گرم ہوا کے تھپیڑے منتظر ہیں

تحریر : سیدہ عنبرین
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہمارے لیے اخلاقیات کی اہمیت ختم ہوتی جارہی ہے، اقتصادیات کی اہمیت اس لیے باقی ہے کہ بھوکوں مرنے کا خوف شدید تر ہوتا چلا رہاہے، لیکن ہم روحانیت پر اس لیے زیادہ یقین رکھتے ہیں کہ ہمارے تمام مسائل کا حل اس میں موجود ہے، بس اسی سوچ نے ہمیں عملیات سے کوسوں دور کر دیا ہے، ہم زندگی کے ہر لمحے میں پردہ غیب سے کسی مدد کے منتظر رہتے ہیں اور یہ بھول جاتے ہیں کہ خدا نے سعی کرنے کا حکم دے رکھا ہے اور واضع کر دیا ہے جس نے جتنی سعی کی اسے اس قدر ملا۔ مشرقی ممالک کے سیاستدانوں میں ایک نیا مرض سرایت کر رہاہے کہ خدا نے اگر انہیں زندہ رکھا ہوا ہے اور اب تک انہیں اپنے پاس نہیں بلایا تو وہ یقیناً ان سے کوئی بڑا کام لینا چاہتا ہے، یہ سوچ ان مشرقی ممالک میں ہے جہاں کرپشن اپنی انتہائوں کو پہنچی ہے۔ اقرباء پروری اپنے عروج پر ہے اور فسطانیت کا راج ہے۔
مشاہدے میں آیا کہ اقتدار کے حصول کیلئے جدوجہد کرتے اور اقتدار سے نکلنے کے بعد یہ سوچ اس طرح حملہ آور ہوتی ہے جیسے ’’ ہارٹ اٹیک ‘‘ آتا ہے۔ حصول اقتدار کے بعد منصب پر بیٹھا شخص ازخود اختیارات کے تحت اپنے آپ کو تسلی دینے میں مصروف رہتا ہے کہ قوم کی کایا پلٹنے میں اسے ایک سے زیادہ ٹرم درکار ہے اور دوسری یا تیسری ٹرم اللہ تعالیٰ نے اس کے مقدر میں لکھ دی ہے، بعض سیاستدان تو ایسے بھی ہیں جنہیں اپنے چوتھی مرتبہ وزیر اعظم بننے کا یقین تھا، انہوں نے اپنی اسی خواہش کے زیر اثر انتخابات میں حصہ لیا، اپنی راہ کے تمام کانٹے چنوانے کیلئے ہر ادارے کو استعمال کیا، لیکن شومئی قسمت وہ چوتھی مرتبہ وزیر اعظم نہیں بن سکے، لیکن انہیں روحانیت پر یقین ہے، انہیں بھی یہ خیال بار بار تسلی دیتا ہے کہ خدا نے انہیں اگر اب تک زندہ رکھا ہے تو وہ ان سے کوئی بڑا کام لینا چاہتا ہے، وہ یہ بھولے بیٹھے ہیں کہ تین مرتبہ اقتدار بھی انہیں شاید اسی لیے دیا گیا تھا کہ اگر ان کے ذہن میں کوئی بڑا کام ہے تو کر گزریں۔ ایک سے زائد مرتبہ ان کے مخالفین ان کے زمانہ اقتدار میں کہتے پائے گئے یہ ’’ منہ اور مسور کی دال‘‘، یہ کام بھی ان ہی کے زمانہ اقتدار میں ہوا، مسور کی دال جو غریب آدمی کو تنور پر روٹی کے ساتھ مفت ملا کرتی تھی وہ دو سو روپے کلو کو پہنچی۔
خالق کائنات کی طرف سے اب تک زندہ رکھنے والا ’’ اٹیک‘‘ بنگلہ دیش کی سابق وزیر اعظم حسینہ واجد کو ہو چکا ہے اسی اٹیک کے عالم میں انہوں نے سوشل میڈیا کے ذریعے انتہائی جذباتی گفتگو کرتے ہوئے اپنے ورکرز اور اپنے چاہنے والوں سے خطاب کے دوران انہیں یہ خوشخبری سنائی، بتایا جاتا ہے ان کے بیشتر ورکر اس حوالے سے حد درجہ نا امید ہیں اور ورکرز کی ایک قلیل تعداد پردہ غیب سے کسی معجزے کی توقع رکھتی ہے، وہ بھی اس امید پر زندہ ہیں ،’’ شیخ حسینہ ایک واری فیر ‘‘، حسینہ شیخ کے زمانہ اقتدار میں ایک مخصوص طبقے کی پانچوں گھی میں اور سر کڑاہی میں تھا ، وہ بھی پرامید ہیں اور آسمان کی طرف دیکھ دیکھ کر کہتے ہیں ’’ میرے سپنوں کی رانی کب آیگی تو؟‘‘۔ شیخ حسینہ زندگی بھر کبھی بھی مقبولیت کے اس درجہ پر فائز نہ ہو سکیں کہ کسی کے سپنوں میں آتیں تو اس کا آئندہ دن خوشگوار گزرتا، لیکن ظلم جبر اور فسطانیت کے زور پر انہیں طویل عرصہ اقتدار میں رہنے کا موقع ملا، وہ ابھی اقتدار میں واپس آکر کوئی ایسا بڑا کام کرنا چاہتی ہیں جو انہیں اب تک معلوم نہیں ہو سکا، کیونکہ غیب کا علم تو خدا کے پاس ہے۔
پاکستانی سیاستدانوں میں ایک مختلف مرض پھیل رہاہے، اس مرض کا اٹیک عموماً ایسے ایام میں دیکھنے میں آتا ہے جب حکومت ناکام ہونے کے بعد ہر سطح پر مسترد ہو چکی ہو، اس کے اقدامات سے ثابت ہو چکا ہے کہ اب اس کے پلے کچھ نہیں رہا، پھر بھی وہ اپنی بلے بلے کرانے کیلئے کچھ ایسی بیان بازی اور اشتہار بازی شروع کر دیتی ہے جس سے اندازہ ہو جاتا ہے اس پر اس بیماری کا اٹیک آچکا ہے۔ بیماری کا نام ہے معدنیات کے زور پر قرض اتارو پروگرام، یہ اٹیک گزشتہ پچاس برس میں مختلف سیاستدانوں پر ہوا، جو اقتدار میں تھے۔ گزشتہ پچاس برس میں ہر کمزور اور لرزتی ہوئی حکومت کے آخری ایام میں پاکستان کے کسی نہ کسی حصے سے معدنیات میں سے کسی ایک کے بڑے ذخائر ملنے کی خبر ملی لیکن اقتدار ختم ہونے کے بعد معلوم ہوا حقیقت کچھ نہ تھی صرف ’’ ہوا‘‘ تھی۔
پاکستان میں سوئی گیس کے ذخائر جب بھی جہاں بھی دریافت ہوئے بتایا گیا اب ہم دنیا کے ہر معاملے میں خود کفیل ہو جائینگے اور قرض بھی اتار لیں گے۔ جب کہیں سے ناف چپڑنے کیلئے کافی تیل برآمد ہوا سرکاری سطح پر جشن شروع ہو گئے کہ ہم مالا مال ہو گئے ہیں، اب مستقبل کی کوئی فکر نہیں، سب قرض چکا دیں گے، بلوچستان سے سونے کے ذخائر برآمد ہونے پر خوشحال مستقبل کا جو ڈھنڈورا پیٹا گیا وہ قوم کو آج تک یاد ہے، تاثر کچھ ایسا دیا گیا کہ ہر شہری جائے گا اور اپنی جیبیں سونے کے ٹکڑوں سے بھر بھر کر لایا کری گا، سونا مٹی کے بھائو ملے گا۔ غریب آدمی یہی سوچ کہ زندہ رہا کہ اب وہ بھی بیٹی کے ہاتھ پیلے کر سکے گا، اسی خواب میں سو روپے تولہ سونا اڑھائی لاکھ روپے تو لہ ہو گیا، قرض اتارو ملک سنوارو مہم کا جو حشر ہوا وہ کون بھول سکتا ہے، قرض اتارنے میں معدنیات اور قومی ترقی میں اہم کردار ادا کرتی ہیں، لیکن اسی صورت میں جب ہاتھ روک کر قرضے لیے جائیں، انہیں منافع بخش منصوبوں میں خرچ کیا جائے، ہزاروں ارب کا قرض اگر ایسے منصوبوں میں لگا دیا جائے جہاں کئی برس تک سیاسی نمبر بنانے کیلئے دو ارب روپے ماہانہ کی سبسڈی دینی پڑے تو پھر قرض اور اس کے سود کی رقم بڑھتی رہتی ہے، ایسے ملک میں پانی کے دریا کے بجائے سیال سونے کے دریا بھی بہہ نکلیں تو قرض ادا نہیں ہو سکتے، ان کا تو بوجھ بڑھتا چلا جاتاہے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ ملکی معیشت کے پیندے میں سوراخ جب تک بند نہیں ہوتے قرض ختم نہیں ہو سکتے۔ انہیں سوراخوں سے نکلے 22ارب ڈالر نکل کر مڈل ایسٹ پہنچ گئے، پچاس ارب ڈالر لندن، تین ارب ڈالر سائوتھ افریقہ اور پچیس ارب ڈالر سپین، نیوزی لینڈ اور دیگر ممالک پہنچے، آئی پی پیز پر لٹائے جانے والے بیس سے بائیس ہزار ارب ڈالر سالانہ اس کے علاوہ ہیں جو گزشتہ تیس برس سے ادا ہو رہے ہیں، یہ تمام جمع کر لیں تو ہمارے قرض ادا ہو سکتے ہیں، معدنیات تو ہمارا منافع ہے، جو قدرتی طور پر ہمیں ملا ہے، اب قرض اتارنے کیلئے اس پر انحصار کا سبز باغ پیش کیا گیا، آپ کا جی چاہے تو اس کی سیر کو چلے جائیں، ٹھنڈی ہوا نہیں گرم ہوا کے تھپیڑے منتظر ہیں، بجٹ آئی ایم ایف بنا رہاہے۔







