Column

پی آئی اے نفع بخش ادارہ بن گیا؟

تحریر : امتیاز عاصی
حکومتی دعویٰ ہے پی آئی اے نفع بخش ادارہ بن گیا ہے ۔ قومی ائرلائنز واقعی نفع بخش ادارہ بن گیا ہے تو حکومت کو اس کی نجکاری کی کیا ضرورت ہے؟ پی آئی اے کو دو حصوں میں منقسم کر دیا گیا ہے ایک آپریشنل اور دوسرا کارپوریٹ بنایا گیا ہے ۔ اب ہوا کیا ہے سیانوں نے پی آئی اے کا تمام قرضہ کارپوریٹ میں ڈال دیا ہے اور دعویٰ کر دیا ہے پی آئی اے نفع بخش ادارہ ہو گیا ہے جب کہ اس کی تباہی کرنے والا عمران خان تھا۔ اہم بات یہ ہے پی آئی اے میں برسوں سے سیاسی جماعتوں کی ٹریڈ یونیز کام کر رہی ہیں جس میں پیپلز یونٹی اور پیاسی قابل ذکر ہیں ۔ اب تو ان دو یونیز کے علاوہ اور کئی یونیز بن چکی ہیں ۔ مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی نے اپنے ادوار میں کارکنوں کو بڑھ چڑھ کر ملازمتیں دیں ۔ گو ملازمت دینا کوئی جرم نہیں ہے جرم وہ ہے کسی کو میرٹ سے ہٹ کر ملازمت دی جائے ۔دونوں جماعتوں نے میرٹ کو ملحوظ خاطر رکھے بغیر ملازمتیں دیں۔ پی آئی اے کو مقروض ہونے کے باوجود ملازمین کو اتنی سہولتیں دی گئیں اتنی تعداد میں کوئی ریوڑیاں تقسیم نہیں کرتا۔ پی آئی اے برسوں سے بیل آئوٹ پیکیج پر چل رہا ہے ۔ پی آئی اے کے علاوہ قومی اداروں میں پاکستان اسٹیل اور ریلویز کی حالت اسی طرح کی ہے جہاں سیاسی بھرتیوںکے بھرمار نے اداروں کی کارکردگی کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ چلیں سیاسی بھرتیاں ہو گئیں ان ملازمین کو کم ازکم اپنے فرائض سرانجام دینے چاہیے تھے ۔ پی آئی اے کو سونے کی کان سمجھ کر کوریدا گیا اب اس ادارے کی حالت دیدنی ہے۔ تعجب ہے اٹھارہ جہازوں پر کام کرنے والے عملے کی تعداد دس ہزار ہے تو ایسے میں پی آئی اے کیسے نفع بخش ادارہ بن سکتا تھا۔ دستیاب معلومات کے مطابق پی آئی اے کی نجکاری میں آٹھ کمپنیاں حصہ لے رہی ہیں ۔ جو کمپنی پی آئی اے خریدے گی وہ ملازمین کو تین سال تک ملازمت میں رکھنے کی پابند ہو گی۔ عجیب تماشا ہے اڑتیس جہازوں میں سے صرف اٹھارہ جہاز فنکنشل ہیں ایسے میں ادارہ تباہ نہیں ہو گا تو کیا ہوگا۔ آٹھ سو تیس ارب روپے کے خسارے پر قومی ائر لائنز چل رہی ہے۔ آڈٹ رپورٹس میں یہ بات سامنے آئی جہازوں کی خریداری سے سیٹوں کی تبدیلی اور مسافروں کوریفرشمنٹ دینے کے معاملے میں کھربوں کا نقصان پہنچایا گیا۔ مسلم لیگ نون کے دور میں جب شاہد خاقان عباسی پی آئی اے کے چیئرمین تھے ہانگ کانگ کی کمپنی سے وہ جہاز خریدے گئے جو کمپنی گرائونڈ کر چکی تھی چنانچہ اسی دور میں بوئنگ 747 سیریز تین سو خریدے گئے حالانکہ مارکیٹ میں بوئنگ سیون فور سیون کی چھوٹی سیریز اور دیگر سیریز کے جدید ایئرکرافٹ موجود تھے۔ چنانچہ پہلے یہ جہاز لیز پر لئے گئے اور بعد ازاں خرید لئے گے حالانکہ اس وقت پی آئی اے کے کچھ افسران نے جہازوں کی خریداری پر شورغوغا کیا جنہیں بعد ازاں ملازمت سے ریٹائر کر دیا گیا۔ پیپلز پارٹی کے دور میں امریکن سافٹ وئیر کمپنی سے ٹکٹوں کی بکنگ سے لے کر سروس فراہم کرنے کے معاہدے کئے گئے جنہیں ڈیڑھ ڈالر تک لے جایا گیا جس سے پی آئی اے کو اربوں کا نقصان اٹھانا پڑا۔ اسی طرح ٹرانس ورلڈ ایوی ایشن کمپنی کو جہازوں کے اسپیر پارٹس اور پرزہ جات لینے کی کھلی چھٹی دیدی گئی۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں احمد سعید پی آئی اے کے ایم ڈی تھے، بوئنگ ٹرپل سیون آٹھ جہاز خریدے گئے جب کہ سٹور میں پڑے ایئربس اے تھری ٹین جہاز لیز پر لئے گئی جنہیں بعد میں پی آئی اے نے خرید لیا جس سے پی آئی اے کو اربوں کا نقصان اٹھانا پڑا۔ مسلم لیگ نون کے دوسرے دور میں سعودی ایئرلائنز ،ترکی اور قطر ایئرلائنز کو ہفتہ میں اسی پروازیں لانے کی اجازت دے دی گئی ۔2008میں اتحاد ائیرلائنز کی سترہ پروازیں تھیں جنہیں بڑھا کر 77 کر دیا گیا۔ عمان گلف ایئر لائنز کی سترہ پروازوں کو تیس کیا گیا اور سعودی ائیر لائنز کی تیس پروازوں کو ایک سو آٹھ کر دیا گیا۔ آڈٹ کے موقع پر انکشاف ہوا پی آئی اے کے مشیر نے اپنی ذاتی کمپنی رائل ایئرپورٹ سروس کو ان تمام ایئر لائنوں کے ساتھ کنٹریکٹ میں شامل کر لیا کہ پاکستان کے تمام ایئرپورٹس پر گرائونڈ سروسز رائل ایئرپورٹ
سروس ہی مہیا کرے گی۔ چنانچہ جو کنٹریکٹ پی آئی اے کو ملنا چاہیے تھا مشیر نے پی آئی اے کی بجائے ذاتی کمپنی بنا کر اتحاد گلف قطر سعودی ایئرلائنز اور ترکش ایئرلائنز کو سروسز مہیا کرنا شروع کر دیں۔ قیام پاکستان کے بعد ایئرلائنز کی ضرورت محسوس کی گئی چنانچہ قائد اعظم محمد علی جناح نے معروف صنعت کار ایم اے اصفہانی کو نئی ایئرلائنز اورینٹ ائیر ویز کے نام سے کلکتہ سے رجسٹرڈ کرائی گئی جس کے پہلے چیئرمین ایم اے اصفہانی تھے ۔ ایئروائس مارشل او کے کارٹر کو جنرل منیجر مقرر کیا گیا۔ چار جون 1947 کو کلکتہ سے رنگون کے لئے پہلی پرواز روانہ ہوئی ۔ پی آئی اے کی تباہی میں جن امور کا عمل دخل رہا ہے ان میں نااہل ڈائریکٹروں کی تقرری، کرپشن ، ملازمین کی یونینز کو سیاسی جماعتوں کی پشت پناہی، اور پی آئی اے میں قیادت کے فقدان نے قومی ادارے کو اس نہج تک پہنچایا ہے۔ بدقسمتی سے اب اس قومی ادارے کو بوجھ سمجھ کر اس کی نجکاری کی جا رہی ہے ۔ حیرت اس پر ہے ایک طرف حکومت پی آئی اے کو نفع بخش قرار دے رہی ہے تو دوسری طرف قومی ایئرلائنز کی نجکاری کا عمل بھی جاری ہے جو اس امر کا غماز ہے حکومت عوام کی آنکھوں میں دھول جھونک رہی ہے۔ پی آئی اے کی عظمت رفتہ کی بحالی کے لئے دن رات محنت کی ضرورت ہے ۔ اس مقصد کے لئے پہلے اقدام کے طور پر پی آئی اے سے فالتو ملازمین کو فوری طور پر ملازمت سے فارغ کرنا ہوگا۔ ملازمین کو ملنے والی ہوشربا سہولتوں پر نظر ثانی کی ضرورت ہے ۔ پی آئی اے کے غیر ضروری اخراجات کو فی الفور ختم کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ مستقبل قریب میں پی آئی اے کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنا مقصود ہے تو سیاسی جماعتوں کی ادارے میں مداخلت ختم کرنا ہوگی۔ ادارے میں کرپشن میں ملوث افسران اور ملازمین کو فوری طور پر ادارے سے فارغ کیا جائے اور ٹریڈ یونیز پر مکمل پابندی ہونی چاہیے ۔ حکومت یہ تمام اقدامات کر لے تو پی آئی اے کی ترقی ممکن ہے اور اگر پہلے کی طرح معاملات چلتے رہے تو ادارے کی ترقی خواب بن جائے گا۔

جواب دیں

Back to top button