Column

مودی کا مسلمانوں کے مذہبی و ثقافتی ورثے پر حملہ

تحریر : محمد ناصر شریف

نریندر مودی کی قیادت میں بھارت تیزی سے انتہا پسند ہندو ریاست میں تبدیل ہورہا ہے، بی جے پی کی حکومت نے مسلم وقف املاک پر قبضے کیلئے نیا متنازع قانون متعارف کرایا۔ لوک سبھا نے بی جے پی حکومت کے پیش کردہ مسلم وقف املاک پر قبضے کا نیا بل سیکولر تنظیموں، مسلم جماعتوں اور اپوزیشن کی طرف سے شدید مخالفت کے باوجود منظور کرلیا، جس سے مودی حکومت کو وقف بورڈ کے فیصلوں میں مداخلت اور وقف املاک پر قبضہ کرنے کا اختیار مل گیا۔ بھارت کی لوک سبھا کے بعد راجیہ سبھا سے بھی وقف ترمیمی بل منظور ہو گیا۔ اس بل کا نام یونائیٹڈ وقف مینجمنٹ امپاورمنٹ، ایفیشنسی اینڈ ڈیولپمنٹ ایکٹ 1995ہے۔ نیا بل 1995کے وقف ایکٹ میں ترمیم کے لیے لایا گیا ہے۔ نئے بل کی شق کے مطابق صرف وہی شخص زمین عطیہ کر سکتا ہے جو مسلسل 5سال تک مسلمان رہا ہو اور عطیہ کی جانے والی جائیداد اس کی اپنی ملکیت ہو۔ نئے بل میں سروے کرانے کا حق وقف کمشنر کے بجائے کلکٹر کو دیا گیا ہے۔ حکومت کے قبضے میں وقف املاک سے متعلق تنازع میں کلکٹر کا فیصلہ موثر مانا جائے گا۔ اس بل کے مطابق وقف ٹریبونل کے فیصلے کو حتمی نہیں سمجھا جائے گا۔
بھارت میں 8لاکھ 72ہزار سے زائد وقف جائیدادیں ہیں اور مجموعی مالیت تقریباً 14ارب ڈالر ہے۔ قانون لاکھوں وقف جائیدادوں بشمول مساجد، قبرستانوں اور یتیم خانوں کو کنٹرول میں لینے کا منصوبہ ہے، یہ اقدام مسلمانوں کے مذہبی اور ثقافتی ورثے پر براہ راست حملہ ہے، بھارتی حکومت ہندو مذہبی ٹرسٹس کو تحفظ دے رہی ہے جبکہ مسلم املاک کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ دہلی کی 123وقف جائیدادوں میں پارلیمنٹ اسٹریٹ مسجد بھی شامل ہے، جو حکومتی قبضے میں آسکتی ہیں۔ صرف
حیدرآباد دکن میں سیکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں کی تعداد میں وقف جائیدادیں ہیں۔ حیدرآباد دکن میں وقف کی 77000جائیدادیں ہیں۔ اسی لیے اس شہر کو ہندوستان کا ’’ وقف کیپیٹل‘‘ سمجھا جاتا ہے۔ 30فیصد وقف املاک صرف حیدرآباد دکن میں ہے۔ حیدرآباد دکن میں وقف کے پاس بڑی جائیدادوں میں مکہ مسجد (400سال پرانی، 10ایکڑ سے زیادہ اراضی) پر مشتمل ہے ۔ جس کی تخمینی مالیت 5000کروڑ سے زیادہ ہے جبکہ چارمینار کے آس پاس دکانوں سے وقف کو ہر سال 50کروڑ روپے سے زیادہ کا کرایہ موصول ہوتا ہے ۔تیسری بڑی جائیداد دکن کے علاقے کے نظاموں کی طرف سے عطیہ کردہ ہزاروں ایکڑ زمین ہے۔ دہلی میں جامع مسجد اور آس پاس کی زمینوں کی مالیت 3000کروڑ روپے سے زیادہ کی ہے۔ حضرت نظام الدین اولیائؒ کی درگاہ کے علاقے میں ہوٹل اور دکانیں اس کے علاوہ ہیں۔ تلنگانہ سب سے امیر وقف بورڈ ہے۔ تلنگانہ اور آندھرا پردیش میں ایک لاکھ 20ہزار وقف جائیدادیں ہیں۔ آندھرا پردیش کے پاس شاہی مسجد ( کرنول) جیسے اثاثے ہیں جو 200سال سے زیادہ پرانا تاریخی اثاثہ ہے۔ کڑپہ اور اننت پور میں قابل کاشت زمینیں
ہیں۔ تلنگانہ وقف بورڈ کی سالانہ آمدنی 500کروڑ روپے ہے۔ آندھرا پردیش میں وقف اراضی کا 85فیصد دیہی علاقوں میں ہے۔ وقف املاک کے معاملے میں پہلے نمبر پر ریاست اتر پردیش ہے، جہاں ڈیڑھ لاکھ وقف املاک ہیں۔ جائیدادوں کی کل قیمت کے لحاظ سے ریاست اترپردیش دوسرے نمبر پر ہے اس کے پاس لکھنئو میں بڑا امام باڑہ اور مساجد کی زمینیں ہیں۔ کانپور، میرٹھ اور مرادآباد کے قریب صنعتی زمینیں اور مذہبی مقامات ہیں۔کرناٹک میں بھی وقف کے پاس قیمتی زمینیں ہیں ۔صرف بنگلورو، گلبرگہ، بیدر میں 30000سے زیادہ وقف املاک۔2023ء کی رپورٹ کے مطابق بنگلورو میں 90فیصد وقف اراضی پر غیر قانونی قبضہ ہے۔ مغربی بنگال میں کولکتہ اور مرشد آباد میں وقف کے پاس تاریخی مساجد اور مقبرے ہیں۔ دریائے ہوگلی کے کنارے تجارتی زمینیں ہیں۔
بھارت کی 5ریاستوں میں وقف کی سب سے زیادہ جائیدادیں ہیں۔ ان ریاستوں میں اتر پردیش، تلنگانہ، آندھرا پردیش، کرناٹک اور مغربی بنگال شامل ہیں۔ اجمیر ( راجستھان) میں صرف حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیریؒ کی درگاہ کے سالانہ عطیات 100کروڑ روپے سے زیادہ ہوتے ہیں ۔ ممبئی ( مہاراشٹر) میں حضرت حاجی علیؒ کی درگاہ ساحل کے قریب وقف کی انتہائی قیمتی پریمیم زمینیں ہیں۔ اتر پردیش میں وقف زمین کا 40فیصد قابل کاشت رقبہ ہے، جس سے بورڈ کو بہت زیادہ آمدنی ہوتی ہے۔کیرالہ میں وقف املاک کا انتظام سب سے زیادہ شفاف سمجھا جاتا ہے۔ یہاں یہ بھی یاد رہے کہ 75فیصد وقف املاک کی اصل قیمت سرکاری ریکارڈ سے بہت زیادہ ہے۔ اور ان گنت املاک پر قبضے بھی کیے جا چکے ہیں ۔
ایودھیا میں تاریخی بابری مسجد کے انہدام کے بعد ہندو مندر کی تعمیر کو سرکاری حمایت حاصل رہی، مودی حکومت کے ظالمانہ اقدامات جاری رہے تو بھارت میں عدم استحکام اور فرقہ واریت مزید گہری ہوسکتی ہے، اقوام متحدہ کو بھارت میں بڑھتے اسلامو فوبیا اور مسلمانوں کے بنیادی حقوق کی پامالی پر فوری توجہ دینی ہوگی۔
بھارتی شہر حیدرآباد کے رکنِ پارلیمان اسد الدین اویسی نے بھارتی لوک سبھا میں متنازع وقف ترمیمی بل احتجاجاً پھاڑ دیا۔ اسد الدین اویسی نے لوک سبھا میں کہا کہ اگر آپ تاریخ پڑھیں تو دیکھیں گے کہ مہاتما گاندھی نے سفید فام جنوبی افریقہ کے قوانین کے بارے میں کہا تھا کہ ’’ میرا ضمیر اسے قبول نہیں کرتا‘‘ اور گاندھی نے ان قوانین کو پھاڑ دیا تھا ، میں بھی مہاتما گاندھی کی طرح اس قانون کو پھاڑ رہا ہوں۔ یہ بل غیر آئینی ہے، بی جے پی مندروں اور مساجد کے نام پر اس ملک میں تفرقہ پیدا کرنا چاہتی ہے، میں اس کی مذمت کرتا ہوں، یہ بل آرٹیکل 25، 26کی خلاف ورزی ہے، وقف بل مسلمانوں کے ساتھ ناانصافی ہے۔ اس بل کے ذریعے سے مساجد اور مدارس کو نشانہ بنایا جارہا ہے، اپوزیشن رہنما راہول گاندھی نے کہا کہ یہ انتہا پسند ہندو قوم پرستوں کی جانب سے اقلیتوں پر حملہ ہے ۔ ہندو انتہا پسند حکومت کا کہنا ہے کہ اس سے احتساب کو فروغ ملے گا ۔ اپوزیشن کے مطابق بل کا مقصد مسلمانوں کو پسماندہ کرنا اور ان کے ذاتی قوانین اور جائیداد کے حقوق کو غصب کرنا ہے۔ لوک سبھا میں قائد حزب اختلاف راہول گاندھی نے سوشل میڈیا سائٹ ایکس پر لکھا، ’’ یہ آئین پر حملہ ہے۔ آج مسلمان نشانے پر ہیں، کل کوئی اور برادری نشانہ بن سکتی ہے‘‘۔ مسلم تنظیموں کا کہنا ہے کہ یہ بل وقف املاک پر حکومتی کنٹرول بڑھانے اور مسلمانوں کے مذہبی و سماجی حقوق محدود کرنے کی سازش ہے۔ مہاراشٹر سے پارٹی کے رکنِ پارلیمنٹ سنجے راوت نے کہا ہے کہ مودی آج جتنی مسلمانوں کی فکر کر رہے ہیں، اتنی تو بیرسٹر جناح نے بھی نہیں کی ہو گی۔ اُنہوں نے وقف کی زمینیں فروخت کر کے مسلمان لڑکیوں کی شادی کروانے کے وزیرِ داخلہ کے بیان پر اپنے ردِعمل میں کہا ہے کہ یہ بات کر کے مودی حکومت کا بھانڈا پھوٹ گیا، ان کا یہ بل لانے کا اصل مقصد ہی زمینیں بیچنا ہے۔ کانگریس کی رہنما سونیا گاندھی نے کہا ’’ وقف ترمیمی بل آئین پر حملہ ہے، مودی حکومت ملک کو کھائی میں گھسیٹ رہی ہے، مودی حکومت آئین کو بھی برباد کرنا چاہتی ہے۔ ہم سب کیلیے ضروری ہے کہ صحیح بات کیلیے لڑتے رہیں‘‘۔
بھارتی ریاست تامل ناڈو کے وزیرِ اعلیٰ ایم کے اسٹالن نے تو وقف ترمیمی بل کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ وزیرِ اعلیٰ ایم کے اسٹالن نے بل کی شدید مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ ان کی جماعت ڈی ایم کے وقف ترمیمی بل کے خلاف سپریم کورٹ میں جائے گی، ترمیمی بل وقف بورڈ کی خود مختاری کے خلاف ہے۔ اس سے اقلیتی مسلم آبادی کو خطرہ لاحق ہے۔ کل جماعتی حریت کانفرنس نے بھارتی پارلیمنٹ میں متنازعہ وقف ترمیمی بل کی منظوری پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اسے بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر اور بھارت میں مسلمانوں کی مذہبی آزادی اور غیر قانونی طور پر مسلمانوں کے بنیادی حقوق پر براہ راست حملہ قرار دیتے ہوئے اس کی شدید مذمت کی ہے۔ ترجمان ایڈووکیٹ عبدالرشید منہاس نے سرینگر میں ایک بیان میں کہا کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کی ہندوتوا حکومت کی جانب سے منظور کیا گیا وقف ترمیمی بل انتہائی افسوس ناک اور ہندوتوا پالیسیوں کے سامنے جھکنے کے لیے مسلمانوں پر حملہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ دانستہ طور پر مسلمانوں کے مذہبی اور کمیونٹی اداروں کو کمزور کرنے اور ان پر قبضہ کرنے کی کوشش ہے۔
بی جے پی کے اس گھنائونے دائو پیچ سے واضح ہوچکا ہے کہ غریب مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے نام پر انہیں لوٹنے کی سازش سے اب سیکولر بھارت قصہ پارینہ بن چکا ہے، آج کا بھارت ہندو انتہا پسندی کی جیتی جاگتی تصویر ہے، جہاں اقلیتیں محفوظ ہیں نہ ان کی جان و مال، اب تو اقلیتوں کے تاریخی ورثوں کو بھی ہندو انتہا پسندوں کو سونپنے کی تیاری کرلی گئی ہے، بھارت دنیا میں پہلا ملک بن گیا ہے، جہاں کسی اقلیت سے اس کے کنٹرول میں سیکڑوں سال سے موجود جائیدادیں ہتھیائی جائیں گی۔
محمد ناصر شریف

جواب دیں

Back to top button