ذوالفقار علی بھٹو ایک کرشماتی لیڈر

تحریر : ایم فاروق قمر
بابائے آئینِ پاکستان، قائد عوام، پاکستان کی تاریخ کے مقبول ترین لیڈر ذوالفقار علی بھٹو 5جنوری 1928ء کو لاڑکانہ سندھ میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد سر شاہ نواز بھٹو مشیر اعلیٰ حکومت بمبئی اور جوناگڑھ کی ریاست میں دیوان تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے 1950ء میں برکلے یونیورسٹی کیلیفورنیا سے سیاسیات میں گریجویشن کی۔ 1952ء میں آکسفورڈ یونیورسٹی سے اصول قانون میں ماسٹر کی ڈگری لی۔ اسی سال مڈل ٹمپل لندن سے بیرسٹری کا امتحان پاس کیا۔ 4اپریل کو ذوالفقار علی بھٹو کی چھیالیسویں برسی گڑھی خدا بخش منائی گئی۔ بھٹو ایک کرشماتی شخصیت کے حامل لیڈر تھے۔ بہت کم مدت میں انہوں نے وہ کام سر انجام دئیے جو سیاستدان 22سالوں میں سر انجام نہ سکے۔ بھٹو کی سیاست سماجی جمہوریت، مساوات اور سماجی انصاف کے فروغ پر مبنی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں قائد عوام کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو جہاں ایک زیرک سیاستدان تھے وہاں ایک کامیاب خارجہ پالیسیر اور سفارت کار تھے۔ بھٹو نے سوشلسٹ اصلاحات اور عدم مساوات اور جاگیرداری کو روکنے کے لیے ریفارمز کروائیں ۔ان کا نعرہ ‘روٹی، کپڑا اور مکان’ آج بھی اتنا ہی متعلقہ اور مقبول ہے جتنا کہ 1970ء کی دہائی میں تھا۔1973ء سے 1977ء تک کے اپنے دور میں انہوں نے عوام کے لیے تاریخی اصلاحات متعارف کرائیں اور ایک کامیاب خارجہ پالیسی کا انتظام کیا جس سے ہم آج تک مستفید ہو رہے ہیں۔ یہ ذوالفقار علی بھٹو کی کامیاب خارجہ پالیسی اور سفارت کاری تھی جس کے نتیجے میں 93000پاکستانی فوجیوں کو وطن واپس لایا گیا جنہیں 1972ء میں شملہ معاہدے پر دستخط کے بعد بھارت میں جنگی قیدی بنا کر لے جایا گیا تھا۔ یہ ان کا یقین تھا جس کی وجہ سے اسلامی ممالک کے ساتھ مضبوط تعلقات قائم ہوئے، جس کا اظہار اسلامی ممالک میں ہوا۔ بھٹو نے 1972ء میں لینڈ ریفارمز متعارف کرائیں، جس میں انفرادی ملکیت کو 150ایکڑ سیراب اور 300ایکڑ غیر سیراب زمین تک محدود کر دیا گیا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستانی عوام کو بنیادی حقوق اور روزگار کی فراہمی کے لیے متعدد کارہائے نمایاں سر انجام دئیے۔ ذوالفقار علی بھٹو عوامی لیڈر تھے اور عوامی لیڈر کے تمام اوصاف ان میں موجود تھے اور عوام میں گھل مل جانا اور عوام کو اپنے سحر میں گرفتار کرنے کا فن انہیں خوب آتا تھا۔ ایک جلسے میں جوشیلے انداز میں تقریر کرتے ہوئے عوام سے مخاطب ہوئے کہ ’’ ذوالفقار علی بھٹو ایک نہیں ہے، دو ذوالفقار علی بھٹو ہیں، ایک میں اور ایک آپ‘‘۔
بھٹو نے ننگے پائوں کسی کو دیکھا تو اس کے ساتھ ننگے پائوں ہو لیا۔ پھٹی قمیض دیکھی تو اپنا گریباں خود چاک کرلیا۔
28 اپریل 1977ء کو پاکستان کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انتہائی جوشیلے اور جذباتی انداز میں پاکستان کے اندرونی معاملات میں امریکی مداخلت کا الزام لگایا تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب وہ اپنے پانچ سالہ اقتدار کے اواخر تک پہنچ چکے تھے۔ انھوں نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں شعلہ بیان تقریر میں کہا تھا ’’ امریکہ پاکستانی حکومت کے خلاف مداخلت کر رہا ہے اور اپوزیشن کے ذریعے مجھے ہٹانا چاہتا ہے۔
ذوالفقار علی بھٹو کو نواب محمد احمد خان کے قتل کے مقدمہ میں انہیں لاہور ہائیکورٹ کی جانب سے دی گئی سزائے موت سنائی گئی۔ سپریم کورٹ نے بھی اسے برقرار رکھا۔
ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی کتاب ’’ اگر مجھے قتل کر دیا گیا‘‘ میں اپنی سزا کے متعلق لکھا ہے۔ میں اس ملک کا ایک عام شہری تو ہوں۔ مجھ پر قتل کا مقدمہ چلایا جا رہا ہے اور مجھے اس ملک کا ایک عام شہری ہونے کے ناطے قانون کے بنیادی حق سے محروم کیا جا رہا ہے۔ میرے مقدمہ قتل کی سماعت بند کمروں میں کی جاتی ہیاور اس بندے کمرے کی عدالت میں مجھے اپنا دفاع پیش کرنے کی بھی اجازت نہیں دی گئی۔ ذوالفقار علی بھٹو کو 4اپریل 1979ء کو ڈکٹیٹر ضیاء الحق کے مارشل لاء دور میں صرف 51سال کی عمر میں راولپنڈی جیل میں پھانسی دے دی گئی۔ جسے بعض قانونی ماہرین نے اسے عدالتی قتل قرار دیا۔ بھٹو کے انتقال نے پاکستان کے پسے ہوئے لوگوں کی امیدوں کو کچلنے کا کام بھی کیا اور ملک کو ظلم و ستم کی دہائی میں دھکیل دیا۔ یہ بھٹو ہی تھے جنہوں نے غریب، پسماندہ اور محروم عوام کو سیاسی آواز اور وقار کا احساس دلایا، انہیں یہ احساس دلایا کہ تمام طاقت عوام کے پاس ہے۔
بھٹو نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ میں نے جو عوام کی جو خدمات کی ہیں وہ مثل آئینہ ہر لخطہ ان کے سامنے ہیں، میرا نام 90ہزار جنگی قیدیوں کی واپسی، ہندوستان کے قبضہ سے 55ہزار مربع میل علاقہ کی واپسی، اسلامی چوٹی کانفرنس، سلامتی کونسل اور مزدوروں کے مفاد کے ساتھ وابستہ ہے۔
شاد عظیم آبادی نے کیا خوب کہا تھا
ڈھونڈو گے اگر ملکوں ملکوں، ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم
تعبیر ہے جس کی حسرت و غم، اے ہم نفسو وہ خواب ہیں ہم





