ریاستی جبر اور پی ٹی آئی کی تحریک

تحریر : امتیاز عاصی
اگرچہ پی ٹی آئی حکومت مخالف تحریک کیلئے پرعزم ہے، سوال ہے کیا وہ ریاستی جبر کے ہوتے ہوئے تحریک چلاسکے گی۔ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے بعد بیگم نصرت بھٹو جلوس لے کر قذافی اسٹیڈیم پہنچیں تو پولیس نے لاٹھیوں سے انہیں لہولہان کر دیا، پیپلز پارٹی کے ورکرز کو کوڑے مارے گئے اور انہیں شاہی قلعہ میں قید رکھا گیا۔ جو تماشہ آج کل لگا ہے ماضی میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ حکومت کے خلاف اپوزیشن جماعتیں تحریک چلاتی ہیں سیاسی رہنمائوں اور ورکرز کی گرفتاریاں ہوتی ہیں۔ پاکستان کی تاریخ میں کبھی ایسا نہیں ہوا جو سیاسی رہنما اور ورکرز مطلوب ہوں ان کے گھروں سے خواتین کو گرفتار کرکے چادر اور چار دیواری کا تقدس ماپال کی گیا ہو یا گھروں میں جا کر توڑپھوڑ کی گئی ہو۔ تاریخ شاہد ہے جبر کے ہتھکنڈے کامیاب ہوتے لوگ وقتی طور پر زیر زمین ہو سکتے ہیں ایسے ہتھکنڈوں سے تحریکیں ختم نہیں ہوتیں۔ بھٹو کی پھانسی کے بعد جمہوریت کی بحالی اور انتخابات کے انعقاد کے لئے 1983 ء میں ایم آر ڈی کا قیام عمل میں لایا گیا جس کی قیادت نواب زادہ نصراللہ خان نے کی۔ یہ ایم آر ڈی کی تحریک کا نتیجہ تھا جنرل ضیاء الحق کو 1985ء غیر جماعتی انتخابات کا انعقاد کرانا پڑا۔ وقت نے ثابت کیا کوئی جماعت تنہا تحریک نہیں چلا سکتی بلکہ اسے دیگر سیاسی جماعتوں کی حمایت حاصل کرنا ضروری ہے۔ گو پی ٹی آئی رہنما ماسوائے جے یو آئی کے اپوزیشن جماعتوں کو کسی حد تک ایک پلیٹ فارم اکٹھا کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں جیسا کہ سندھ کی قوم پرست جماعتوں نے اپوزیشن جماعتوں کے الائنس میں شمولیت کا اعلان کیا ہے۔ سوال ہے کیا اپوزیشن جماعتیں جے یو آئی کے بغیر عوام کو سڑکوں پر لانے میں کامیاب ہو سکیں گی ؟۔ اس ناچیز کے خیال میں پی ٹی آئی بذات خود حکومت مخالف تحریک چلانے میں مخمصے کا شکار ہے، جس کی بڑی وجہ یہ ہے پی ٹی آئی رہنمائوں میں اہم آہنگی کا فقدان ہے۔ بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کرنے والے رہنما عمران خان کو کہانیاں سنا سنا کر تذبذب کا شکار کر دیا ہے۔ پی ٹی آئی میں گروہ بندی کا نتیجہ ہے عمران خان کی ہمشیرگان نے سنٹرل جیل راولپنڈی کے باہر احتجاجی کیمپ لگانے کا اعلان کیا ہے جو اس امر کا غماز ہے انہیں پی ٹی آئی رہنمائوں سے احتجاجی تحریک کی توقعات کم ہیں ورنہ پی ٹی آئی رہنما ایک پلیٹ فارم پر ہوتے اور حکومت مخالف تحریک چلانے کے لئے کوئی لائحہ عمل اختیار کرتے تو بانی پی ٹی آئی کی بہنوں کو احتجاجی کیمپ کا اعلان کرنے کی ضرورت نہ ہوتی۔ ہاں البتہ یہ بات ضرور ہے انتخابات جب بھی ہوئے عوام پی ٹی آئی کو ووٹ دیں گے۔ دراصل پی ٹی آئی رہنما اور ورکرز سانحہ ڈی چوک کے بعد دل برداشتہ ہیں ایک ایسے وقت جب پی ٹی آئی ورکرز ریاستی جبر کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑے تھے وزیراعلیٰ کے پی کے علی امین گنڈا پور پارٹی ورکرز کو تن تنہا چھوڑ کر چلتے بنے تھے۔ وزیراعلیٰ علی امین نے این ایف سی ایوارڈ نہ ملنے کے خلاف عوام کو لے کر نکلنے کا اعلان کیا اور وفاقی حکومت کی پالیسی کے خلاف افغان مہاجرین کو زبردستی بے دخل نہ کرنے کا اعلان کرکے ایک نیا محاذ کھول دیا ہے۔ وزیراعلیٰ کا یہ طرز عمل ریاستی پالیسیوں کے منافی ہے۔ افغان پناہ گزیں کو چھیالیس برس سے پاکستان میں رہ رہے ہیں۔ اب جب کہ افغانستان میں طالبان کی حکومت ہے اور ان کی جانوں کو جو خطرات لاحق تھے ختم ہو چکے ہیں انہیں ہر صورت واپس جانا چاہیے۔ کوئی مانے نہ مانے پی ٹی آئی کی باہمی گروہ بندی نے عمران خان کی جماعت کو حکومت مخالف کوئی تحریک چلانے کے قابل نہیں چھوڑا ہے۔ ایک طرف پی ٹی آئی رہنما اور ورکرز گزشتہ دو سال سے جیلوں میں سٹر رہے ہیں، دوسری طرف پی ٹی آئی کے وہ رہنما جو جیلوں سے باہر ہیں انہیں جیلوں سے باہر لانے کے لئے نہ قانونی معاونت کر رہے ہیں نہ کی کسی قسم کی تحریک چلانے کی سکت رکھتے ہیں۔ پی ٹی آئی جو ٹو ٹ پھوٹ کا شکار ہے اس کے رہنمائوں کی بھرپور کوشش ہوتی ہے وہ بانی سے ملاقات کرکے اپنے لئی پارٹی میں زیادہ سے زیادہ جگہ بنانے کی کوشش کرکے عمران خان کا قرب
حاصل کر سکیں۔ دوسری طرف پی ٹی آئی کے سنیئر رہنما شوکت یوسفزئی نے پارٹی اختلافات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے سیاسی جماعتوں میں اختلافات ہوتے ہیں لہذا پی ٹی آئی رہنمائوں کے درمیان اختلافات جلد ختم ہو جائیں گے۔ انہوں نے عمران خان کے حوالے سے کہا اگر اسٹبلیشمنٹ سے مذاکرات شروع ہو جاتے ہیں تو تحریک نہیں چلے گی۔ تحریک تحفظ آئین کے وفد جس میں سردار لطیف کھوسہ، صاحبزداہ حامد رضا اور دیگر رہنما شامل تھے، نے بلوچستان میں نوابزادہ لشکری رئیسانی سے ملاقاتی کی اور انہیں اپنی حمایت کی درخواست کی تو انہوں نے بلوچستان کے مسئلہ کو حل کرنے کے لئے قائد اعظمؒ اور خان آف قلات کے مابین ہونے والے معاہدے پر عمل درآمد ،گرفتار شدہ خواتین کی رہائی اور دیگر کئی امور سے مشروط کیا۔ پی ٹی آئی تحریک تحفظ آئین کے پلیٹ فارم سی حکومت مخالف تحریک چلانے کے لئے جدوجہد کر رہی ہے ۔نوابزادہ لشکری سے ملاقات کرنے والوں میں پی ٹی آئی ایم این ایز سردار لطیف کھوسہ، صاحب زادہ حامد رضا اور دیگر رہنما شامل تھے۔ عالمی سطح پر چلنے والی تحریکوں پر نظر ڈالیں تو سیاسی رہنمائوں نے جمہوریت اور آزادی کے لئے جدوجہد کے ساتھ طویل عرصے تک جیلیں کاٹیں تب جا کر انہیں اپنے مقصد میں کامیابی ہوئی۔ ملک میں جمہوریت کی بحالی اور منصفانہ انتخابات کے انعقاد کے لئے تمام سیاسی جماعتوں کو متحد ہو کر جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے ۔جہاں تک ہمارا خیال ہے پی ٹی آئی ماسوائے جے یو آئی کے تمام سیاسی جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے میں کامیاب ہو جائے گی تاہم مولانا فضل الرحمان ان کے قابو میں نہیں آئیں گے۔ ہاں اگر جے یو آئی نے پی ٹی آئی کی حکومت مخالف تحریک کا ساتھ دیا تو حالات میں تبدیلی یقینی آسکتی ہے۔ حقیقت میں دیکھا جائے تو پی ٹی آئی ماسوائے کے پی کے کسی اور صوبے اور وفاق میں حکومت مخالف تحریک چلانے کی پوزیشن میں نہیں جس کی بڑی وجہ پی ٹی آئی کو نہ جلسہ نہ ہی جلوس نکالنے کی اجازت دی جاتی ہے۔





