Column

خارجی فتنہ

تحریر : صفدر علی حیدری

خوارج امام علیؓ کے سپاہیوں میں سے تھے اور جنگ صفین میں حضرت علیؓ پر کفر کا الزام لگاتے ہوئے آپ کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔ انہیں خلیفہ مسلمین کے خلاف قیام کرنے کی بنا پر خوارج کا نام دیا گیا۔
مسجد کوفہ میں امام علیؓ کے خلاف نعرہ بازی کرنا اور آپ کو قتل کی دھمکی دینے کو خوارج کے کاموں میں شمار کیا گیا ہے۔ حکمیت کو قبول کرنے کی وجہ سے یہ لوگ امام علیؓ کے سب سے بڑے دشمن بن گئے اور عبداللہ بن وہب کی بیعت کر کے کوفہ سے نکل کر نہروان چلے گئے اور راستے میں بے گناہ لوگوں کا قتل عام کیا۔ امام علیؓ نے اتمام حجت کرنے کے بعد38ہجری کو ان کے ساتھ نہروان کے مقام پر جنگ کی، جس میں ان کی اکثریت مارے گئے لیکن ان میں سے بعض زندہ بچ نکلنے میں کامیاب ہو گئے ۔
خوارج کی مختلف فرقوں میں سے صرف فرقہ اباضیہ ایسے ہیں جن کے عقائد تقریبا دوسرے مسلمانوں کے قریب ہیں، عمان اور الجزائر کے بعض علاقوں میں اب بھی موجود ہیں ۔
اسلامی منابع میں خوارج کے مختلف خصوصیات ذکر ہوئی ہیں ۔
من جملہ ان میں قرآن میں تدبر اور تفکر کیے بغیر اسے حفظ اور اس کی تلاوت کرنے میں دوسروں سے پیش پیش ہونا، جہالت اور تنگ نظری، غرور، شدت پسندی اور عقائد میں تعصب ان کے چیدہ چیدہ خصوصیات میں سے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اسلام میں سب سے پہلے اعتراض کرنے اور تفرقہ ایجاد کرنے والا گروہ یہی خوارج تھے۔ ان کے عقیدے میں گناہ کبیرہ کا مرتکب ہونے والا کافر ہے ۔ اکثر خوارج پیغمبر اکرمؐ کی طرف سے خلیفہ منصوب ہونے کے مخالف اور خلیفہ کے انتخابی ہونے کے معتقد تھے۔ اسی طرح یہ لوگ بدکار عورت کو سنگسار کرنا اور قول و عمل میں تقیہ کرنے کے بھی مخالف تھے ۔ اگرچہ خوارج میں علمی بحث و مباحثے کا رجحان بہت کم پایا جاتا تھا لیکن علوم قرآن، کلام، فقہ اور اصول فقہ نیز توحید اور امامت کے موضوعات پر مختلف آثار ان سے منسوب کی جاتی ہیں۔ ابن ندیم کے مطابق خوارج اپنی کتابوں کو لوگوں کی مخالفت کی وجہ سے مخفی رکھتے تھے۔ خوارج کے اعتقادات اور ان کے اعمال کی رد میں مستقل اور غیر مستقل طور پر مختلف کتابیں لکھی گئیں ۔
خوارج کو امام علیؓ کے ساتھ دشمنی کی وجہ سے نواصب یا ناصبہ بھی کہا جاتا ہے۔ اسی طرح پہلی بار گناہ کبیرہ کے مرتکبین کو کافر قرار دینے پر انہیں مُکَفّرہ بھی کہا جاتا ہے۔
بصرہ کے خوارج کی تعداد کوفہ کے خوارج سے زیادہ تھی کیوں کہ کوفہ کے خوارج میں سے بہت سارے امام علیؓکے ساتھ گفتگو کے بعد خوارج سے جدا ہو گئے تھے لیکن اس کے بعد خوارج مختلف شہروں اور ان کے گرد و نواح میں منتشر ہو گئے اور ایران اور یمن سے لے کر افریقہ کے شمال تک پہنچ گئی۔
دوسری صدی ہجری کے درمیان سے خوارج بتدریج دینی، فقہی اور تاریخی کتابوں پر توجہ دینے لگے، یوں ان کے درمیان سے بھی راوی، علماء اور فقہاء پیدا ہونے لگے ۔
بعض محققین خوارج کے وجود میں آنے کی علل و اسباب میں حضرت عثمانؓ کے خلاف اٹھنے والی تحریک و دخیل سمجھتے ہیں ۔ ان کے علاوہ بعض دوسرے عوامل جیسے غنائم کی تقسیم میں امام علیؓ کے طور و طریقے سے ناراضی ار جنگ جمل اور جنگ صفین جیسے داخلی جنگوں کا آغاز جن میں پہلی بار مسلمان ایک دوسرے کے آمنے سامنے آ کھڑے ہوئے تھے کو خوارج کے وجود میں آنے کے علل و اسباب میں شمار کیا جاتا ہے۔
خارجیوں کے اعتقاد کے مطابق حضرت علی المرتضیٰؓ خلیفہ بر حق تھے۔ ان کی بیعت ہر مسلمان پر لازم تھی۔ جن لوگوں نے اس سے انکار کیا وہ اللہ اور رسولؐ اللہ کے دشمن تھے۔ اس لیے امیر معاویہؓ اور ان کے حامی کشتنی اور گردن زدنی ہیں۔ ان کے ساتھ کسی قسم کی صلح کرنا ازروئے قرآن کفر ہے۔ حضرت علیؓ نے چونکہ ان کے ساتھ مصالحت کرنے اور حکم قرآنی میں ثالث بنانے کا جرم کیا ہے۔ اس لیے ان کی خلافت بھی ناجائز ہوگئی۔ لہذا حضرت علیؓ اور امیر معاویہؓ دونوں کے خلاف جہاد لازم ہے ۔
حضرت علیؓ نے خارجیوں کو جنگ نہروان میں شکست فاش دی۔ لیکن ان کی شورش پھر بھی باقی رہی۔ چنانچہ حضرت علیؓ ایک خارجی ابن ملجم کے ہاتھوں شہید ہوئے۔ اس کے بعد امیر معاویہؓ کے عہد میں بھی ان کی بغاوتیں ہوتی رہیں اور ان کا دائرہ عمل شمالی افریقہ تک پھیل گیا۔ کوفہ اور بصرہ ان کے دو بڑے مرکز تھے۔ فارس اور عراق میں بھی ان کی کافی تعداد تھی۔ وہ بار بار حکومت سے ٹکراتے رہتے اور خلفاء سے کبھی خوش نہ رہتے۔ عباسی خلافت تک ان لوگوں کا اثر رسوخ رہا اور حکومت کے خلاف ان کی چھوٹی بڑی جنگیں جاری رہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ وہ پہلا گروہ تھا جس نے شدت پسندی کو شدت سے اسلام میں داخل کیا جس کے اثرات آج تک موجود ہیں ۔
اس عہد میں خارجی نے سر اٹھانا شروع کر دیا ہے ۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ اسلام دشمن شدت پسند عناصر مختلف ناموں سے ہمارے معاشرے میں موجود ہیں ۔ اسلام کی تعلیمات سے نابلد یہ طبقہ ریاست کے خلاف مسلح کارروائیوں میں ملوث ہے ۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ اس گروہ کا قلع قمع کیا جائے ۔ ان کو آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے اور ان کا سر کچلا جائے تاکہ کل وہ پھر سے سر اٹھانے کے قابل نہ رہیں ۔
اس سلسلے میں حکومت فوج اور عوام کا ایک پیج پر ہونا ضروری ہے۔

جواب دیں

Back to top button