مشکلات ختم اور آسانیاں شروع

تحریر : شاہد ندیم احمد
اتحادی حکومت عوام کو مہنگائی سے نجات دلانے اور عوام کو ریلیف دینے کے وعدے کے ساتھ آئی تھی، مگر اس حکومت نے اب تک اپنا کوئی بھی وعدہ پورا نہیں کیا ہے، حکومت عوام کو مہنگائی سے نجات دلا پائی نہ ہی کوئی ریلیف دے پائی ہے ، اُلٹا بجلی ،گیس اور پیٹرول کی قیمتوں میں بتدریج اضافہ ہی کرتی رہی ہے ، لیکن اب پہلی بار وزیر اعظم شہباز شریف نے بجلی کی قیمتوں میں بڑی کمی کا اعلان کیا ہے ، حکومت کی جانب سے گھریلو صارفین کیلئے سات روپے 41پیسے اور صنعتی صارفین کیلئے سات روپے 59پیسے کمی کا اعلان بلا شبہ ایک بڑا ریلیف ہے ، تاہم عوام کا ابھی بھی ایک ہی موقف ہے کہ بجلی کا بل اوسط لاگت کے مطابق ہونا چاہیے تو ہی حقیقی معنی میں مشکلات ختم اور آسانیاں شروع ہو پائیں گی۔
اگر دیکھا جائے تو پچھلے کچھ عرصہ سے بجلی کی بڑھتی قیمت صارفین کیلئے ایک ڈرائونا خواب بن چکی تھی، کیا گھریلو اور کمرشل صارفین اور کیا صنعتیں، مہنگی بجلی کے اثرات نے سب کو ہی چکرا کر رکھ دیا تھا، خاص طور پر موسم گرما کے مہینے جب بجلی کی کھپت میں اضافہ ہو جاتا ہے، گھریلو صارفین کی جیبوں پر بھاری گزرتے تھے جبکہ صنعتی صارفین مہنگی بجلی کی وجہ سے زیادہ پیداواری لاگت سے پریشان تھے اور بارہا اپنی تشویش کا اظہار کر رہے تھے ، لیکن ان کی آہو بکا سنی جارہی تھی نہ ہی کوئی حل تلاش کیا جارہا تھا ، بلکہ یک بعد دیگرے اضافہ ہی کیا جارہا تھا ، بجلی کی قیمتوں پر نظر ثانی اور خاطر خواہ کمی ایک اصولی مطالبہ تھا ،اس کو پذیرائی ملنی چاہیے تھی، مگر فوری طور پر نہیں مل پائی اور اس بوجھ تلے عام آدمی پس کر رہ گیا ہے۔
یہ سوال ہر پاکستانی کیلئے قابلِ غور ہے کہ جب خطے کے دیگر ملکوں میں بجلی پاکستان سے نصف سے بھی کم قیمت پر ملتی ہے تو پاکستان میں کیوں نہیں مل پا رہی ہے؟ اس حوالے سے پچھلے برسوں ماہرینِ معیشت اور توانائی تواتر سے اپنے خیالات کا اظہار کرتے آئے ہیںکہ نجی بجلی گھروں کے ساتھ کیے گئے حکومتی معاہدوں کی متنازع شرائط مہنگی بجلی کا سبب بنی ہیں، آئی پی پیز معاہدے کرتے وقت اپنے مفادات کا ہی خیال رکھا گیا ، عام عوام بارے نہیں سوچا گیا ،اس کے باعث ہی بجلی16سے48 روپے تک جا پہنچی ، دیگر چارجزز اس کے علاوہ ہیں، حکومت نے پہلی بار ٹیرف میں کمی کا جو اعلان کیا ہے، اس سے صنعتوں اور گھریلو صارفین کیلئے سہولت پیدا ہوئی ہے مگر ادارہ جاتی اصلاحات کی ضرورت بدستور موجود ہے، اگر چوری اور دیگر لائن لاسز کم نہیں ہوتے اور بااثر طبقہ اپنے بل باقاعدگی سے ادا کرنے کا عادی نہیں بنتا تو بجلی کے شعبے کے خسارے کو روکا نہیں جاسکے گا، اس طرح گھریلو اور صنعتی صارفین کیلئے بجلی کے نرخوں میں اضافے کا سبب بنتا ہی رہے گا۔
اس کیلئے ضروری ہے کہ اس ریلیف کے اقدام سے پائیدار اصلاح کیلئے فائدہ اٹھایا جائے، بجلی کے شعبے کی گہرائیوں میں جو اصلاح درکار ہیں، اس پر کام کی رفتار اور عزم میں اضافہ کر نا ہو گا، تا کہ ہمارا بجلی کا شعبہ اس خطے کے دیگر ملکوں کی طرح اتنا مستحکم ہو سکے کہ اپنے صارفین کو اس کی ثمرات منتقل کر سکے لیکن اگر یہ شعبہ دائمی امراض میں ہی مبتلا رہا تو بجلی کے نرخوں میں علاقائی ممالک سے مسابقت اور شہریوں کو سہولت فراہم کرنا مشکل ہو جائے گا، اس میں جہاں ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کے نظام کی اصلاح ناگزیر ہے ، وہیں بجلی پیدا کرنے والی نجی کمپنیوں کے ساتھ معاملات کا ایک بار پھر باریک بینی سے جائزہ لینا اور معاہدوں کو انصاف اور عوامی مفاد کے مطابق ڈھالنا ہو گا، اس بار بجلی کے نرخ میں کمی کے باوجود پاکستان میں بجلی کے نرخ بھارت اور بنگلہ دیش سے بہت زیادہ ہیں ، بجلی کی قیمتوں میں ا بھی مزید کمی کی خاصی گنجائش ہے، جو کہ حکومت کو کر نا ہو گی ، ایک دوسرے کے کھاتے میں ڈالنے کے بجائے بجلی مزید سستی کر نا ہو گی ، عوام چاہتے ہیں کہ بجلی کا بل اوسط لاگت کے مطابق ہونا چاہیے، اس پر حکومت کو سنجیدگی سے غور کر نا پڑے گا۔
حکومت عوام کو بجلی کا ریلیف دینے پر شادیانے بجا رہی ہے، اشتہارات بھی لگوا رہی ہے، مگر عوام بخوبی جانتے ہیں کہ بجلی کی قیمتوں میں زیادتی اور کمی کا زیادہ تر دارومدار پٹرول کی قیمتوں میں عالمی سطح پر ہونے والی کمی پر ہی ہوتا ہے، حکو مت نے پٹرول کے بجائے بجلی کے نرخ میں کمی کر کے عوام کو منتقل کر نے کی کوشش کر رہی ہے، اگر وزیر اعظم اپنے ماضی کے اعلان کے مطابق حکومتی اخراجات میں کفایت شعاری کر لیں، اپنی وفاقی کابینہ مختصر کر لیں، وزراء کے شاہانہ پروٹوکول اور مراعات پر حدود و قیود عائد کر لیں، مختلف حکومتی اداروں کے اعلیٰ ترین مناصب پر موجودہ حکام اور نیچے سے اوپر تک بیوروکریسی کے اخراجات محدود کر لیں اور انہیں مفت فراہم کی جانے والی بجلی، گیس، پٹرول، رہائش و خوراک وغیرہ کی سہولتوں میں خاطر خواہ کمی کر دیں تو اس کے نتیجے میں ہی عوام کو بہتر معیار زندگی کی فراہمی کے لیے نہ صرف وافر وسائل دستیاب ہو جائیں گے، بلکہ ان کی مشکلات کے خاتمے کے ساتھ آسانیاں بھی شروع ہو جائیں گی۔





