یہ کام تِیر سے ہوتے ہیں بددعا سے نہیں

صفدر علی حیدری
گزشتہ منگل کے دن جب اسرائیلی لڑاکا طیاروں نے غزہ کی پٹی میں بمباری کا آغاز کیا تو اس کے ساتھ ہی وہ نازک امن معاہدہ بھی تباہ ہو گیا جو جنوری میں شروع ہوا تھا۔
اسرائیلی وزیر اعظم نتن یاہو نے اس بمباری کا ذمہ دار حماس کو ٹھہراتے ہوئے کہا کہ ’’ حماس کی جانب سے اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی سے مسلسل انکار سمیت امریکی تجاویز کو مسترد کرنے کے بعد، فوج کو سخت ایکشن کی تاکید کر دی گئی ہے ‘‘۔
عسکری ذرائع حماس کی جانب سے دوبارہ منظم ہونے کی کوششوں میں اضافے کی باتیں کر رہے ہیں۔ اسرائیلی فضائی حملوں میں اب تک سیکڑوں فلسطینیوں کی شہادت کی اطلاعات ہیں۔
جنگ بندی معاہدے کے باوجود ان حملوں سے قبل بھی اسرائیل متعدد افراد کو شہید کر چکا ہے۔ اسرائیلی فوج کے مطابق اس نے غزہ میں حماس کے جنگجوئوں کو نشانہ بنایا۔ اسرائیل میں لاپتہ افراد اور یرغمالیوں کے فورم نے حکومت پر دھوکہ دہی کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایک ایسے معاہدے کو توڑا گیا جس کے تحت ’ سب واپس آ سکتے تھے ‘ ۔ وزیر اعظم نتن یاہو کے ناقدین کا ماننا ہے کہ یہ حملے قانونی اور سیاسی مشکلات سے توجہ ہٹانے کی کوشش ہے۔ تاہم حماس اور اسرائیل کے درمیان ایک بنیادی تنازع یہ بھی ہے کہ جنگ بندی مذاکرات کی ناکامی کا ذمہ دار کون ہے۔جنگ بندی مذاکرات اور اسرائیلی چالانیس جنوری کو طے پانے والا جنگ بندی معاہدہ کئی ماہ تک امریکہ، قطر اور مصری ثالثی کے بعد ہوا تھا جس کے تحت تین مراحل میں اس معاہدے کو آگے بڑھنا تھا۔
پہلے مرحلے میں حماس نے 33یرغمالیوں کو 1900فلسطینی قیدیوں کے بدلے میں رہا کیا جبکہ اسرائیل نے امدادی سامان غزہ کی پٹی میں لے جانے کی اجازت دی۔ غزہ سے بے گھر ہونے والے فلسطینی لوٹنا شروع ہوئے تو حماس اور اسرائیل کو دوسرے مرحلے کے آغاز پر مذاکرات کرنا تھے۔ دونوں میں طے ہوا تھا کہ دوسرے مرحلے کے مذاکرات میں تمام یرغمالیوں کی رہائی اور غزہ کی پٹی سے اسرائیلی فوج کا مکمل انخلا شامل ہو گا اور جنگ ختم ہو جائے گی۔ پہلا مرحلہ یکم مارچ کو ختم ہوا لیکن دوسرے مرحلے کے مذاکرات میں پیش رفت نہ ہو سکی۔ اسرائیل نے غزہ میں امدادی سامان لے جانے پر پابندی لگا دی اور کہا کہ وہ امریکہ کے نئے مجوزہ معاہدے کی حمایت کرتا ہے۔
گزشتہ ہفتے اسرائیل اور حماس کے وفود قطر میں موجود تھے، جہاں امریکی مشیر سٹیو وٹکوف نے ایک نیا مسودہ پیش کیا ، جس کے تحت پہلے مرحلے کے وقت کو بڑھا دیا جاتا، مزید یرغمالی اور فلسطینی قیدی رہا ہوتے لیکن جنگ کے مستقل خاتمے کے لیے مذاکرات تعطل کا شکار ہو جاتے۔ اور اسی میں وہ بنیادی نکتہ موجود ہے جس کی وجہ سے امن کی کوشش ناکام ہوئی ۔ اسرائیل کے دو بنیادی مقاصد یہ تھے: یرغمالیوں کی رہائی اور حماس کی شکست، جو ایک ساتھ حاصل نہیں ہو سکتے۔
حماس کے پاس مذاکرات میں ایک ہی پتہ ہے اور وہ اسرائیلی یرغمالی ہیں۔ وہ مزید یرغمالی اس وقت تک رہا نہیں کرنا چاہتے جب تک اسرائیلی فوج کا انخلا شروع نہیں ہو جاتا، جیسا کہ سب سے پہلے طے ہوا تھا۔ اسرائیل اب اس نکتے پر مزاحمت کر رہا ہے اور نیا امریکی منصوبہ جنگ ختم کرنے کے وعدے کو تعطل کا شکار کرتے ہوئے مزید یرغمالیوں کی رہائی کو ممکن بنانے کی کوشش ہے۔ یہ سوال بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ کیا حماس کسی نہ کسی شکل میں باقی رہے گی۔
حالیہ دنوں میں اسرائیل اور امریکہ نے حماس کی جانب سے پہلے معاہدے کی شرائط کی پاسداری پر اصرار کو جنگ بندی کی تجدید سے انکار سے تعبیر کیا ہے۔ سٹیو وٹکوف نے حماس پر الزام لگایا کہ عوامی سطح پر لچک کا مظاہرہ کرتے ہوئے وہ نجی طور پر ایسا مطالبہ کر رہی ہے جو مستقل جنگ بندی کے بغیر ممکن نہیں۔ فروری میں اسرائیلی حکام نے مقامی میڈیا کو بتایا کہ اس کی فوج غزہ کی پٹی کے اہم مقامات سے انخلا نہیں کرے گی جو معاہدے کی خلاف ورزی ہے۔
اگرچہ ہم بند دروازوں کے پیچھے ہونے والے مذاکرات کی تفصیلات نہیں جانتے لیکن ہم یہ ضرور جانتے ہیں کہ 17دن قبل اسرائیل نے غزہ کی پٹی میں جانے والے امدادی سامان کو روک دیا تھا تاکہ حماس کو مجبور کیا جا سکے کہ وہ اس کی بات مانے۔ اب تک یہ کوشش کامیاب نہیں ہو سکی ہے اور اب ایسا لگتا ہے کہ اسرائیل طاقت کے استعمال پر اتر آیا ہے تاکہ ایک نیا معاہدہ کیا جا سکے جو اسرائیلی سیاسی قیادت کے لیی زیادہ سودمند ہو اور حماس کے لیے کم فائدہ مند ہو۔ فی الحال ایسا لگتا ہے کہ غزہ کی پٹی میں صورت حال گزشتہ دو ماہ سے مختلف نظر آئے گی ۔ اسرائیلی فوج نے ایک نقشہ جاری کیا ہے اور فلسطینیوں کو غزہ کی پٹی کی سرحد کے ساتھ ایک بڑا علاقہ خالی کرنے کا حکم دیا ہے۔
حماس نے اسرائیلی کارروائیوں کو روکنے کا مطالبہ کیا ہے لیکن اب تک جنگ دوبارہ شروع کرنے کی بات نہیں کی۔ اسرائیل اور غزہ کی سرحد کے قریب ایک بی بی سی صحافی کو ایک اسرائیلی فوجی نے بتایا کہ 40ہزار ریزرو فوجیوں کو بلا لیا گیا ہے۔ اس سے اسرائیلی پریس کی ان خبروں کی تصدیق ہوتی ہے کہ غزہ کی پٹی پر نئے زمینی حملے کی تیاری ہو رہی ہے۔ ایسا حملہ نتن یاہو کو بھی سیاسی طور پر فائدہ پہنچائے گا کیوں کہ دائیں بازو کی یہودی جماعت پاور پارٹی نے اعلان کیا ہے کہ وہ حکومتی اتحاد میں واپس شامل ہونے جا رہی ہے، جس کے اراکین، بشمول سابق وزیر اتمار بن گیور، نے جنگ بندی کے بعد احتجاج کرتے ہوئے استعفیٰ دے دیا تھا۔ اس جماعت کی حمایت اسرائیلی حکومت کے لیے اس لیے ضروری ہے کیوں کہ وہ بجٹ منظور کرانے کی کوشش کر رہی ہے۔
ہو سکتا ہے کہ اسرائیلی کارروائی حماس سے مذاکرات کی میز پر شرائط تسلیم کرانے کی کوشش ہو تاہم یہ ایک نشانی بھی ہے کہ زمین پر ازسرنو شدید لڑائی دوبارہ شروع ہونے جا رہی ہے، جس کے بعد غزہ کے تھکے ہارے شہریوں سمیت اسرائیلی یرغمالیوں کے اہل خانہ تشویش کا شکار ہو چکے ہیں۔
بم دھماکے میں انسانی اعضاء کا آسمان کی طرف بلند ہونا ایک ایسا منظر تھا جو بھلائے نہیں بھولتا ۔
کیا قیامت ہے، یہ قیامت کا منظر بھی ہمیں جگانے سے قاصر ہے
بجھی عشق کی آگ اندھیر ہے
مسلماں نہیں راکھ کا ڈھیر ہے
سوال یہ ہے کہ کہاں ہے وہ امت مسلمہ جس کا زور شور سے ذکر کیا جاتا ہے۔
کہاں ہیں وہ مسلح جھتے جو اسلام کی بات کرتے ہیں اور غیر مسلمانوں پر ظلم ڈھاتے ہیں۔
کہاں ہیں اسلامی ممالک کے حکمران اور ان کے فوجی سربراہ۔
کہاں ہے عالم عرب ؟
کہاں ہیں اس کے عوام جو چپ چاپ تماشائی بنے ہوئے ہیں۔
ہم اس بات پر خوش کیوں ہیں کہ ہمارے گھر آگ سے بچے ہوئے ہیں۔
ماضی کا ایک واقعہ یاد آ گیا جسے میں نے کہانی کا روپ دیا ہے
کفارہ۔۔۔۔
کہتے ہیں ایک بزرگ استغفار کا ورد کثرت سے کیا کرتے تھے۔ یہ بات ان کے مریدین کو بھی بخوبی پتہ تھی۔ لیکن انھیں اس بات کا علم نہ تھا کہ ان کے پیر صاحب ایسا کیوں کرتے ہیں۔ ایک دن انھوں نے راز جاننے کی ٹھان لی۔ اب وہ موقع کی تاڑ میں تھے کہ جب ان کا موڈ کچھ خوش گوار پائیں تو ان سے کثرت استغفار کی وجہ پوچھیں۔ ایک دن انھیں سوال پوچھنے کا موقع مل ہی گیا۔ بزرگ نے سوال سن کر کچھ دیر توقف فرمایا کوئی پچیس سال قبل کا واقعہ ہے بازار میں میری دکان ہوا کرتی تھی۔ ایک دن دوپہر کے وقت میں کسی کے سلسلہ میں گھر گیا ہوا تھا۔ اچانک شور بلند ہوا کہ بازار میں آگ لگ گئی ہے۔ میں بدحواسی کے عالم میں بھاگا۔ بازار میں تین سو دکانیں تھیں سب جل کر خاکستر ہو گئی تھیں، سوائے میری دکان کے۔ یہ دیکھ کر میرے منہ سے بے ساختہ نکلا ’’ الحمدللہ ‘‘، اچانک میرے اندر ایک صدا بلند ہوئی
کیا تیرے مسلمان بھائیوں کا دکھ تمہارا دکھ نہیں ہے۔ تجھے ان کا دکھ یاد نہ رہا۔ تو اپنی دکان کے بچنے کا شکر پڑھ رہا ہے۔ میرا سر شرم سے جھک گیا ، وہ دن ہے اور آج کا دن میں مسلسل استغفار کر رہا ہوں، مگر میری تسلی نہیں ہوتی۔ مجھے نہیں لگتا میرے رب نے مجھے معاف کیا ہو۔
ہم ڈیڑھ ارب مسلمان بس دعا پر اکتفا کر رہے ہیں۔ ہم یہ بھلا بیٹھے ہیں کہ
کب اشک بہانے سے کٹی ہے شب ہجراں
کب کوئی بلا صرف دعائوں سے ٹلی ہوئی
کومل جوئیہ نے کیا خواب کہا ہے
ہمارے ہاتھوں کو فرصت نہیں ہے ماتم کی
کہ ہم ضمیر کا لاشہ اٹھائے پھرتے ہیں
اور
گرانے دشمنوں کی فوج آپ نکلے ہیں ؟
یہ کام تِیر سے ہوتے ہیں بددعا سے نہیں







