Column

دین ۔۔۔ والدین ۔۔۔ زمین ۔۔۔ زبان

تحریر :صفدر علی حیدری

یہ کوئی نیا موضوع نہیں ہے۔ مجھ سمیت سیکڑوں لکھاری اس پر قلم فرسائی کر چکے، ہزاروں کالم چھپ چکے، پھر بھی یہ موضوع ایسا ہے کہ تشنہ لگتا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ اس حوالے سے کوئی عملی کام نہیں ہو رہا۔ ہماری حکومتیں تعلیمی حوالے سے کبھی کوئی مستقل تعلیمی پالیسی نہیں بنا سکی ہیں ۔ یوں محسوس ہوتا جیسے رات کو ان کو کوئی خواب آتا ہے اور صبح وہ اس پر عمل کرنا شروع کر دیتے ہیں ۔
نصاب کو مرتب کرتے ہوئے نہ بچے کی ذہنی استطاعت دیکھی جاتی ہے، نہ پڑھانے والے سے مشورہ کیا جاتا ہے کہ وہ جب بچوں کو پڑھاتا ہے انھیں کن مسائل کا سامنا ریتا ہے، کس طرح کی چیزیں بچوں کو پڑھنے کے لیے دینی چاہیے ، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ نصاب کی زبان کون سی ہونی چاہیے۔
ہر بار ہم نئی نئی باتیں سنتے ہیں اور ہر دوسرے چوتھے سال ہم نئی پالیسیاں دیکھتے ہیں ۔
کتنا بڑا ظلم ہے اور کیسی ستم ظریفی کہ ہر بار انگریزی کو بطور ایک ذریعہ تعلیم بنا کر اور طلبہ کے سروں پر مسلط کر دیا جاتا ہے۔
ہم کبھی اردو کی شان میں قصیدے سنتے ہیں اور کبھی انگریزی کی اہمیت پر ارباب بست و کشاد کے بھاشن سن کر سر دھنتے ہیں۔
حکومت کوئی بھی ہو، انگریزی کی اہمیت میں کوئی کمی کبھی واقع ہوتے نہیں دیکھی۔ اس سے بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ ہماری نظر میں ہماری اپنی زبان کی کیا اہمیت ہے اور انگریزی کی ہمارے نظام تعلیم میں کیا قدر و منزلت ہے۔ عموماً ہم کسی طالب علم کا ٹیسٹ لیں تو وہ بھی بدیسی زبان کا لیتے ہیں۔ جیسے علم کا معیار کوئی مخصوص زبان ہو جس کا آنا نہ آنا یہ طے کرے گا کہ وہ کوئی علم رکھتا ہے یا بالکل ہی کورا ہے۔
اس میں شک کوئی گنجائش نہیں ہے کہ انگریزی زبان بڑی اہمیت کی حامل ہے۔ یہ رابطے کی سب سے بڑی بین الاقوامی زبان ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہم اپنی قومی زبان کو دوسرے درجے کی زبان سمجھنا شروع کر دیں۔ اس کو عزت نہ دیں، اس کو پڑھنے، بولنے یا لکھنے میں عار محسوس کریں۔ ملک کے ایک سابق وزیر اعظم نے ایک بار کہا تھا کہ وہ حیران ہوتے ہیں جب سرکاری تقریبات انگریزی زبان میں ہو رہی ہوتی ہیں۔ ایک ایسی زبان میں جسے ملک کی اکثریت سمجھے سے قاصر ہوتی ہے۔
کہتے ہیں عدالتوں کے فیصلے بھی بدیسی زبان میں لکھے جاتے ہیں۔ کسی ایک آدھ مقدمے کا فیصلہ اردو میں لکھا گیا۔ مقام حیرت و افسوس ہے کہ ہم اردو کو بڑا ہلکا لیتے ہیں حالاں کہ یہ دنیا کی دس بڑی زبانوں میں سے ایک ہے۔ اگر ہندی کو بھی اُردو سمجھ لیا جائے تو عالمی درجہ بندی میں اس کا مرتبہ اور بھی بلند ہو جاتا ہے مگر افسوس ہم اس کو اہمیت دینے سے انکاری ہیں۔
یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ بچوں کو اس کی اپنی زبان میں تعلیم دینا کلیدی اہمیت رکھتا ہے۔ ظاہر ہے اگر آپ نے کسی کو کچھ سمجھانا ہو تو آپ وہ زبان اختیار کرتے ہیں جو دوسرے کو سمجھ آتی ہو۔ یہ بات واضح ہے کہ نصاب سے زیادہ نصابی زبان کی اہمیت ہوتی ہے۔ اچھے سے اچھا نصاب بھی زبان کے غلط انتخاب کی وجہ سے اپنی قدر کھو دیتا ہے اور یوں وہ بے اثر ہو کر رہ جاتا ہے۔
ہماری ارباب اختیار کو زبان کی تدریس اور زبان میں تدریس کا فرق تک واضح نہیں۔ انگریزی میں نصاب تعلیم کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ ہمارا بیشتر وقت بدیسی زبان سیکھنے سکھانے میں ضائع جاتا ہے۔ ہماری توانائی کو بڑا حصہ زبان سکھانے کی بے کار مشق میں کھپ جاتا ہے۔ یہ تو ایسے ہی ہے جیسے کوئی شخص ہاتھ والی چکی پر یہ کہہ کر آٹا پیسنا شروع کر دیں کہ مشینی چکی والا آٹا اچھا نہیں ہوتا۔
وقت ایک دولت ہے۔ ایک ایسی دولت کہ جس سے سب کچھ کمایا جا سکتا ہے۔ اقوام عالم کی تمام تر ترقی اسی کی رہین منت ہے۔ جو قومیں بروقت اور درست فیصلہ کرتی ہیں بہت آگے نکل جاتی ہیں۔ ان سے جیتنا تو رہا ایک طرف ان کی برابری کرنے والا کوئی نہیں ہوتا۔
ایک استاد کی حیثیت سے میں اکثر اپنے طلباء کو ایک بات سمجھاتا ہوں’’ اپنے دین، والدین، زمین اور زبان پر کبھی سمجھوتہ مت کرنا۔ یہ انمول چیزیں ہیں تمہارا اثاثہ ہیں۔ ان کا کوئی نعم البدل نہیں ‘‘۔ میں انگریزی زبان تو کسی بھی زبان کا دشمن نہیں۔ میں تو خود بچوں کو انگریزی گرامر پڑھاتا ہوں۔ مجھے اعتراض اس کے لازمی مضمون ہونے پر۔ مجھے اعتراض اس بات پر کہ انگریزی کو ذریعہ تعلیم بنا ہم سب کے سروں پر مسلط کر دیا گیا ہے۔ آپ نے کوئی اور زبان سکھانی ہے تو طلاب کو اس بات کی آزادی ہونے چاہیے کہ وہ اپنی مرضی کی زبان سیکھنے۔ اب خواہ وہ انگریزی ہو، فارسی ہو، عربی ہو یا فرنچ ۔ آپ کوئی بھی زبان سیکھنا چاہتے ہیں ، شوق سے سیکھئے۔ لیکن اس کے لیے فطری طریقہ اپنائیے۔ اس کا سکھانے کے لیے وہی طریقہ اپنائیے جو ہر بچے کو اپنی مادری زبان سیکھانے کے لیے فراہم کیا جاتا ہے۔ ایک بچہ جو کسی بھی ملک میں پیدا ہو اپنی مادری زبان دو تین سال میں باآسانی بولنا سیکھ لیتا ہے۔ نہ مکتب جاتا ہے، نہ کسی کتاب کو ہاتھ لگاتا ہے، نہ قلم کو چھوتا ہے۔
آپ ویسا ماحول فراہم کیجئے پھر دیکھیے ایک طالب علم کیسے زبان نہیں سیکھ پاتا۔
اب رہا نصاب اور اس کی زبان کا مسئلہ تو براہ کرم اس کو بخش دیجیے۔ نہ بدیسی زبان میں تعلیم دیجیے نہ مقامی زبان میں ، اپنا نصاب اپنی قومی زبان میں ترتیب دیجیے اور انگریزی یا کسی بھی زبان کو اختیاری مضمون کا درجہ دے دیجیے۔ ہم نے پانچویں جماعت تک اپنی قومی زبان میں تعلیم حاصل کی تھی۔ چھٹی میں جب گئے تو ہم خود سے انگریزی لکھنا، پڑھنا سیکھ چکے تھے۔ آج کل تین سال اسی بات پر ضائع کر دئیے جاتے ہیں۔
اگر آپ چاہتے ہیں کہ نئی نسل کو اپنے دین ، والدین ، زمین اور زبان سے پیار ہو تو اسے اپنی قومی زبان میں ترتیب دیا گیا نصاب پڑھائیے۔ جہاں تک اصلاحات کو تعلق ہے تو اس کو اسی طرح رہنے دیں۔ ممکن ہو تو اس پر غور کیجیے۔
تھوڑے لکھے کو بہت جانیے

جواب دیں

Back to top button