شرمندگی ہی شرمندگی ہے

تحریر : سیدہ عنبرین
جب بستیوں میں بسنے والے ماپ تول میں کمی کرنے لگ جائیں تو انہیں قحط سالی، معاشی تنگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، وہ حکمرانوں کی زیادتیوں کا شکار رہتے ہیں، جب وہ اپنے مال کی زکوٰۃ ادا نہیں کرتے اللہ تعالیٰ آسمان سے بارشیں روک لیتا ہے، انسانوں نے روئے زمین پر ظلم، استحصال، لوٹ کھسوٹ، اقربا پروری کا نظام قائم کر رکھا ہے، کوئی گناہ، گناہ شماری نہیں ہوتا۔ ایسے میں بارشیں نہ رکیں تو اور کیا ہو۔ کرتوت ایسے ہیں کہ زمین پر حیوانات، نباتات، چرند پرند نہ ہوں تو شاید پانی کا ایک قطرہ نہ برسے۔ لگتا ہے اب بارشیں ہمارے نصیب کی نہیں، بلکہ ان کے نصیب کی ہوتی ہیں جنہیں اشرف المخلوقات نہیں کہتے۔ ملک کو خشک سالی کا خطرہ ہے، پانی کی کمی سے فصلیں متاثر ہوں گی۔ بنیادی ضروریات کی جنس گندم گزشتہ سال کی نسبت کم رقبے پر کاشت ہوئی ہے، پانی کی کمی سے گندم کا دانہ کمزور رہ جائے گا، جھاڑ کم ہو گا، نتیجتاً گندم امپورٹ کرنا ناگزیر ہو گی، پانی کی کمی کے اثرات دیگر فصلوں پر بھی ہوں گے۔ مافیا خوشی سے نہال ہیں، ہر طرف بے اطمینانی کے موسم میں پاکستان کی نصف صدی کی سب سے بڑی خوشخبری سنائی گئی ہے کہ گزشتہ 50برس میں آج مہنگائی کم ترین سطح پر آ گئی ہے، یہ نہیں بتایا گیا کہ یہ کارنامہ کس نے اور کیسے انجام دیا، لیکن اندازہ ہے دربار شاہی کے شاعروں، قصیدہ خوانوں کی ترجمانی کے مطابق یہ سب کچھ ملک کی ان تین شخصیات کے ویژن کی بدولت ممکن ہوا جن کے وژن کے بہت چرچے ہیں، ان کے کارنامے نئی نسل کو حفظ کرانے کیلئے اربوں روپے اشتہار بازی پر صرف ہوتے نظر آتے ہیں۔ اہل لاہور کی خوش قسمتی تینوں کا تعلق لاہور سے ہے۔ گزشتہ نصف صدی میں جو نوبت کبھی نہیں آئی وہ اشیائے صرف کی قیمتوں میں حیران کن کمی کے اعلان کے ساتھ ساتھ پانی کی کمی کا اعلان بھی کیا گیا ہے۔ گھر کے فرش دھونے، گاڑیاں دھونے پر کوئی بھی اقدام اٹھایا جا سکتا ہے۔ قرین ازقیاس ہے کہ روزانہ غسل کرنے پر بھی پابندی لگ جائے اور جب غسل جنابت واجب ہو جائے تو حکم آ جائے اسے روک دو، اس کے بغیر ہی کام چل سکتا ہے، یہ پاکستان ہے، یہاں کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ اگر 26ویں آئینی ترمیم کی راہ میں حائل قانونی اخلاقی اور عددی رکاوٹیں پلک جھپکنے میں دور ہو سکتی ہیں تو پھر کسی قانون کے بنانے اور کسی حکم کے جاری کرنے میں کوئی رکاوٹ کھڑی نہیں ہو سکتی۔ بلاول بھٹو صاحب کی زبان میں سب کچھ ایک بروٹ میجارٹی سے منظور کرایا جا سکتا ہے۔ قیام پاکستان سے بہت پہلے کا زمانہ ہو یا قیام پاکستان کے بعد کا دور ہو، دو شہر ایسے ہیں جنہیں ہمیشہ اہمیت حامل رہی۔ ایک کراچی، دوسرا لاہور، سندھ اور پنجاب کے دل کی حیثیت رکھنے والے دونوں شہروں میں ملک کے کونے کونے سے آئے ہوئے ادیب، شاعر، مفکر، ماہر تعلیم، نامور ڈاکٹر، انجینئر و دانشور، محقق اور کاروباری شخصیات آپ کو قدم قدم پر ملیں گی، اس کے ساتھ ساتھ دنیا کا ہر بڑا نوسر باز، فراڈیا، ضمیر فروش حتیٰ کہ عصمت فروش بھی یہیں ملے گا۔ اس قماش کے لوگ دنیا میں ہر ملک کے ہر شہر میں ملتے ہیں، لیکن صدیوں سے عروس البلاد اور علم و ادب کے مرکز لاہور اور بندرگاہ کے طفیل اہم تجارتی مرکز کی حیثیت رکھنے والے شہر کراچی کی تو بات ہی نرالی ہے۔ دونوں طرف پانی کا رونا ہے۔ رونے دھونے والے حکومت میں شامل ہیں، برسوں سے ایک سیاسی نکاح کے بندھن میں بندھے ہیں، عجیب بندھن ہے سیاسی نکاح موجود ہے، وظیفہ زوجیت ادا کرنے سے انکار ہے۔ دوسری طرف والا بھی فرائض شوہری درست طریقے سے ادا نہیں کر پا رہا۔ دونوں اقتدار کے گھر میں رہتے ہیں، لیکن دونوں کے بستر جدا ہیں، کمرے الگ الگ ہیں، واقفان حال خبر دیتے ہیں دونوں کے بستروں میں نامحرم گھسے نظر آتے ہیں۔ رات کے اندھیرے میں آتے ہیں، پوہ پھٹنے سے قبل واپس چلے جاتے ہیں، آج کل ایک فریق خلع لینے کی دھمکی دے رہا ہے۔ سوال یہ ہے پھر کس کے نکاح میں جائے گا، نکاح کی عمریں تو سب کی بیت چکی ہیں، کچھ کی تو صحت اجازت نہیں دیتی، گو آنکھوں میں تو دم ہے۔ بس اسی وجہ سے وہ ساغر و منیا سامنے سجائے رہتے ہیں، شمع جلائے رکھتے ہیں کہ کوئی پروانہ ادھر آئے تو بات بنے۔
بات بگڑ رہی ہے، غیر ملکی قرضے گلوکوز کا کام کر رہے ہیں، بوتل لگتی ہے تو دھڑکن معمول پر آ جاتی ہے، بوتل ختم ہونے پر آئے تو نبض ڈوبنے لگتی ہے، رہی سہی کسر ڈونلڈ ٹرمپ کے نئے ٹیرف نے پوری کر دی ہے۔ بتایا جاتا ہے ایک وفد سیاں جی سے ملنے امریکہ جا رہا ہے، سیاں جی اس وقت دم پر کھڑے ہیں، ہر ایک کو کاٹنے کو پڑتے ہیں، وہ کیا رعاتیں دے سکتے ہیں، پھر ہمیں رعاتیں دیں گے تو ہم سے زیادہ کئی اور اہم ہیں، ان کی فرمائشیں آ جائیں گی۔ امکان یہی ہے کاسئہ گدائی میں خیر نہ ڈالی جائے گی۔ اہم سوال یہ ہے گنجی نہائے گی کیا اور نچوڑے گی کیا۔ ہمارے تو سر پر بال ہی نہیں۔ دوئم ہمارا بال بال قرضوں میں جکڑا ہوا ہے۔ سوئم ہم بناتے کیا ہیں جو دنیا ہم سے خریدے گی۔ صرف تولیے اور بستر کی چادریں یا زیادہ سے زیادہ سرجیکل اور کٹلری۔ یہ دونوں آئیٹم چین، ویت نام ہم سے اچھی اور سستی بنا رہے ہیں اور دنیا میں چھائے ہوئے ہیں، وہاں بجلی بہت سستی ہے، وہاں بجلی بنانے والوں میں ہر سال کپیسٹی چارجز کے نام پر کئی ہزار ارب روپے سالانہ نہیں لٹائے جاتے۔ ایک اور آئیٹم ہم فخر سے بناتے اور سر اٹھا کر فروخت کرتے تھے، وہ تھا سیالکوٹ کا بنایا ہوا فٹ بال، ہمارا فٹ بال بھی دنیا کے نقشے سے گول ہو چکا۔
سوا سات روپے فی یونٹ بجلی سستی کرنے کا اعلان تو بہت طمطراق سے کیا گیا ہے، یہ بھی بتا دیتے 18روپے فی یونٹ سے اسے 68روپے فی یونٹ تک کون لے کر گیا تھا، ملک کا اعلیٰ ترین سول اعزاز اس کے قدموں میں ڈالنا چاہئے، یہ کوئی معمولی کارنامہ نہ تھا، پھر ان ڈکیتوں کا کیا بنا جنہوں نے عوام کی جیبوں پر ڈاکہ ڈالتے ہوئے 24ارب روپے کی اوور بلنگ کی تھی، کیا یہ شیر مادر تھا جو سب پر حلال تھا؟، آج سے 60برس پہلے 1965ء تھا، دودھ 75پیسے سیر تھا، یعنی ایک لٹر سے زیادہ، آج پونے دو سو روپے لٹر ہے، جس میں نصف پانی ہے۔ ہماری فوڈ اتھارٹی کی طرف سے باقاعدگی سے ہر 15 دن بعد ایک خبر آتی ہے فلاں علاقے میں ایک ہزار لٹر دودھ تلف کر دیا گیا۔ اس خبر میں بھی نصف پانی ملا ہوتا ہے۔ ہزار لٹر دودھ میں نصف پانی ہوتا ہے، خبر یہ آنی چاہئے کہ پانچ سو لٹر دودھ میں پانچ سو لٹر پانی تلف کر دیا گیا۔ 20کلو آٹے کا تھیلا 10روپے میں دستیاب تھا، یعنی 50پیسے فی کلو، پٹرول 3روپے میں ایک گیلن ملتا تھا، یعنی ساڑھے چار لٹر، سونا سو روپے فی تولہ سے کم تھا اور 5مرلے کا گھر 5ہزار روپے میں مل جاتا تھا۔ ہم جاپان کو قرض دے رہے تھے، کوریا کی مدد کر رہے تھے اور چین کو بند دیواروں کے پیچھے سے نکال کر دنیا کے دھارے میں لانے کی کوششیں کر رہے تھے، اپنے سے پانچ گنا بڑے دشمن بھارت کو ناکوں چنے چبوا چکے تھے، آج کہاں کھڑے ہیں، صرف گریبان میں منہ ڈال کر دیکھ لیں۔ شرمندگی ہی شرمندگی ہے۔





