Column

غزہ کی تباہی پر اسلامی ممالک کی بے حسی

تحریر : یاور عباس
کئی دہائیوں سے فلسطینی سرزمین پر امریکی پشت پناہی سے اسرائیل غاصبانہ قبضہ اور تسلط بڑھاتا رہا۔ ایک دفعہ اقوام متحدہ کے اجلاس میں ترکیہ کے صدر رجب طیب اردگان نے اسرائیل کے کئی نقشے دوران تقریر سب کے سامنے رکھ دئیے جس میں ہر دس سال بعد اسرائیل کی جغرافیائی حدود پہلے سے کہیں زیادہ ہوجاتی رہی دکھائی گئی ، اقوام عالم نے کبھی اسرائیلی جارحیت اور فلسطینی سرزمین پر قبضہ کو روکنے کی کوشش نہیں کی بلکہ اُلٹا اسرائیل کے ہاتھ مضبوط کئے، فلسطین اور اسرائیل کی جنگ میں کھلم کھلا اسرائیل کے اتحادی کے طور سامنے آتے ہیں ، سپر پاور امریکہ دنیا بھر کے کئی مسلمانوں کو عوامی حقوق اور عالمی امن کے نام پر کچل چکا ہے ، عراق ، افغانستان ، شام، لبنان اور کئی دیگر ممالک میں رجیم چینچ کیے گئے اور جنگیں تک مسلط کردی گئیں ، ہزاروں بے گناہ شہری جان سے مارے گئے ، امریکہ نے اُن ممالک سے دہشت گرد پکڑے نہ ہی ایٹمی ہتھیار برآمد کیے ، افغانستان سے امریکہ ناکامی کے بعد جس طرح بھاگا وہ دنیا نے دیکھا مگر فلسطین میں غزہ کے معصوم لوگوں پر کیمیائی ہتھیاروں سے حملوں کے باوجود مغربی دنیا اسرائیل کے ساتھ کھڑی ہے ، ہسپتالوں ، سکولوں پر حملے جنگی جرائم ہوتے ہیں ، معصوم بچوں کا قتل عام ہوتا رہا مگر دنیا بھر کے ممالک ستو پی کر سوتے رہے ، غزہ کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے لیے اسرائیل ہر وہ ہتھکنڈہ استعمال کر رہا ہے جس سے وہ کامیاب ہوسکے۔
اقوام متحدہ جنگ بندی کرانے میں ناکام ، عالمی اداروں کی بے بسی دنیا بھر میں دیکھی جارہی ہے عالمی امن کی تباہی کا کسی کو اندیشہ نہیں ، طاقتور ممالک نے اسرائیل کو کھلے عام غزہ پر بارود پھینکنے کی اجازت دے رکھی ہے ۔ عالمی دنیا کو سوچنا ہوگا کہ ایسا کب تک چلے گا، جو آگ فلسطین میں لگائی جارہی ہے اس کے شعلوں کی لپیٹ میں ہر کوئی آسکتا ہے۔
فلسطین اور اسرائیل کی پندرہویں جنگ کا آغاز 7اکتوبر 2023ء کو ہوا۔ ڈیڑھ سال گزرنے کے باوجود یہ جنگ ختم ہونے کو نہیں آرہا بلکہ اس کی شدت میں اضافہ ہورہا ہے ۔ اطلاعات کے مطابق اب تک 55ہزار سے زائد فلسطینی جام شہادت نوش کر چکے ہیں جبکہ ایک لاکھ پندرہ ہزار کے قریب زخمی ہیں ۔ عالمی استعمار کے خلاف فلسطین کی سیاسی ، عسکری اور دفاعی لحاظ سے ایران ، شام ، یمن بالواسطہ یا بلاواسطہ مدد کر رہے ہیں ، شام میں اسرائیل اور امریکہ رجیم چینج کرنے میں کامیاب ہوگئے بشارالاسد کی حکومت کا تختہ کردیا گیا ۔ بشارالاسد جابر اور ظالم حکمران ہی سہی مگر فلسطین کے معاملے میں اسرائیل کا ناک میں دم کر رکھا تھا ۔ اطلاعات کے مطابق ایرانی امداد شام کے راستے فلسطین پہنچتی تھی ۔ دانشوروں کے مطابق شام میں رجیم چینج کرنے کا بنیادی مقصد ایران کو کمزور کرنا، فلسطین کی سپلائی لائن کاٹنا تھا ۔ اسرائیل نے حماس کے سربراہ اسماعیل ہانیہ ، حزب اللہ کے سربراہ حسن نصراللہ، ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کا قتل ، ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کا قتل کر دیا اور پھر یہاں تک ہی نہیں ابھی ایران میں رجیم چینج کرنے یا پھر جنگی حملہ کرنے کی بازگشت سنائی دی جارہی ہے ۔ یہ سب واقعات دیکھنے کے باوجود عالمی دنیا خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہی ہے اور اسلامی دنیا بے حسی کا مظاہرہ کر کے شاید اپنی اپنی باری کا انتظار کر رہی ہے ۔
گزشتہ دنوں اسرائیل نے غزہ پر وحشیانہ بمباری کر کے نہ صرف عالمی ریکارڈ قائم کیا بلکہ دھماکوں کے بعد انسانی لاشوں کو فضا میں کئی فٹ تک بلند ہوتے ہوئے دیکھا گیا ہے ۔ دنیا بھر کے درد دل رکھنے والے مسلمان خون کے آنسو رو رہے ہیں اور اسلامی دنیا کے حکمران نہ صرف چپ سادھے ہوئے ہیں بلکہ اسرائیل کے ساتھ کاروبار کررہے ہیں ، اسرائیلی کی اقتصادی طاقت بڑھانے میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں ۔ عالمی سطح پر باتیں ہورہی ہیں کہ سعودی عرب جلد اسرائیل کو تسلیم کر لے گا اور پھر اس کے بعد پاکستان کو تسلیم کرنے پر رضا مند کر لیا جائے گا۔ یہ گریٹر اسرائیل کا خواب پورا کرنے کی کوششیں ہیں جس میں اسلامی ممالک کے سربراہان برابر کے شریک ہیں ۔اسرائیل کے خلاف محض رسمی بیانات اور جنگ بندی کے مطالبات کر کے کارروائی پوری کی جارہی ہے بلکہ بہت سارے اسلامی ممالک میں اسرائیل کے خلاف احتجاج کرنے پر بھی پابندی ہے ، پاکستان میں سابق سینیٹر مشتاق احمد کے ساتھ ہونے والا سلوک اس کی عملی مثال ہے ، پورے ملک میں واحد مرد مجاہد سابق سینیٹر مشتاق احمد ہی نکلا جس نے فلسطین معاملہ پر حکمرانوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالی مگر ہماری حکومت پر کچھ اثر ہوا ؟ غزہ میں حالیہ بمباری کی جو ویڈیوز منظر عام پر آئی ہیں اس سے ہر کوئی تڑپ گیا ہے مگر پاکستان میں کسی جگہ کوئی احتجاج ہوا ؟ پاکستان میں آزادی اظہار رائے کے اظہار کی بات کریں تو نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ شاید اب یہاں اسرائیل کے خلاف احتجاج کی بھی اجازت نہیں ہے ؟۔
اسلام کی بنیادی تعلیمات میں اخوت ، مساوات ، رواداری اور بھائی چارہ شامل ہیں ۔ غزہ میں ان تمام سنہری اصولوں کو پارہ پارہ کیا جارہا ہے مگر اسلامی دنیا بے گناہ مسلمان بچوں ، عورتوں ، بوڑھوں اور جوانوں کو اسرائیل کے غیض و غضب سے بچانے میں مکمل طور پر ناکام دکھائی دے رہے ہیں۔ آج بھی سوشل میڈیا کے ذریعے اربوں ڈالرز مسلمانوں سے کمائے جارہے ہیں مگر اسی سوشل میڈیا پر فلسطینی کے حق میں بات کرنے کی اجازت نہیں ہوتی ۔ جو کوئی اسرائیل کے خلاف ویڈیوز اپ لوڈ کرتا ہے وہ ڈیلیٹ ہوجاتی ہے اور بعض دفعہ اکائونٹ پر پابندی بھی لگ جاتی ہے ۔ اُلٹا عالمی استعمار سازش کے تحت مسلمانوں کو فرقہ وارانہ معاملات میں اُلجھانے میں مصروف عمل دکھائی دیتا ہے ۔ اسماعیل ہانیہ کی شہادت پر شیعہ سنی کارڈ کھیلا گیا اور ایرانیوں کو غدار قرار دینے کی مہم چلائی گئی ، ایرانی صدر ابراہیمی رئیسی کے قتل پر ایران کی دفاعی صلاحیت پر انگلیاں اُٹھائی گئیں ، حزب اللہ کے سربراہ حسن نصراللہ کی شہادت پر لوگوں کے کمنٹس پڑھیں ، اسلامی دنیا کب سمجھے گی کہ یہود و نصاریٰ آج بھی مسلمانوں کے خلاف سازشیں کررہے ہیں ۔ فرقہ واریت کا زہر گھول رہے ہیں ۔ ایک دوسرے کے خلاف نفرت کا زہر گھول رہے ہیں اور خود مسلمانوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹ رہے ہیں ۔ خدارا سمجھ جائو اور فلسطین کے معاملے پر اسرائیل کے خلاف یک زبان ہو کر اپنی اپنی حکومتوں کو مجبور کریں کہ وہ بزور طاقت اسرائیل کو روکیں وگرنہ اپنی باری کا انتظار کریں۔

جواب دیں

Back to top button