Column

ٹرمپ کی ٹیرف وار

تحریر : میاں ابو ذر شاد
دنیا بھر کی معیشتوں کو اس وقت شدید جھٹکا لگا جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ’’ ٹیرف وار‘‘ کا آغاز کیا گیا۔ چین، یورپ، کینیڈا اور دیگر تجارتی شراکت داروں پر عائد کیے گئے بھاری محصولات نے بین الاقوامی تجارتی نظام کو عدم استحکام سے دوچار کر دیا۔ اس اقدام کے عالمی اثرات صرف صنعتی پیداواری چینز تک محدود نہ رہے بلکہ مالیاتی منڈیوں پر بھی شدید منفی اثرات مرتب ہوئے۔ اس معاشی کشمکش کا سب سے نمایاں اثر اسٹاک مارکیٹس پر ہوا۔ دنیا کی بڑی سٹاک مارکیٹس کریش کر گئیں، سرمایہ کاروں کا اعتماد ڈگمگا گیا اور سرمایہ کی بے یقینی نے عالمی معیشت کو خطرے میں ڈال دیا۔
پاکستان سٹاک ایکسچینج بھی اس عالمی دھچکے سے محفوظ نہ رہ سکی۔ ایک ہی دن میں سٹاک مارکیٹ میں 3882پوائنٹس کی شدید کمی ریکارڈ کی گئی، جو ملکی مالیاتی تاریخ کی بدترین گراوٹوں میں سے ایک تھی۔ یہ گراوٹ سرمایہ کاروں کی غیر یقینی کیفیت، خوف اور عالمی معاشی دبائو کا عکس تھی۔
سعودی عرب جیسی مستحکم معیشت بھی اس بحران سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکی۔ سعودی سٹاک مارکیٹ میں 500 ارب ریال کا ریکارڈ خسارہ سامنے آیا، جو نہ صرف خطے بلکہ عالمی سرمایہ کاروں کے لیے ایک تشویشناک علامت ہے۔
اسی دوران پاکستان اور ٹرمپ انتظامیہ کے درمیان پہلا اعلیٰ سطح کا رابطہ قائم ہوا ہے، جو نہ صرف موجودہ کشیدگی کو کم کرنے بلکہ نئے اقتصادی امکانات پیدا کرنے کی ایک راہ فراہم کرتا ہے۔ اگر پاکستان اس موقع سے فائدہ اٹھائے، تو نہ صرف تجارتی مراعات حاصل کی جا سکتی ہیں بلکہ امریکی منڈیوں میں رسائی کے لیے بھی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔
ٹرمپ کی پالیسیوں نے عالمی تجارتی نظام میں غیر یقینی صورتحال پیدا کی ہے۔ سرمایہ کار محفوظ سرمایہ کاری (Safe Haven Assets) جیسے سونا، بانڈز یا ڈالر کی طرف مائل ہو رہے ہیں، جس سے ابھرتی ہوئی معیشتیں دبائو کا شکار ہو رہی ہیں۔ پاکستان جیسی معیشتیں جو پہلے ہی بیرونی قرضوں، تجارتی خسارے اور سیاسی غیر یقینی کا شکار ہیں، ان کے لیے یہ بحران ایک بڑا چیلنج بن کر ابھرا ہے۔
حکومت کو چاہیے کہ سٹاک مارکیٹ کو سہارا دینے کے لیے ایک ہنگامی مالیاتی پیکیج متعارف کرائے تاکہ سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہو۔ مالیاتی ریگولیٹرز جیسے سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (SECP)کو فوری ریفارمز، شفافیت، اور مارکیٹ نگرانی کے لیے متحرک کردار ادا کرنا ہوگا۔ موجودہ رابطہ ایک موقع ہے جسے اقتصادی تعاون اور تجارتی مراعات کے حصول کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ GSP Plusطرز کی مراعات اور امریکی منڈیوں میں پاکستانی مصنوعات کو رسائی حاصل کرنے کے لیے مستقل سفارتی کوششیں کی جائیں۔CPECجیسے منصوبوں کی رفتار تیز کی جائے۔ ترکی، ایران اور وسطی ایشیائی ممالک کے ساتھ آزاد تجارتی معاہدے کیے جائیں تاکہ متبادل تجارتی راستے پیدا کیے جا سکیں۔ عوام، خاص طور پر نوجوانوں اور چھوٹے سرمایہ کاروں کے لیے فنانشل لٹریسی پروگرامز متعارف کرائے جائیں تاکہ وہ مارکیٹ کے اتار چڑھائو کو بہتر طور پر سمجھ سکیں۔ مقامی صنعتوں کو سبسڈی، ٹیکس ریلیف اور برآمدی مراعات دی جائیں تاکہ وہ عالمی بحرانوں سے محفوظ رہ سکیں۔ ڈالر پر انحصار کم کرنے کے لیے دوست ممالک کے ساتھ مقامی کرنسی میں تجارت کو فروغ دیا جائے تاکہ زر مبادلہ کے ذخائر پر دبائو کم ہو۔ ایک فعال، خودمختار اور ماہرین پر مشتمل سٹریٹیجک اکنامک کونسل قائم کی جائے جو عالمی اقتصادی تغیرات کا تجزیہ کرے اور پاکستان کے لیے بروقت فیصلے کرے۔
ٹرمپ کی ٹیرف وار بلاشبہ عالمی معیشت کے لیے ایک چیلنج ہے، لیکن پاکستان کے لیے یہ بحران ایک موقع بھی بن سکتا ہے اگر درست حکمت عملی اور بروقت فیصلے کیے جائیں۔ عالمی مالیاتی بحرانوں سے نمٹنے کے لیے داخلی استحکام، سفارتی حکمت، اور معاشی بصیرت ناگزیر ہیں۔

جواب دیں

Back to top button