Column

پوری ایک نمونہ ہے یہ کرکٹ ٹیم ہماری

تحریر : روہیل اکبر
پاکستان سمیت دنیا بھر میں کھیلوں کا عالمی دن اپریل کی 6تاریخ کو بھر پور شان سے منایا جاتا ہے، اس دن کو منانے کا مقصد دنیا بھر میں امن کے فروغ میں کھیلوں کے اہم کردار کو اجاگر کرنا ہے، کھیل تمام ثقافتوں میں خیر سگالی، صحت مندانہ مقابلہ اور تعاون کے حصول کا ایک مثبت طریقہ ہے، کھیلوں کا عالمی دن صحت مند طرز زندگی کو فروغ دینے کی اہمیت کو بھی اجاگر کرتا ہے، بین الاقوامی اولمپک کمیٹی دنیا بھر میں زیادہ سے زیادہ لوگوں تک کھیلوں کی رسائی دینے پر زور دیتی ہے اور اقوام متحدہ کھیلوں کو سماجی تبدیلیوں میں اہم سمجھتا ہی، اسی لئے 23اگست 2013کو اقوام متحدہ نے ترقی اور امن کیلئے کھیلوں کا عالمی دن ہر سال 6اپریل کو منانے کا فیصلہ کیا تھا جو1896میں ایتھنز میں پہلے جدید اولمپک گیمز کے آغاز کا دن تھا، اگر ہم پاکستان میں کھیلوں کا ذکر کریں تو ایک وقت تھا کہ دنیا بھر میں پاکستان کا نام صرف کھیلوں کی وجہ سے جانا اور پہچانا جاتا تھا، پاکستان کا قومی کھیل ہاکی ہے، ماضی میں ہم نے ہاکی میں بہت کامیابیاں حاصل کی ہیں، پاکستان نے اولمپکس میں 3گولڈ میڈل اور 4ہاکی ورلڈ کپ جیتے ہوئے ہیں لیکن آج ہماری ہاکی نہ صرف ختم ہوگئی بلکہ برباد ہی ہوگئی ہے، پاکستان ہاکی فیڈریشن کی زیادہ توجہ لڑائی جھگڑوں کی طرف ہے، کس نے کیا عہدہ لینا ہے اس پر سیاست ہوتی ہے اور کھلاڑی اپنے کھیل کے ساتھ ساتھ روزگار کی فکر میں ہیں جس کی وجہ سے ان کے دونوں کام ہی خراب صورتحال سے دوچار ہیں، ہاکی کے علاوہ ہم سکواش، سنوکر، کبڈی، بلائنڈ کرکٹ اور کرکٹ میں بھی ورلڈ چیمپئن رہ چکے ہیں لیکن اس وقت ہم سبھی کھیلوں سے باہر ہیں، رہی بات کرکٹ کی جو پوری قوم شوق سے دیکھتی ہے، اس کا بھی بیڑا غرق ہوچکا ہے، کرکٹ پر بات کرنے سے پہلے کھیلوں کے اس عالمی دن پر ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ دنیا بھر میں تقریباً 8ہزار کھیلیں کھیلی جاتی ہیں جبکہ 200کھیلوں کو عالمی سطح پر تسلیم کیا جاتا ہے، ہمارے ہاں گنتی کی چند کھیلیں ہیں جو کہیں نہ کہیں اب بھی کھیلی جارہی ہیں، ان میں والی بال، ٹینس، باکسنگ، بیڈمنٹن، ٹیبل ٹینس، گلی ڈنڈا، پٹھو گرم، کانچے، کوکو، ملھ پہلوانی (مڈ ریسلنگ) اور نیزہ بازی شامل ہے، رہی بات کرکٹ کی جو مسلسل بدنامی کا باعث بن رہی ہے، اس وقت ہماری کرکٹ ٹیم نیوزی لینڈ میں مسلسل ہار رہی ہے جس پر ڈاکٹر انعام الحق جاوید، ڈاکٹر طاہر شہیر اور محمد عارف کی کرکٹ پر مزاحیہ شاعری یاد آگئی، ان کی شاعری پڑھنے کے بعد مزید کچھ لکھنے کی ضرورت نہیں رہتی کیونکہ سب کچھ شاعری کی زبان میں خوبصورتی سے بیان کر دیا گیا ہے جو پوری قوم کی آواز ہے، سب سے پہلے ڈاکٹر انعام الحق جاوید صاحب کی زبانی ایک نجومی کا چیئرمین کرکٹ بورڈ کو مشورہ پڑھ لیں
آپ کی کرکٹ ٹیم کبھی بھی نہ ہارے گی
چاہے زحل اور مشتری یک جا ہو جائیں
لیکن اس کیلئے بس عرض ہے اتنی سی
ان کو کرکٹ میچ کبھی مت کھلائیں
ڈاکٹر طاہر شہیر نے اپنی نظم میں پوری کرکٹ ٹیم کا جو نقشہ کھینچ ڈالا وہی پوری قوم کی آواز ہے، اب اس نظم کا مزہ لیں
سب سے ہلکی ثابت ہو یا سب کے اوپر بھاری
پوری ایک نمونہ ہے یہ کرکٹ ٹیم ہماری
ساری دنیا میں نہ ہوں گے جیسے پلیئر ہمارے
90پہ ایک آئوٹ نہیں تھا 110میں سارے
میچ میں کس نے چلنا ہے یہ کچھ بھی سمجھ نہ آئے
40پہ ہوں 8آئوٹ عامر ففٹی کر جائے
ان کی بیٹنگ یوں ہی ہے کہ ایہہ آئے او چلے
ان ٹچ ان کے بیٹ رہیں اور زیرو میٹر بلے
اور اس خاطر بھی ہے جلدی سے سلپ میں کیچ پھڑانا
یہاں سے فارغ ہوکر ان کو شاپنگ پہ ہے جانا
لیٹ ہوئے تو وہی بلا بیگم پھڑ سکتی ہے
گھر کی تو روٹین ہے باہر بھی پھینٹی پڑ سکتی ہے
اور ماٹھے سے ماٹھا بولر بھی لا دے ان کو نکرے
بیٹنگ کرتے ہی آنکھوں میں کیوں پڑ جاتے ہیں ککرے
فاسٹ سپنر سب کے آگے ان پہ ہیبت طاری
پوری ایک نمونہ ہے یہ کرکٹ ٹیم ہماری
ان کی ہیٹرک کا مطلب ہے اس انداز سے کھیلیں
تین مسلسل گیندوں میں ہر گیند پہ سنگل لے لیں
اور ان کا ہر انداز نرالہ ایسے ہیں شہزادے
سینچری کا مطلب بالر نے پورے 100رنز کھادے
اور بائولنگ کی تو بات ہی چھوڑو ایسی گیندیں سٹیں
ایک اوور میں ساہ چڑھ جائے ایسے تھکے ٹٹے
لاسٹ کھلاڑی سے بھی اکثر چوکے چھکے کھائیں
وکٹیں ہیں مشرق میں تو مغرب میں گیند کرائیں
اور بائولرز کا ہے اکثر جتنا مسل پل ہو جائے
اتنے تو شہباز شریف نے بھی نہیں پل بنائے
توبہ ہے جو بائولر اپنے بائولنگ کریں معیاری
پوری ایک نمونہ ہے یہ کرکٹ ٹیم ہماری
میں تو کہتا ہوں کہ اب کچھ وکھری سوچ لڑائو
ایک سے کام نہیں بننا بیس 25کوچ لگائو
بولنگ بیٹنگ فیلڈنگ کا تو ہے ہی کوچ علیحدہ
ٹاس سکھائے ان کو رکھو وہ بھی کوچ علیحدہ
اور کوچوں کو سکھلائے آکر کوچنگ کوچ علیحدہ
ایک ایک پلیئر کو چاہئے اپنا میچنگ کوچ علیحدہ
پوری فلائنگ کوچ بھرے بس اتنے رکھو فوری
باہر سے بھی کوچوں کی بھر کے منگوا لو بوری
اور جتنے مرضی کوچ لگائو کھاتا ہے سرکاری
پوری ایک نمونہ ہے یہ کرکٹ ٹیم ہماری
فیلڈنگ کا تو کچھ نہ پوچھو حال کیا جو سب نے
ہاتھوں پر جیسے سرسوں کا تیل ملا ہو سب نے
جھک کر گیند نہیں پھڑتے کہ مہرے ہل نہ جائیں
ڈائی لگانے سے ڈرتے ہیں گوڈے چھل نہ جائیں
اور ان کی اس حرکت پہ ساڈا خون ایویں نہیں سڑدا
کیچ پھڑے ایسے جیسے انا ہو تتلی پھڑدا
مس فیلڈنگ سے رن دینا بھی ان کی ریت ہو جیسے
گیند کو نہیں یہ ہاتھ لگاتے گیند پلید ہو جیسے
یہ بھی ڈر ہے اچھا کھیلے کجھ عزت نہیں ر ہنی
مین آف میچ بنا تو اس کو انگلش بولنی پینی
کئی دفعہ انگلش کے ڈر سے ٹیم ہے اپنی ہاری
پوری ایک نمونہ ہے یہ کرکٹ ٹیم ہماری
اب مزاح نگار محمد عارف کی شاعری بھی پڑھ لیں، جنہوں نے قومی کرکٹ ٹیم کو چار چاند لگا دیئے
کیسے ممکن ہے ہم سری اپنی
کھیل کرکٹ کا بیسٹ کھیلتے ہیں
اس سے بڑھ کر ثبوت کیا ہوگا
ٹی ٹونٹی میں ٹیسٹ کھیلتے ہیں
اس کے برعکس پاکستان بلائنڈ کرکٹ ٹیم کی کارکردگی قابل تحسین رہی ہے، حال ہی میں پاکستان بلائنڈ کرکٹ ٹیم نے بنگلہ دیش کو دس وکٹوں سے شکست دے کر اپنا پہلا ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ بھی جیت لیا ہے، اس کامیابی نے ثابت کیا ہے کہ یہ ٹیم بھی کسی سے کم نہیں ہے، اس ٹیم کے کھلاڑیوں نے اپنی محنت اور لگن سے ثابت کیا ہے کہ اگر انسان میں جذبہ اور حوصلہ ہو تو کوئی بھی معذوری اس کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن سکتی، ہمیں اپنی کرکٹ ٹیم کی کارکردگی کو بہتر بنانے کیلئے ان کھلاڑیوں سے سیکھنا چاہئے جنہوں نے بغیر کسی سہولت اور معذوری کے ساتھ تین ورلڈ کپ جیت رکھے ہیں، کاش ہمارے بلائنڈ کھلاڑیوں کو بھی قومی کرکٹ ٹیم کے برابر نہ سہی ان سے آدھی مراعات ہی دیدی جائیں۔

جواب دیں

Back to top button