ہم جنگل میں کیسے آ گئے؟

تحریر : احمد نبیل نیل
ہم ایک ایسے معاشرے میں رہ رہے ہیں جہاں اخلاقیات، قانون اور انسانیت صرف تقریروں میں زندہ ہیں۔ ہر روز سڑکوں پر، دفاتر میں، سوشل میڈیا پر جو کچھ ہوتا ہے، وہ یہ سوال اٹھاتا ہے: کیا ہم واقعی ایک ملک میں رہ رہے ہیں یا کسی جنگل میں؟ کل دفتر سے واپسی پر ایک ایسا واقعہ پیش آیا جو دل و دماغ کو جھنجھوڑ گیا۔ ایک موڑ پر ایک کار اور موٹر سائیکل کے درمیان معمولی سا ٹکرائو ہوتے ہوتے بچا۔ بس پھر کیا تھا، کار سے ایک نوجوان گاڑی سے اترا اور ادھیڑ عمر موٹر سائیکل سوار سے الجھ پڑا۔ تلخ کلامی، شور شرابا، گالم گلوچ، ہاتھا پائی۔ حیرت اس وقت ہوئی جب موٹر سائیکل سوار کے ساتھ موجود خاتون بھی لڑائی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے لگیں۔ میں عموماً ایسے معاملات میں مداخلت نہیں کرتا کیونکہ ویسے ہی لوگ خاموش تماشائی بن کر ٹریفک بلاک کر دیتے ہیں۔ مسئلے کا حل تو نہیں نکلتا، البتہ گزرنے والوں کو پریشانی ضرور ہوتی ہے۔ مگر اس بار میں کافی قریب تھا۔ تو فوراً بھاگ کر گیا اور جھگڑا ختم کروانے کی کوشش کی۔ نوجوان کے ساتھ گاڑی میں ایک لڑکی موجود تھی جس نے لیب کوٹ پہن رکھا تھا۔ حلیے سے وہ دونوں پڑھے لکھے معلوم ہوءے تھے، سوچا تعلیم کچھ تو اثر کرے گی۔ میں نے لڑکے سے نرمی سے کہا ’’ بھائی، آپ پڑھے لکھے ہو، جانے دو‘‘ وہ بولا ’’ غلطی ان کی ہے، اور اوپر سے گالیاں دے رہے ہیں‘‘، یہاں واضح کر دوں کہ صرف موٹر سائیکل سوار انکل ہی نہیں، گاڑی والا لڑکا بھی برابر کی سطح پر گالم گلوچ میں شامل تھا۔ لیکن میں نے معاملہ سلجھانے کے لیے دوبارہ کہا’’ بھائی، درگزر کرو، آپ کے ساتھ خاتون ہیں، اچھا نہیں لگتا‘‘، وہ گاڑی میں بیٹھنے ہی والا تھا کہ انکل نے پیچھے سے کوئی بات کہہ دی، تو نوجوان پھر غصے سے ان کی طرف لپکا۔ اس دوران گاڑی میں موجود لڑکی نے کسی کو فون کیا اور خاموش کھڑی سب کچھ دیکھتی رہی۔ ہم لوگ دوبارہ بیچ میں پڑے اور دونوں کی لڑائی ختم کرائی۔ ان انکل اور آنٹی کو جانے کی درخواست کی، لیکن ان کا بھی پارہ ہائی تھا۔ بہرحال، بڑی مشکل سے انھیں روانہ کیا۔میں نے سکھ کا سانس لیا، لیکن وہ سکون وقتی نکلا۔ جیسے ہی موٹر سائیکل سوار تھوڑا آگے گئے، ایک اور گاڑی نے آ کر ان کو روک لیا۔ اس میں سے ایک عمر رسیدہ شخص نکلا جو حلیے سے اس نوجوان کا والد معلوم ہوتا تھا۔ وہ گاڑی سے نکلتے ہی موٹر سائیکل سوار پر برس پڑا ، گالیاں، دھمکیاں اور ہاتھا پائی شروع کر دی۔ موٹر سائیکل سوار خاتون نے روکنے کی کوشش کی تو انھیں بھی جھڑک دیا گیا۔ یہ تشدد ابھی جاری ہی تھا کہ ایک ہٹا کٹا پہلوان زور زور سے گالیاں دیتا ہوا آیا:’’ کہاں ہے وہ؟ کہاں ہے وہ؟‘‘، مجھے لگا انکل نے اپنے بیٹے کو بلا لیا ہے۔ لیکن وہ بھی آ کر ان پر ہی چڑھ دوڑا۔ پھر چلاتے چلاتے ایک اور پہلوان بھی آ گیا۔ دونوں کہنے لگے: ’’ پتا ہے تم نے کس سے پنگا لیا ہے؟ ہم ان کے گن مین ہیں! یہ کر دیں گے، وہ کر دیں گے‘‘۔ اب لڑائی محض الفاظ کی نہیں رہی تھی، بلکہ طاقت کے مظاہرے کا میدان بن چکی تھی۔ ان انکل اور آنٹی کو جس طرح ان تین افراد نے تذلیل کا نشانہ بنایا، وہ منظر ناقابلِ برداشت تھا۔ ہم سب لوگ بیچ میں پڑے اور موٹر سائیکل سواروں کو وہاں سے بھیجنے میں کامیاب ہو گئے۔ ان کے جانے کے بعد ایک پہلوان نے لڑکے کے والد کی گاڑی کا دروازہ کھولا اور وہ بڑی چودھراہٹ سے گاڑی میں بیٹھ گیا۔ پھر میں نے ان تینوں کو ہنستے ہوئے دیکھا۔ میں وہ ہنسی نہیں بھول سکتا، جو میں نے ان ’’ طاقتور‘‘ افراد کے چہروں پر دیکھی، گویا وہ اپنی درندگی پر خوش ہو رہے ہوں ۔ ان کے انداز سے لگتا تھا، یہ سب ان کے لیے معمول کی بات ہے۔
یہ سب منظر دیکھ کر میں ششدر رہ گیا۔ یہ سب ایک ’’ معاف کر دو‘‘ سے بچایا جا سکتا تھا۔ ہم کس طرف جا رہے ہیں؟ ہماری سڑکیں اب خطرناک راستے بن چکی ہیں، جہاں ذرا سی چنگاری پورے ماحول کو جلا سکتی ہے۔ یہ سڑکیں صرف راستے نہیں، ہمارے سماجی رویوں کی عکاس بن چکی ہیں ، عدم برداشت، انا پرستی، اور طاقت کا نشہ۔ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ہر شخص کے اندر ایک آتش فشاں چھپا ہوا ہے، جو کسی بھی وقت پھٹ سکتا ہے۔ غصہ، خود پسندی اور جھوٹے وقار کی ایک خوفناک آمیزش ہمارے پورے معاشرے کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے۔
اسی دن میں نے ایک معروف اینکر کا پوڈکاسٹ دیکھا، جس میں انہوں نے پاکستان سے دبئی منتقل ہونے کی بنیادی وجہ سیکیورٹی کو قرار دیا۔ اس وقت تو مجھے وہ بات عام سی لگی، مگر اس واقعے کے بعد ان کی بات پر جیسے یقین آ گیا ہو۔ سیکیورٹی کا تو مسئلہ ہے ہمارے ملک میں۔ اگر کل ایسی ہی صورتحال کا میرے یا آپ کے کسی اپنے کو سامنا کرنا پڑے، تو کیا ہم خود کو محفوظ سمجھ سکتے ہیں؟ کیا ہماری بہن، بیٹی یا والدین ایسے جنونی لوگوں کا سامنا برداشت کر پائیں گے؟۔
اسی طرح اس واقعے نے مجھے جیل میں ریکارڈ ہونے والے ایک پروگرام کی یاد دلا دی، جس میں رپورٹر نے قیدی سے کوئی نصیحت کرنے کو کہا تو اس نے صرف اتنا کہا: ’’ اگر انسان دو منٹ کے لیے اپنے غصے پر قابو پا لے، تو دنیا جہنم بننے سے بچ سکتی ہے‘‘۔ اس ایک جملے میں کتنی گہرائی ہے، لیکن افسوس ہم میں سے بہت سے لوگ اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔
ہمارا مسئلہ یہ نہیں کہ ہمارے پاس وسائل کم ہیں۔ اصل مسئلہ ہمارے رویوں کا ہے۔ ہم نے تہذیب اور اخلاقی اقدار کو دفن کر دیا ہے۔ ہم سیکھنا نہیں چاہتے، سننا نہیں چاہتے، برداشت کرنا تو خیر دور کی بات ہے۔میرے کئی قریبی دوست حالیہ دنوں میں پاکستان چھوڑ چکے ہیں۔ جب بھی ان سے وجہ پوچھی تو ہر ایک کا جواب ایک جیسا تھا: ’’ اس ملک میں کچھ نہیں بچا‘‘ یا ’’ یہ ملک اب رہنے کے قابل نہیں رہا‘‘۔ اور میں، جو ہمیشہ ان سے بحث کرتا تھا، ان میں امید جگانے کی کوشش کرتا تھا، آج خود سوچنے پر مجبور ہوں ’’ شاید وہ ٹھیک کہتے ہیں‘‘۔ یہ ملک واقعی رہنے کے قابل نہیں رہا۔ لیکن کیا اس کا حل صرف ہجرت ہی ہے؟ یا ہم اس ملک کو ایسا بنا سکتے ہیں، جہاں عزت، امن، اور انسانیت سب کو میسر ہو؟ یہ فیصلہ ہم سب کو کرنا ہے۔ اگر ہم سب نے مل کر اسے قابلِ رہائش نہ بنایا، تو ایک دن، کسی دن انجام صرف ’’ ہجرت‘‘ ہوگا۔





