مقصد حیات

تحریر : حسیب بٹر ایڈووکیٹ
قارئین کرام ! آج ایک نہایت اہم اور فکر انگیز موضوع پر گفتگو کرنا چاہتا ہوں یہ کہ ’’ آج کا انسان سب کچھ جانتا ہے، صرف خود کو نہیں‘‘۔ یہ جملہ بظاہر بہت سادہ لگتا ہے، لیکن اس میں حکمت کا ایک سمندر پوشیدہ ہے۔ آج کا انسان چاند پر پہنچ چکا ہے، مریخ کی تسخیر کے خواب دیکھ رہا ہے۔ ایٹم کو مسخر کر چکا ہے، مشینوں کو عقل دے چکا ہے، مصنوعی ذہانت کی دنیا میں انقلاب برپا کر چکا ہے۔ وہ سمندروں کی گہرائیوں میں جھانک چکا ہے، فضا کی بلندیوں کو ناپ چکا ہے۔ اس نے دنیا کو ایک ’’ گلوبل ولیج‘‘ میں بدل دیا ہے۔ لیکن افسوس، اسی انسان نے ایک چیز کو نظر انداز کر دیا ہے۔ وہ چیز ہے خود انسان!
قارئین محترم ! آج کا انسان دوسروں کے دل و دماغ کو پڑھنے کے ہنر میں ماہر ہو چکا ہے، لیکن وہ اپنے دل کی کیفیت سے بے خبر ہے۔ وہ دوسروں کی شخصیت کو پرکھنے کا فن جانتا ہے، مگر اپنی اصل پہچان سے ناواقف ہے۔ وہ دنیا کے رازوں سے پردہ اٹھا چکا ہے، لیکن اپنی روح کے راز سے آج تک پردہ نہیں اٹھا سکا۔
قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’ اور تمہارے نفس میں ( ہم نے) اپنی نشانیاں رکھیں، کیا تم دیکھتے نہیں؟‘‘۔
یعنی اللہ تعالیٰ ہمیں خود اپنی ذات میں غور و فکر کی دعوت دیتا ہے۔ لیکن ہم نے کائنات کو تو جان لیا، خود کو بھول گئے۔
محترم قارئین ! ہماری زندگیوں میں بے چینی ہے، تنائو ہے، اضطراب ہے، افسردگی ہے۔ ہم خود کو پرسکون دکھاتے ہیں، لیکن اندر سے ٹوٹے ہوئے ہوتے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ ہم نے خود کو جاننے کی کوشش ہی نہیں کی۔ ہم نے کبھی اپنے اندر جھانکنے کی زحمت نہیں کی۔ ہم نے اپنی خواہشات کو تو پہچانا، مگر اپنے ضمیر کی آواز کو نظر انداز کیا۔
حضرت علی کرم اللہ وجہہ کریم کا قول مبارک ہے: ’’ جس نے اپنے آپ کو پہچان لیا، اس نے اپنے رب کو پہچان لیا‘‘۔
لیکن افسوس، آج کا انسان دوسروں کو خوش کرنے میں لگا ہے، سوشل میڈیا پر دوسروں کو متاثر کرنے میں مصروف ہے، اپنی اصل شخصیت کو بھلا چکا ہے۔ انسان کی اصل کامیابی یہی ہے کہ وہ اپنی ذات کو سمجھے، اپنے مقصد کو جانے، اپنی خوبیوں اور خامیوں سے آگاہ ہو۔ جو شخص خود کو نہیں جانتا، وہ اپنی زندگی کی سمت بھی نہیں جان سکتا۔ وہ ہوا کے رخ پر چلتا ہے، کبھی مشرق، کبھی مغرب۔ کبھی دوسروں کے خیالات میں گم، کبھی دوسروں کی خواہشات کا غلام۔ آج جب ہم تعلیمی اداروں میں علم کے سمندر میں غوطہ زن ہیں، کیا ہم نے کبھی سوچا کہ علم کا اصل مقصد کیا ہے؟ کیا صرف ڈگری حاصل کرنا؟ یا ملازمت پانا؟ یا پھر وہ علم حاصل کرنا جو ہمیں خود شناس بنائے؟ جو ہمیں یہ سکھائے کہ ہم کون ہیں، کیوں آئے ہیں، اور ہمیں کس راہ پر چلنا ہے؟۔
قارئین کرام! انسان کی کامیابی صرف ٹیکنالوجی، دولت، شہرت یا عہدے میں نہیں ہے۔ اصل کامیابی تو اس میں ہے کہ وہ اپنی روح کی گہرائیوں کو سمجھے، اپنے رب سے تعلق جوڑے، اپنے اندر کی روشنی کو پہچانے۔ آج ہمیں ضرورت ہے ایک اندرونی انقلاب کی۔ ہمیں خود سے سوال کرنے کی ضرورت ہے: میں کون ہوں؟ میری زندگی کا مقصد کیا ہے؟ کیا میں وہی ہوں جو دنیا مجھے سمجھتی ہے؟ کیا میری خوشی میرے اندر ہے یا باہر؟۔
جب انسان یہ سوالات خود سے کرنے لگتا ہے، تب ہی وہ اپنے اصل سفر کا آغاز کرتا ہے ،خود شناسی کا سفر، جو خدا شناسی کی طرف لے جاتا ہے۔
حکیم الامت علامہ اقبالؒ نے کیا خوب کہا ہے کہ
اپنے من میں ڈوب کے پا جا سراغ زندگی
تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن اپنا تو بن
محترم قارئین! یہ سچ ہے کہ آج کا انسان ہر چیز پر عبور رکھتا ہے، لیکن اپنی ذات پر بے اختیار ہے۔ اس نے دنیا کو جیت لیا ہے، مگر اپنے آپ کو ہار چکا ہے۔ اسے باہر کی دنیا کی زبانیں آتی ہیں، مگر دل کی زبان سمجھنے سے قاصر ہے۔
آخر میں، میں یہی کہوں گا کہ ہمیں اپنی زندگی کی مصروفیات میں سے وقت نکال کر خود کو جاننے کی کوشش کرنی چاہیے۔ یہی وہ شعور ہے جو ہمیں اصل کامیابی، اصل خوشی، اور اصل سکون دے سکتا ہے۔ اللہ ہمیں اپنی ذات کا ادراک عطا فرمائے۔ آمین۔





