Aqeel Anjam AwanColumn

پانی کا بڑھتا بحران ۔۔۔ایک سنجیدہ مسئلہ

تحریر : عقیل انجم اعوان
گزشتہ دنوں ایک اخبار کی خبر نظر سے گزری ، لاہور میں واسا 14 اپریل کے بعد پانی کی راشنگ کرنے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے اگر یہی صورت حال ہے جو خبر میں بیان کی گئی ہے تو یہ پانی کے بحران کی ایک دستک ہے اگر اب بھی ہم نے اس دستک پر کان نہ دھرے تو ہم پانی کے ایک بڑے بحران میں پھنس کر رہ جائیں گے۔ پاکستان سیاسی ، معاشی و دہشت گردی کے بحرانوں کا سامنا کر ہی رہا تھا کہ اب پانی کا بحران بھی دستک دے رہا ہے۔ پاکستان پانی کے وسائل سے مالا مال ہے اور ہمالیہ کے گلیشیئرز سالانہ بارشوں جو کہ مغربی دریائوں  چناب، جہلم، سندھ  اور مشرقی دریائوں  راوی، ستلج  کے ساتھ ساتھ زیر زمین ذخائر کو بھر دیتی ہیں پر انحصار کرتا ہے جو 50 سے 80 فیصد پانی مہیا کرتے ہیں۔ تاہم، پاکستان میں آبادی میں اضافے کے ساتھ پانی کا استعمال بھی مسلسل بڑھ رہا ہے۔ جنوبی ایشیاء میں ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات کا سب سے زیادہ شکار ملک ہونے کے باوجود حکومت پانی کے وسائل کی ترقی اور تحفظ کی تدابیر پر توجہ نہیں دے رہی اس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ پانی کے ذخائر کی کمی ملک میں پانی کی سلامتی کے لیے خطرہ بن چکی ہے۔ اگر بارشیں معمول کے مطابق ہوتیں تو شاید کوئی توجہ نہ دی جاتی لیکن بارش کے دورانیے میں معمولی کمی نے پانی کی قلت کے خدشات کو بڑھا دیا ہے۔ اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (UNDP) کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان ان دس ممالک میں شامل ہے جنہیں 2025 تک شدید پانی کے بحران کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اگر حکومت اور عوام نے مل کر اس مسئلے کو حل نہ کیا تو 2030 تک پاکستان میں قحط کی وجہ سے خوراک کا سنگین بحران شروع ہو جائے گا جو 2050 تک تباہی مچاتا رہے گا۔ یہ صورتحال ہمیں مستقبل کے بحران کی سنگینی سے خبردار کر رہی ہے۔ عالمی بینک ، یونیسیف سمیت کئی بین الاقوامی تنظیموں کی رپورٹیں ہمیں پانی کی قلت کے خطرات سے بچنے کے لیے منصوبہ بندی اور حکمت عملی کی جانب متوجہ کر رہی ہیں۔ عالمی بینک کی ایک جامع رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے پاکستان میں غیر زرعی مقاصد کے لیے پانی کے استعمال میں نمایاں اضافہ ہو سکتا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق اگر درجہ حرارت میں تین ڈگری سیلسیس اضافہ ہوا تو 2047 تک پاکستان میں پانی کی طلب میں 60 فیصد اضافہ ہو سکتا ہے جبکہ درجہ حرارت میں مزید تبدیلی کے ساتھ پانی کے استعمال میں مزید 15 فیصد اضافہ ممکن ہے۔ حیرت انگیز طور پر پچھلی دو دہائیوں سے ماہرین خبردار کرتے آ رہے ہیں کہ پاکستان 2025 تک پانی کی قلت والے ممالک میں شامل ہو جائے گا اور آج کی صورتحال ظاہر کرتی ہے کہ پانی کے ذخائر خطرناک حد تک کم ہو چکے ہیں لیکن اس کے باوجود کچھ نہیں کیا جا رہا۔ ایشیائی ترقیاتی آئوٹ لک 2013 سے خبردار کرتا آ رہا ہے کہ پاکستان کے پاس صرف 30 دن کا پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت ہے جبکہ مختلف آب و ہوا والے ملک کے لیے 1000 دن پانی ذخیرہ کرنے کی بات کی جاتی ہے۔ اگر پاکستان میں پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت بڑھائی جاتی تو آج صورتحال مختلف ہوتی۔ لیکن اب وقت آ گیا ہے کہ پاکستان ہنگامی بنیادوں پر پانی کے استعمال انتظام اور ذخائر کو پائیدار طریقے سے تبدیل کرے۔ زرعی شعبے میں پانی کی بچت کے لیے جدید طریقے اپنانا بھی ناگزیر ہو چکا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ پانی کے حوالے سے کفایتی رویہ اپنانے کی بھی فوری ضرورت ہے۔ پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جہاں فی کس پانی کا استعمال دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ عوام میں شعور بیدار کرنا بھی اہم ہے تاکہ پانی کے کم سے کم استعمال کو یقینی بنایا جا سکے اور ساتھ ہی ساتھ پانی کے ذخائر میں اضافہ بھی ضروری ہے۔ فی الحال پاکستان کے پاس بڑے آبی ذخائر کے طور پر تین ڈیم ہیں منگلا، تربیلا، اور
ورسک  اور کچھ دیگر منصوبے جیسے چشمہ بیراج۔ اگر یہ مکمل بھرے ہوں تو بھی یہ صرف سات دن کا پانی ذخیرہ کر سکتے ہیں جبکہ ماہرین کے مطابق یہ صلاحیت کم از کم سو دن ہونی چاہیے۔ پڑوسی ملک بھارت نے اپنی صلاحیت چھ ماہ سے زیادہ بڑھا لی ہے، جبکہ ایک ترقی یافتہ ملک جیسے امریکہ میں پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت قریباً تین سال کی ہے۔ پاکستان اب بھی ایک ہفتے سے آگے نہیں بڑھا۔ ملک کو فوری طور پر ڈیم بنانے چاہیں تاکہ جو پانی سمندر میں ضائع ہو رہا ہے اسے ذخیرہ کر کے قابل استعمال بنایا جا سکے۔ ساتھ ہی نہری نظام کو موثر بنانے کی بھی سخت ضرورت ہے تاکہ پانی کی قلت پر قابو پایا جا سکے۔ شدید درجہ حرارت کے ماحولیاتی اثرات کو کم کرنے کے لیے اپ اسکیلنگ گرین پاکستان پروگرام کے تحت درخت لگانے کی مہم بھی ضروری ہے۔ حکومت نے پانی کے بے دریغ استعمال پر پابندیاں اور جرمانے عائد کرنے کا عمل شروع کیا ہے۔ عوام میں پانی کی اہمیت کے حوالے سے بیداری پیدا کرنا بھی ناگزیر ہو چکا ہے تاکہ اس نعمت کو ضائع ہونے سے بچایا جا سکے۔ حکومت پر لازم ہے کہ وہ تمام صوبوں میں پانی کی مساوی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے اپنے وسائل بروئے کار لائے کیونکہ ملک کی بقاء کو پانی کی قلت سے زیادہ خطرہ درپیش ہے۔ وسائل اور اقتصادی ترقی کی منصوبہ بندی کرنے والوں کو ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرنے اور اس مسئلے کے حل پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ پانی کی قلت کا حل ایک دن کا کام نہیں۔ فی الوقت پاکستان میں پانی کا بحران وقت کے ساتھ بڑھتا جا رہا ہے اور ہمارے دروازے پر دستک دے رہا ہے۔ اگر اس سنجیدہ مسئلے کو دیگر بحرانوں کی طرح نظر انداز کیا گیا تو ملک کو مستقبل میں شدید ماحولیاتی و اقتصادی اور سماجی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ لہٰذا یہ لازمی ہے کہ اس ماحولیاتی اور غیر پائیدار مسئلے کو سنجیدگی سے لیا جائے اور بروقت اقدامات کیے جائیں کیونکہ صرف موثر اور جدید حکمت عملی اپنا کر ہی ہم ایک محفوظ اور مستحکم پاکستان کی بنیاد رکھ سکتے ہیں۔

جواب دیں

Back to top button