے ۔
ہے خاموشی افسانچہ صفدر علی حیدری
میں ایک پیف سکول چلاتا تھا ۔ سارے معاملات ٹھیک چل رہے تھے ۔ بس ایک مسئلہ تھا ۔ کلاسوں میں شور بہت ہوتا تھا ۔ میں بچوں اور اساتذہ کو سمجھا سمجھا کر تھک چکا تھا مگر یہ مسئلہ جوں کا توں برقرار تھا ۔نئی ٹیچر مس ردا کو اسکول میں آئے ہوئے ایک ماہ ہو چکا تھا ۔ وہ کلاس تھری کی انچارج تھیں ، جو سب سے زیادہ شور کیا کرتی تھی ۔ان کی کارکردگی نے مجھے سچ میں بہت متاثر کیا تھا ۔ ان کی کلاس سے کبھی شور سنائی نہ دیتا تھا ۔ ماہانہ میٹنگ میں ، میں سارے اسٹاف کے سامنے ان کی تعریف کر چکا تھا ۔ ایک دن میں ان کو سراہنے اور نقد انعام دینے کے ارادے سے ان کی کلاس میں گیا ۔ مس ردا اور کلاس کے کئی طلباء مزے سے سو رہے تھے۔

جواب دیں

Back to top button