Column

معیشت، مفاہمت اور مستقبل کی راہ

تحریر : محمد وقار اسلم
جب تک سیاست میں استحکام نہ ہو، معیشت کی گاڑی دھکوں سے ہی چلتی رہتی ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں معاشی نشیب و فراز ہمیشہ سیاسی اتھل پتھل سے جُڑے رہے ہیں۔ معیشت کی پائیداری کے خواب تبھی شرمندہ تعبیر ہو سکتے ہیں جب قومی سطح پر سنجیدہ سیاسی ہم آہنگی پیدا کی جائے۔
مارچ 2025ء تک پاکستان نے جہاں کچھ اطمینان بخش اشاریے حاصل کیے، وہیں ایک بار پھر یہ سوال سر اٹھا رہا ہے کہ کیا یہ بہتری عارضی ہے یا پائیدار؟ سال 2023ء میں ہمارا کرنٹ اکائونٹ خسارہ 1.1ارب ڈالر تھا، مگر رواں مالی سال میں، ہم 944ملین ڈالر کے سرپلس پر کھڑے ہیں، جو ایک مثبت اشارہ ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ، ترسیلاتِ زر نے مارچ 2025ء تک 17.8ارب ڈالر کی حد عبور کر لی ہے، جو ایک مستحکم معاشی اشاریہ مانا جا رہا ہے۔
یہ وہ اعداد و شمار ہیں جو بتاتے ہیں کہ اگر سیاسی نظام غیر متزلزل رہے تو معیشت کے پہیے کو تیزی سے آگے بڑھایا جا سکتا ہے۔ تاہم معیشت کا یہ منظرنامہ کسی خلا میں پیدا نہیں ہوا۔ اس کے پیچھے کئی اندرونی اور بیرونی عوامل ہیں۔ آئی ایم ایف کے ساتھ ہونے والی دوبارہ مذاکراتی پیش رفت، درآمدات پر کنٹرول، برآمدات کی محتاط پالیسی، اور سب سے بڑھ کر بیرونِ ملک پاکستانیوں کا اعتماد، یہ سب اس سمت کا تعین کرتے ہیں جسے ہم بہتری کا راستہ کہہ سکتے ہیں۔تاہم یہ بھی یاد رہے کہ ایک مرحلے پر بجلی کی قیمت 28روپے فی یونٹ سے بڑھا کر 58روپے تک کر دی گئی تھی، اور اب وزیراعظم شہباز شریف اسے 7روپے 48پیسے کم کرکے داد سمیٹ رہے ہیں۔ یہ عوام کے لیے کسی حد تک ریلیف تو ضرور ہے، لیکن کوئی غیر معمولی کامیابی نہیں۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں عالمی مارکیٹ میں کم ہو گئی ہے لیکن پاکستان میں جوں کی توں ہیں کیونکہ معاشی اشارے اور گردشی قرضے ہمارے حکمرانوں کے ہاتھ باندھ دیتے ہیں۔
ایک سیاسی تجزیہ نگار کی حیثیت سے، میں نے یہ سب نہ صرف کاغذوں میں دیکھا، بلکہ حالیہ ہفتوں میں سیاسی منظرنامے کے بیچ بھی جھانکنے کا موقع ملا۔ لاہور کے گورنر ہاس میں ایک افطار ڈنر کے موقع پر پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری سے غیر رسمی ملاقات ہوئی۔ ان کے لب و لہجے میں وزیرِاعظم بننے کی چمک دمک تو نمایاں تھی، مگر ساتھ ہی وہ اپنے آپ کو ایک الگ تھلگ سیاسی رہنما کے طور پر ظاہر کرنے کی خواہش بھی رکھتے تھے۔یہ بات قابلِ توجہ ہے کہ اس وقت بلاول، اگرچہ حکومت کے اتحادی تھے، تاہم وزارتیں لینے سے اجتناب کر رہے تھے۔ یہ ان کی ایک سیاسی حکمتِ عملی تھی کہ وہ حکومت کے اندر رہتے ہوئے بھی ایک الگ شناخت برقرار رکھیں۔ جبکہ ان کے والد صدر مملکت آصف زرداری ہیں جو اس وقت علیل ہیں مجھے بلاول کی جدا گانہ سوچ نے ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔بلاول کو پاکستانی سیاست میں 15سال ہوگئے مگر ابھی تک صحیح سے اردو تک نہیں بول سکتے انہیں عوامی مسائل کا ادراک تک نہیں اور وزیراعظم کا خواب سجائے ہوئے ہیں؟ ۔تاہم افطار ڈنر کے آٹھ،نو روز بعد، ان کی گفتگو میں تبدیلی دیکھی گئی۔ انہوں نے ملک میں استحکام کی ضرورت پر زور دیا اور حکومت کے ساتھ تعاون کی بات کی۔یہ بدلتا لہجہ محض ایک شخص کی رائے میں تبدیلی نہیں، بلکہ ایک پورے سیاسی مزاج کی عکاسی کرتا ہے۔ پاکستان اس وقت جس مرحلے سے گزر رہا ہے، وہاں مفاہمت اور تحمل کی سیاست ناگزیر ہے۔ بلاول جیسے رہنمائوں کی سوچ میں اگر یہ لچک پیدا ہو رہی ہے کہ قومی استحکام کے لیے ہاتھ بڑھایا جائے تو یہ خوش آئند ہے۔
اس سارے منظر میں سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان کی معیشت اس بہتری کے تسلسل کو برقرار رکھ پائے گی؟ ترسیلاتِ زر کی موجودہ سطح، کرنٹ اکائونٹ کا سرپلس، اور درآمدات میں کمی کے باوجود ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ مہنگائی اب بھی بلند سطح پر ہے، زراعت اور صنعت مکمل بحال نہیں ہوئی، اور سرمایہ کاری کا ماحول اب بھی غیر یقینی کی کیفیت میں ہے۔یہ وقت ہے کہ سیاستدان، مفادات کے جنگل سے نکل کر قومی سمت کا تعین کریں۔ اگر 17.8ارب ڈالر کی ترسیلات اور 944ملین ڈالر کے سرپلس جیسے اشاریے ہمیں کسی سمت کی نوید دے رہے ہیں تو ہمیں اس سمت میں یکجہتی کے ساتھ آگے بڑھنا ہو گا۔ بصورت دیگر، تاریخ ہمارے رہنماں کو ناعاقبت اندیش کے طور پر یاد رکھے گی۔
آئی ایم ایف کا وفد گزشتہ دو ماہ میں تیسری مرتبہ پاکستان آ چکا ہے تاکہ ہمیں صرف قرض نہ دے بلکہ یہ بھی بتائے کہ گورننس کیسے کرنی ہے۔ وہ اپنی مرضی کی من مانی کروانے کے لیے ایف بی آر اور اسٹیٹ بینک کو نئے اہداف دینے والا ہے۔ یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ پاکستان ابھی بھی مشکلات سے پوری طرح باہر نہیں نکلا۔ گردشی قرضے آج بھی ایک بڑا چیلنج ہیں اور اقتصادی استحکام کے لیے ہمیں محض وقتی ریلیف نہیں بلکہ دیرپا پالیسی، واضح حکمتِ عملی اور سب سے بڑھ کر سیاسی و قومی یکجہتی کی ضرورت ہے۔
معیشت کی بحالی کسی ایک فائل کے دستخط، ایک اجلاس کے اعلامیے، یا ایک تقریر کی مرہونِ منت نہیں ہوتی۔ یہ ایک ہمہ جہت قومی کوشش ہے، جس میں ہر طبقے کا کردار ناگزیر ہے۔

جواب دیں

Back to top button