Column

غزہ کی حالت زار۔ ایک المیہ جس پر دنیا کو غور کرنا ہوگا

 

تحریر : ڈاکٹر جمشید نظر
اسرائیلی فوج نے غزہ میں صحافیوں کے خیموں پر بھی حملہ کیا جس کے نتیجہ میں ایک صحافی زندہ جل گیا جبکہ 7جھلس کر زخمی ہو گئے، ان حملوں کے دوران اسرائیلی فوج کی فائرنگ سے 14سالہ فلسطینی نژاد امریکی لڑکا بھی شہید ہوگیا۔ ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق اسرائیل میں ہلاک ہونے والے صحافیوں کی تعداد 200سے تجاوز کر چکی ہے۔ عرب میڈیا کے مطابق غزہ میں 18مارچ کو جنگ بندی معاہدہ توڑنے کے بعد سے اسرائیلی حملوں میں اب تک 500 بچے شہید ہو چکے۔غزہ کی وزارت صحت کے حکام کے مطابق اسرائیلی فوج 20 روز سے نسل کشی مہم میں مسلسل بچوں کو نشانہ بنا رہی ہے۔ اسرائیلی فوج جہاں بچوں ،صحافیوں کو نشانہ بنارہی ہے وہیں امدادی کارکن بھی ان کے حملوں سے محفوظ نہیں رہے، جنوبی غزہ کے شہر رفح میں 23 مارچ کو 15 امدادی کارکنوں کو فائرنگ کرکے شہید کردیا گیا ۔ریڈ کریسنٹ اور اقوام متحدہ کے حکام کے مطابق یہ 15 امدادی کارکن اسرائیلی فضائی حملوں کے بعد زخمیوں کی مدد کے لیے بھیجے گئے تھے مگر انہیں فائرنگ کر کے شہید کر دیا گیا اور ان کی لاشیں ایک ہفتے بعد ایک کم گہری قبر سے برآمد ہوئیں،ان میں سے ایک کارکن اب بھی لاپتہ ہے۔ابتدائی طور پر اسرائیلی فوج نے دعوی کیا تھا کہ انہوں نے اندھیرے میں بغیر لائٹس یا نشانات والی مشتبہ گاڑیوں پر فائرنگ کی تھی تاہم فلسطینی ریڈ کریسنٹ کی جانب سے جاری کردہ ایک ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایمبولینس، فائر ٹرک اور امدادی کارکنوں کی یونیفارمز واضح طور پر نظر آ رہی ہیں اس کے باوجود ان پر دانستہ طور پر فائرنگ کی گئی۔ان دنوں غزہ میں اسرائیلی فوج کی جانب سے کئے گئے دھماکہ کی ویڈیو دنیا بھر میں انسانی حقوق کے علمبرداروں کے لئے سوالیہ نشان بنی ہوئی ہے۔ویڈیو میں دھماکہ کے ساتھ فضاء میں انسانی جسم جن میں بچے بھی شامل ہیں اڑتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔اتنا ظلم ،اتنی بربریت، کوئی ان کو روکنے والا نہیں؟ اسرائیل 300سے زائد مرتبہ جنگ بندی معاہدے کو توڑ چکا ہے۔
ایڈولف ہٹلر نے جب یہودیوںکا بڑے پیمانے پرقتل عام کیا تو بعد میں لفظ ’’ نسل کشی‘‘ متعارف ہوا، سن1948میں اقوام متحدہ نے نسل کشی کے جرم کی روک تھام اور اس کا رتکاب کرنے والوں کے لئے سزا سے متعلق پہلا معاہدہ منظور کیا جسے نسل کشی کنونشن کہا جاتا ہے۔ 19دفعات پر مشتمل کنونشن میں درج ہے کہ نسل کشی قابل سزا جرم ہے اور اس جرم سے کسی کو استثنیٰ حاصل نہیں خواہ وہ آئینی حکمران ہوں،سرکاری عہدیدار یا عام لوگ ہوں،اس جرم کا رتکاب کرنے والوں پر مقدمہ اس ملک کی مجاز سرزمین پر یا عالمی عدالت میںبھی چلایا جاسکتا ہے۔اسی کنونشن کے تحت جنوبی افریقہ نے نیدر لینڈ کے شہر دی ہیگ میں قائم عالمی عدالت انصاف میں ایک دعوی دائر کیا تھا کہ اسرائیل فلسطینیوں کی نسل کشی کو روکنے اورکنونشن کے قوانین پر عملدرآمد کرنے میں ناکام رہا ہے ابھی عالمی عدالت انصاف کا فیصلہ آنا باقی تھا کہ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے پہلے ہی اپنا فیصلہ سناتے ہوئے عالمی میڈیا میں بیان دیا ہے کہ وہ عالمی عدالت انصاف کے کسی فیصلے کو نہیں مانے گا اورغزہ میں جنگ جاری رکھے گا۔ہٹلر کی طرح اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کا جنگی جنون بھی بڑھتا جارہا ہے جوتیسری عالمی جنگ کی وجہ بنتا جارہا ہے۔عالم انسانی کا آج اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو سے ایک سوال ہے کہ جس طرح ہٹلر کایہودیوں کے قتل عام پر نسل کشی کے خلاف کنونشن منظور کرایا گیا تھا آج اسی عالمی قانون پر خود یہودی عملدرآمد کیوں نہیں کررہے ؟ اسی طرح امریکہ جس طرح افغانستان میں انسانی حقوق کے نام پر جنگ مسلط کرتا رہاہے ٹھیک اسی طرح فلسطینیوں کے لئے ا نسانی حقوق کا جذبہ آج کہاں گیا؟ یہ وہ سوالات ہیںجن کے جواب اسرائیلی وزیراعظم اور امریکی صدر کے پاس نہیںہیں اور شائد تاریخ میں جب بھی ہٹلر کی بربریت کا ذکر ہوگا تو ان دونوں کا نام بھی ضرور لیا جائے گا۔

جواب دیں

Back to top button