Column

کینال منصوبہ کھپے ہی کھپے !

تحریر : شاہد ندیم احمد
دنیا میں پانی انسانی بقاء اور ترقی کے لیے انتہائی ضروری ہے، ماہرین جنوبی ایشیاء میں پانی کے مسئلے پر جنگیں چھڑنے کے خدشے کا اظہار کر رہے ہیں، پاکستان اور بھارت کے درمیان تنازع کشمیر کے علاوہ پانی کا تنازعہ بھی خاصہ سنجیدہ ہے، بنگلہ دیش اور بھارت کے درمیان بھی پانی کا تنازعہ موجود ہے، افغانستان بھی بعض ایسے آبی ذخائر بنانے کی کوشش کررہا ہے کہ جس سے پاکستان کی طرف آنے والے پانی میں کمی ہوسکتی ہے، جبکہ پاکستان میں پانی کے بحران سے نمٹنے کے لیے ایک جامع اور موثر حکمت عملی بنا نے کے بجائے پانی پر ہی ایک دوسرے سے الجھے جارہے ہیں ، ایک دوسرے کو ہی مورد الزام ٹھہرائے جارہے ہیں ، یہاں پر ڈیم بننے دیئے جارہے ہیں نہ ہی نہریں نکالنے دی جارہی ہیں، ہر ایک چیز پر سیاست کی جارہی ہے اور ہر مسئلے پر ہی سیاست چمکائی جارہی ہے، اس طرح پا نی کے بحران سے کبھی نمٹا جاسکے گا نہ ہی پاکستان کو کبھی گرین بنایا جاسکے گا ۔
اگر دیکھا جائے تو ہر دور اقتدار میں پا نی کو بچانے، اس کے درست استعمال میں لانے کی جہاں بہت ساری باتیں کی جاتی رہی ہیں، وہیں ملک کو گرین بنانے کی بھی بہت ساری کاوشیں کی جاتی رہی ہیں ، لیکن ان دونوں مسئلوں پر کوئی خاطر خواہ پیش رفت دکھائی نہیں دیتی رہی ہے ، اس بار بھی ایسا ہی کچھ ہورہا ہے ، گزشتہ دنوں گرین پاکستان انیشی ایٹو کے تحت دریائے سندھ سے 6نئی نہریں نکالنے کے منصوبے کا افتتاح کیا گیا تو اس پروجیکٹ کی سندھ کی ساری ہی سیاسی جماعتوں نے مخالفت کر دی ہے ، جبکہ اتحادی حکومت اسے متفقہ منصوبہ قرار دے رہی تھی ، اس ملک میں پہلے منصوبہ سازی ہوتی نہیں ہے ،اگر ہو جائے تو سب کو اعتماد میں لیا نہیں جاتا ہے اور جن کو اعتماد میں لیا جاتا ہے ،وہ بھی ہوا کا رخ دیکھ کر بدل جاتے ہیں،جیسا کہ حکو مت کے اتحادی بدل رہے ہیں ۔
ہر دور اقتدار میں ہی اتحادیوں کا وتیرا رہا ہے کہ اندر سے ایک پیج پر ہوتے ہیں اور عوام کو بیوقوف بنا نے کیلئے مخالف بیا نیہ بناتے ہیں ، ایک دوسرے کو دھمکاتے ہیں اور پھر ایک ہو جاتے ہیں ،اس بار بھی ایسا ہی کچھ ہورہا ہے ، ایک طرف پنجاب کی وزیر اطلاعات عظمیٰ بخاری کا کہنا ہے کہ دریائے سندھ سے نہریں نکالنے کے منصوبے کی منظوری صدر مملکت آصف علی زرداری نے دی ہے ، جبکہ وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ جواب دیتے ہیں کہ نہری منصوبہ پنجاب حکومت کا یکطرفہ اقدام ہے، اس منصوبے کی منظوری صدر زرداری نے نہیں دی ہے ، اس نہری منصوبے پر ہی چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول زرداری کا خطاب بہت ہی معنی خیز ہے، انہوں نے منصوبے کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم نے دریائے سندھ کو بچانا ہے، وزیر اعظم سندھ اور جنوبی پنجاب کے عوام کی آواز سنیں اور اس معاملے پر فوری اور منصفانہ فیصلے کریں، ہم نے سیاست کا مطلب خدمت سمجھا ہے، نفرت پھیلانا نہیں ہے، ہم ہمیشہ وفاق کے ساتھ کھڑا رہیں گے اور حکومت کے خلاف ہر سازش کو ناکام بنائیں گے، بلاول بھٹو زرداری ایک طرف حکومت سے اختلاف کررہے ہیں تو دوسری جانب ان کا ساتھ بھی دے رہے ہیں ۔
یہ سب کچھ ہی اقتدار کیلئے کیا جارہا ہے، میاں نواز شریف نے اپنی بیٹی اور آصف زرداری نے اپنے بیٹے کو وزارت عظمیٰ کی کرسی تک پہنچانے کے لیے اپنے پراجیکٹ شروع کیے ہوئے ہیں اور اپنے خوابوں کو پورا کرنے کے لیے کسی حد تک جارہے ہیں، مسلم لیگ ( ن ) کا کبھی نعرہ ہوتا تھا کہ ووٹ کو عزت دو، آج اس کی اعلیٰ ترین قیادت کس کو عزت دے رہی ہے ، یہ سار ی قیادت انتخابات میں ہارنے کے بعد فارم 47کے ذریعہ اسمبلیوں میں پہنچی ہے او ر وہی کچھ کر رہی ہے ، جوکہ اس کو کہا جارہا ہے، مسلم لیگ ( ن) نئی نہروں کی تعمیر کے منصوبے کی مخالف نہیں، لیکن سندھ اور جنوبی پنجاب کے عوام کی آواز سنتے ہوئے پیچھے ہٹنا بھی چاہے تو نہیں ہٹ سکے گی، یہ جن کا منصوبہ ہے ، وہ اس کی اجازت نہیں دیں گے، وہ دور کب کا جا چکا ہے کہ قومی مفاد کی خاطر اقتدار کو ٹھوکر ماردی جاتی تھی، اب تو اقتدار میں رہنے کیلئے اقرار کیا جارہا ہے کہ ایک پیج پر رہنے کیلئے ہر مرحلے سے گزر جائیں گے اور نہری منصوبہ کھپے ہی کھپے کہتے آگے بڑھ جائیں گے۔
پیپلز پارٹی کے کھانے اور دکھانے کے دانت بالکل ہی الگ ہوگئے ہیں، پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ( ن) میں آج کل ایک دوسرے سے بڑھ کر وفاداری دکھانے اور ایک پیج پر رہنے کی دوڑ لگی ہوئی ہے ، اس دوڑ میں کیسے ہو سکتا ہے کہ نہری منصوبے کی مخالفت کر کے خود کو پیچھے کرے اور مسلم لیگ ( ن) کو آگے آنے دے ، یہ اختلاف رائے اور گیڈر بھبھکیاں سندھ کے عوام کو بہلانے کیلئے دی جارہی ہیں اور سندھ کی پارٹیوں کو راستے سے ہٹانے کیلئے دی جارہی ہیں ، لیکن اس کے ساتھ وفاقی حکومت کی حمایت بھی کی جارہی ہے، اس طرح ایک طرف بھولے بھالے عوام راضی ہو جائیں گے اور ایک پیج والے بھی مان جائیں گے ، یہ سب کچھ پہلے بھی ہوتا آیا ہے ، اس بار بھی ایسا ہی ہو گا اور کوئی روک پائے گا نہ ہی ٹوک پائے گا اور نہر ی منصوبہ پائے تکمیل کو پہنچ جائے گا۔

جواب دیں

Back to top button