Column

غدار

تحریر : علیشبا بگٹی
یہ ضروری نہیں کہ اگر کوئی آپ کے ساتھ رہتا ہے۔ تو وہ ہمیشہ آپ کے ساتھ رہے گا۔ اور ہمیشہ آپ کا وفادار رہے گا۔ کیونکہ ماضی غدار وزیر اور غدار ساتھی کی داستان سے بھری پڑی ہے۔ جو تاریخ، سیاست اور طاقت کے کھیلوں میں بار بار دہرایا گیا ہے۔ یہاں کچھ غداروں کے اہم واقعات کا تذکرہ کرنا چاہتی ہوں۔ یہ نہایت نصیحت آموز واقعات ہیں۔ جن میں سمجھداروں اور سوچنے والوں کے لیے کافی سبق موجود ہے، جو حکمرانوں کو، مشیروں کا انتخاب سوچ سمجھ کر کرنے کی دعوت دیتا ہے۔
ہرپالوس، چوتھی صدی قبل مسیح میں سکندر اعظم کا خزانچی تھا۔ سکندر کی غیرموجودگی میں اس نے خزانے میں خیانت کی، رقم چوری کی اور یونان بھاگ گیا۔ بعد میں اس نے ایتھنز میں پناہ لی۔
بروٹس، سن 44قبل مسیح میں رومی سینیٹر تھا، جو رومن سلطنت کے عظیم لیڈر جولیس سیزر کا قریبی دوست تھا۔ جولیس سیزر کو سب سے بڑا دھچکا اُس وقت لگا جب اس کا قریبی دوست بروٹس بھی اس کے قتل میں شامل نکلا۔ بروٹس کی خنجر زنی پر سیزر کے وہ تاریخی الفاظ مشہور ہوئے۔ ’’ کیا تُو بھی، بروٹس ؟‘‘ بروٹس کو غداری کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ دوست ہی قاتل نکلا۔
جُداس اسکریوتی، پہلی صدی عیسوی میں عیسیٰ علیہ السلام کے 12حواریوں میں سے ایک تھا، جس نے صرف 30چاندی کے سکوں کے بدلے میں ان کی مخبری کی، جس کے نتیجے میں انہیں گرفتار کیا گیا۔ اور حضرت عیسیٌٰ کو یہودی حکام کے حوالے کر دیا۔ یہ واقعہ مسیحی تاریخ کا ایک اہم موڑ ہے اور ’’جُداس‘‘ کا نام آج بھی غداری کی علامت سمجھا جاتا ہے۔
ابو رغال، ابرہہ کا ہادی تھا۔ 570ء کے قریب یمن کے عیسائی بادشاہ ابرہہ کی مدد کی، جب یمن کا بادشاہ ابرہہ ہاتھیوں کی فوج کے ساتھ خانہ کعبہ پر حملے کے لیے مکہ آیا۔ تو ابو رغال نامی اس عربی نے اسے مکہ کا راستہ دکھایا۔ عربوں نے اسے غدار مانا اور اس کی قبر کو سنگسار کرنے کی روایت رکھی، جو صدیوں تک جاری رہی۔ وہ مکہ کا راستہ دکھانے والا غدار کہلاتا ہے۔
ایران کے آخری ساسانی بادشاہ یزدگرد سوم کو 636ء میں عربوں سے شکست کے بعد ایران کے کئی سرداروں نے تنہا چھوڑ دیا تھا، جنہوں نے اپنی جان بچانے کے لیے دشمنوں سے سازباز کی۔ انہی کی غداری نے ساسانی سلطنت کا خاتمہ کیا۔ اور اس کے ایک ملازم نے اسے قتل کر دیا۔
خارجی فرقے سے تعلق رکھنے والا عبد الرحمن ابنِ ملجم، جس نے خلیفہ چہارم حضرت علی رضی اللہ عنہ کو شہید کیا۔ اسے اسلامی تاریخ کا ایک بڑا غدار سمجھا جاتا ہے۔
11 ویں صدی میں قراخانی سلطنت وسطی ایشیا کی ایک طاقتور ترک سلطنت تھی، جس نے اسلام قبول کرنے والے پہلے ترک حکمران خاندان کے طور پر تاریخ میں مقام حاصل کیا۔ قراخانی سلطنت کے ایک شہزادے نے سلطنت کی طاقت اور تاج و تخت کی لالچ میں اپنے ہی بھائی کے خلاف بغاوت کی۔ اُس وقت قراخانی سلطنت کو اندرونی اختلافات اور بھائیوں کے درمیان اقتدار کی کشمکش کا سامنا تھا۔ اس شہزادے نے صرف بغاوت ہی نہیں کی، بلکہ سلطنت کے دشمنوں سے خفیہ اتحاد بھی کر لیا۔ جو کہ ترک روایات اور اسلامی اقدار دونوں کے خلاف تھا۔ اس نے اپنے بھائی کی حکومت کو کمزور کرنے کے لیے دشمنوں کے ساتھ سازباز کی۔ یہ غداری وقتی طور پر اسے فائدہ دیتی محسوس ہوئی، لیکن وہی دشمن جن سے اس نے اتحاد کیا تھا، بعد میں اس کے خلاف ہو گئے۔ نتیجتاً، نہ صرف اسے اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑا بلکہ قراخانی سلطنت بھی اندرونی خلفشار کا شکار ہو کر کمزور ہو گئی اور آہستہ آہستہ زوال کی طرف چلی گئی۔ یہ واقعہ ترک تاریخ میں ’’ خانوادگی غداری‘‘ یعنی خاندان کے افراد کی طرف سے خاندان ہی کے خلاف سازش، کی ایک مثال کے طور پر یاد رکھا جاتا ہے۔ یہ سکھاتا ہے کہ ذاتی لالچ اور اقتدار کی ہوس کس طرح پورے خاندان اور سلطنت کو تباہ کر سکتی ہے۔
سلطان صلاح الدین ایوبی کے دور میں ایک قاضی نے صلیبیوں سے مل کر سازش کی، اور یہ واقعہ 1187ء کے قریب پیش آیا، جب صلاح الدین ایوبی صلیبیوں کے خلاف اپنی فتوحات میں مصروف تھے۔ یہ قاضی ایک خفیہ سازش میں ملوث تھا جس کا مقصد صلیبیوں کو اندرونی مدد فراہم کرنا تھا۔ تاہم، سلطان صلاح الدین ایوبی کو اس سازش کا علم ہو گیا، اور انہوں نے نہ صرف اس سازش کو ناکام بنایا بلکہ قاضی کو اس کے انجام تک بھی پہنچایا۔ 1187ء وہی سال ہے جب صلاح الدین ایوبی نے جنگِ حطین میں صلیبیوں کو تاریخی شکست دی اور بیت المقدس فتح کیا تھا۔چنگیز خان نے جب اپنی سلطنت کو وسطی ایشیا تک پھیلایا، تو کئی قبیلے اس کے وفادار تھے۔ لیکن قراقلپاق قبیلے کا سردار، جسے چنگیز نے عزت دی تھی، 1219ء میں بغاوت پر اُتر آیا۔ چنگیز خان نے اسے غداری کے جرم میں سخت سزا دی۔
خلجی سلطنت کے دور میں وزیر خواجہ قاضی نے 1315ء میں غداری کی تھی۔ یہ غداری سلطان علا الدین خلجی کے آخری دورِ حکومت میں ہوئی تھی، جب سلطنت میں اندرونی سازشیں بڑھ گئی تھیں۔ خواجہ قاضی سلطنت کے اہم وزیروں میں سے تھا، لیکن بعد میں اس نے بغاوت یا غداری کی کوشش کی، جس کا انجام ناکامی اور انجام کار سزا کی صورت میں نکلا۔
ملک اشرف 14ویں صدی میں دہلی سلطنت کا وزیر تھا۔ اس نے دہلی سلطنت کے کمزور سلطان کے خلاف سازش کی اور خود کو بادشاہ بنانے کی کوشش کی۔ اس کی غداری سے سلطنت میں اندرونی اختلافات بڑھے اور تیمور نے دہلی پر حملہ کیا، جس سے سلطنت کمزور ہو گئی۔
امیر خورشید نے مغل بادشاہ اکبر کے خلاف گوالیار کے محاذ پر بغاوت کی، اور یہ واقعہ 1562ء میں پیش آیا۔ امیر خورشید ایک بااثر مغل امیر تھا، لیکن اس نے اکبر کی ابتدائی حکومت کے دوران عدم اطمینان اور طاقت کی ہوس میں بغاوت کی۔ گوالیار کا قلعہ اُس وقت ایک اہم دفاعی مقام تھا، اور امیر خورشید نے وہاں سے بغاوت کی قیادت کی۔ اکبر کے وفادار جرنیلوں نے جلد کارروائی کرتے ہوئے امیر خورشید کو قلعے سے نکال کر گرفتار کر لیا۔ بعد ازاں، اُسے عدالت میں پیش کیا گیا اور سزا دی گئی یہ واقعہ اکبر کے ابتدائی دورِ حکومت میں پیش آنے والی کئی بغاوتوں میں سے ایک تھا، جب وہ اپنی مرکزی حکومت کو مضبوط کر رہے تھے۔
اولیور کرومویل 17ویں صدی میں انگلینڈ کا سیاستدان اور فوجی لیڈر تھا۔ جس نے بادشاہ چارلس اول کو قتل کروایا اور بادشاہت کا تختہ الٹ کر خود ’’ لارڈ پروٹیکٹر‘‘ بنا۔
میر جعفر 1757ء میں نواب سراج الدولہ کا کمانڈر تھا۔ پلاسی کی جنگ میں انگریزوں سے مل گیا، اور جنگ میں اپنی فوج پیچھے ہٹا لی، جس کے نتیجے میں نواب سراج الدولہ شکست کھا گیا۔ اس غداری نے برصغیر میں انگریزوں کی حکومت کی بنیاد رکھی۔ میر جعفر کو تاریخ میں ’’ بنگال کا غدار‘‘ کہا جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے بنگال پر انگریزوں کا قبضہ ممکن ہوا۔
میر صادق 1799ء میں سلطان ٹیپو کے قریبی رکن تھا۔ مگر دشمن سے سازباز کی۔ سرنگاپٹم کی جنگ میں انگریزوں کی مدد کی۔ جب جنگ جاری تھی، میر صادق نے قلعے کے دروازے کھول دئیے۔ انگریزوں کا حملہ آسان بنایا۔ اور اپنے ہی سپاہیوں کو تنہا چھوڑ دیا۔ نتیجتاً، ٹیپو سلطان شہید ہو گئے۔ میر صادق کی غداری نے ہندوستان کی ایک بڑی مزاحمتی قوت کو مٹا دیا۔
بینڈکٹ آرنلڈ جو 18ویں صدی کے آخر میں امریکی انقلابی جنگ کے دوران امریکہ کا جنرل تھا۔ یہ امریکہ کی جنگِ آزادی کا ہیرو تھا۔ لیکن بعد میں وہ برطانیہ کے ساتھ خفیہ معاہدہ کر کے اپنی فوجی معلومات دشمن کو دینے لگا۔ اس کا راز فاش ہوا تو وہ فرار ہو گیا۔ امریکہ میں ’’ بینڈکٹ‘‘ لفظ غدار کے مترادف ہوگیا۔
میری نظر میں غدار کو پہچاننے کا سادہ سا پیمانہ ہے۔ وہ یہ ہے کہ جو آپ کے دشمنوں کو آپ کا دوست بنانے کی بجائے ، آپ کے مخلص لوگوں کو آپ سے دور کر دے۔ تو سمجھ جائیں، ایسا بندہ آپ کی خوشامد اور اپنی چرب زبانی سے آپ کو خوش تو کر رہا ہے۔ مگر دراصل وہ آپ کی جڑیں کاٹ رہا ہے۔

جواب دیں

Back to top button